113

توہین قرآن اور ہماری ذمہ داریاں/تحریر/عبدالصبور شاکر فاروقی

قرآن مجید لاثانی و لافانی کتاب ہے۔ اسے اپنی اہمیت جتانے اور فصاحت و بلاغت بتانے کے لیے کسی شخصیت، قوم یا افراد کی ضرورت نہیں ہے۔ حتی کہ اسے اپنے تحفظ اور تبدیلیوں سے پاک رکھنے کے لیے بھی کسی کے کندھے درکار نہیں ہیں۔ اس کا پیغام آفاقی اور انداز سہل ہے۔ اس کے ماننے والے کروڑوں میں ہیں جب کہ اس کے منکرین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ اس کا انکار کرنے والے آج تک اس کے چیلنجوں کو نہ تو قبول کر سکے، نہ ہی کسی پیغام کا ٹھوس رد کرنے کی ہمت ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتاب، کلام الہی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالق کائنات نے اٹھا رکھی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ”بےشک ہم نے ہی ذکر کو اتارا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔” اس کتاب کو اللہ رب العزت نے پچاس کے قریب مقامات پر اپنی جانب منسوب کیا ہے۔ چنانچہ اس کی بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ برطانیہ میں ایک مذہبی ہم آہنگی کے اجتماع میں کہا گیا کہ ہر مذہب والا word of God کی تلاوت کرے۔ سوائے قرآن کے پیروکاروں کے کوئی اٹھ کر ایک لفظ نہ پڑھ سکا کیونکہ باقی تمام کلام براہ راست Word OF God نہیں تھے۔ ہر ایک یا تو ترجمہ تھا، یا پھر ترجمے کا بھی ترجمہ۔ جس کا مفہومِ بدلے کچھ کا کچھ ہو گیا ہے۔ بالفرض! پھر بھی اگر کسی کا جی چاہے تو قرآن مجید کے مندرجہ ذیل چیلنج کو قبول کر سکتا ہے: ”کہہ دو کہ : اگر تمام انسان اور جنات اس کام پر اکٹھے بھی ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا کلام بنا کرلے آئیں، تب بھی وہ اس جیسا نہیں لاسکیں گے، چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کرلیں۔” (بنی اسرائیل:88)

مزید یہ کہ اس کے بعد قرآن نے پوری دنیا کو اس جیسی دس آیات اور پھر آخر میں ایک آیت لانے کا چیلنج دیا لیکن چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک یہ چیلنج کوئی نہیں توڑ سکا۔ مسیلمہ کذاب سے اس کے مقلدین نے کہا کہ تم اس کے مقابلے میں کوئی آیت لا کر دکھاؤ، تاکہ ہم مسلمانوں کو دکھا سکیں۔ اس نے ایک سورت کہی: الفیل و ما الفیل و ما ادراک مالفیل؟ یعنی ”ہاتھی اور کیا چیز ہے ہاتھی؟ اور تمھیں کیا معلوم کہ ہاتھی کیا چیز ہے؟ ” اس کلام کو جب اس کے اپنے نام نہاد امتیوں نے سنا تو ٹھکرا دیا کہ قران تو آسمان، زمین اور اونٹ جیسی چیزوں میں غور کرنے کی دعوت دیتا ہے جو ہر وقت ہمیں میسر ہیں اور تم ہاتھی کی بات کرتے ہو جو پورے عرب میں کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ کیوں کہ عرب ریگستانی علاقہ ہے، جہاں ہاتھی جیسے خوش خوراک و کثیر طعام جانور کا پایا جانا ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا تمھارے کلام کی قلعی یہیں کھل جاتی ہے۔

کفار مکہ کو بھی شوق اٹھا کہ اس چیلنج کو قبول کیا جائے۔ انھوں نے ایک بہت بڑے فصیح و بلیغ شخص کی خدمات حاصل کیں کہ سورت الکوثر کا جواب لکھ دے۔ اس نے دو سال کی محنت کے بعد صرف ایک جملہ لکھا: لیس ھذا کلام البشر (یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے)۔ لبید بن ربیعہ کے قصیدے کا شمار ان سات قصائد میں ہوتا ہے جو خانہ کعبہ میں اس غرض سے لٹکائے گئے تھے کہ فصاحت و بلاغت میں ان کے ہم پلہ کلام ہو تو لاؤ۔ جب قرآن مجید کی سورۃ الکوثر کسی نے لٹکائی تو اس نے اپنا قصیدہ یہ کہتے ہوئے اتار لیا کہ یہ اس چھوٹی سی سورت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شعر کہنے سے توبہ کر لی۔ اگر کوئی مطالبہ کرتا تو آگے سے کہتا کہ قرآن مجید پڑھو، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

معلوم ہوا کہ قران مجید لاثانی و لافانی کلام ہے۔ اس میں کہی گئی باتیں اس قدر مضبوط اور مستحکم ہیں کہ ان کا رد کسی کے بس کی بات نہیں۔ معروف فرانسیسی سائنس دان موریس بکائیے نے جب اس کا دقت نظری سے مطالعہ کیا تو اس کی حقانیت کا قائل ہو گیا۔ حال ہی میں امریکہ کے بہت بڑے پادری ہلیرین ہیگی جو مخالفت اسلام میں پیش پیش رہتا تھا، نے بھی دامن اسلام میں آ کر پناہ لی ہے۔ یہ فہرست مختصر نہیں، بلکہ اتنی لمبی ہے کہ اسے مرتب کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ سراسر قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو نہ صرف متاثر کرتا، بلکہ سننے والوں کے دل میں اتر جاتا ہے۔ طفیل بن عمرو دوسی نے اسے سنا تو اس کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ اسلامی تاریخ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ وہ بھی سورۃ طہ کی چند آیات مبارکہ پڑھ کر ہی مسلمان ہو گئے تھے۔ بادشاہ حبشہ نجاشی نے سورہ مریم سنی تو تنکا اٹھا کر بولا:قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوا ہے، ابن مریم اس تنکے کے برابر بھی اس سے ادھر ادھر نہ تھے۔

درج بالا باتیں سن کر کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ قرآن مجید شاید کوئی ادب کی کتاب ہے کہ جس کی فصاحت و بلاغت کے آگے سب کچھ ہیچ ہے۔ بلکہ اس میں کہی گئی باتیں اس قدر درست اور پرفیکٹ ہیں کہ انھیں جھٹلانا ممکن نہیں۔ سائنس، ادب، لغت، طب اور ان جیسے سینکڑوں علم اس سے خوشہ چینی کرتے ہیں۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب قرآن مجید میں اتنی زیادہ خصوصیات ہیں تو اس کی توہین کیوں کی جاتی ہے؟ میرے نزدیک اس کی چند ایک وجوہات ہیں۔سب سے پہلی یہ کہ اہل قرآن ہی قرآن کے بنیادی حقوق سے غافل ہیں۔ قرآن مجید کے بنیادی پانچ حقوق ہیں: اس پر دل و جان سے ایمان لانا، اس کی تلاوت کرنا، اس پر غور و فکر کرنا اور سمجھنا، اس پر عمل کرنا اور پھر اس سمجھے ہوئے کو آگے پھیلانا تاکہ دوسرے بھی اس کو سمجھ کر اس پر عمل کر سکیں۔ جب کہ ہم نے اسے محض تبرک، ایصال ثواب اور دیگر رسومات کے لیے رکھ چھوڑا ہے۔ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ قرآن کے بنیادی مضامین کون کون سے ہیں؟ وہ کن موضوعات پر بات کر کے ہمیں جھنجھوڑنا چاہتا ہے؟ وہ بار بار ہمیں کیوں افلایعقلون، یتدبرون جیسی آیات سے اپنی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے؟

جب ہم قرآن مجید کے بنیادی حقوق و آداب سے تغافل برتتے ہیں تو کافر کو جرات ہوتی ہے کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرے۔ دوسرا یہ کہ ہم سیاسی، معاشی اور معاشرتی زوال کا شکار ہیں۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں بار بار جرات ہوتی ہے کہ وہ ہمیں چڑانے کے لیے ہماری کتاب کی بے حرمتی کرتا ہے اور ہم سوائے خالی احتجاج کرنے اور کوسنے دینے کے کچھ نہیں کر پاتے۔ جب دشمن ہماری سچائی کا مقابلہ نہیں کر پاتا تو وہ ہماری سچائی کو بھی ہم سے چھیننا چاہتا ہے تاکہ ہم بھی اسی کی طرح باطل کی دلدل میں دھنس جائیں اور جہالت کو اپنے گلے سے لگا لیں۔ ہماری پستی اور بے بسی دیکھ لیں کہ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں قرآن پاک کی بے حرمتی ہوتی ہے، جس کے ردعمل میں چند جوشیلے نوجوان چرچ جلا دیتے ہیں۔ ہم ان کی صفائیاں دینے میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام کسی کا عبادت خانہ جلانے سے روکتا ہے۔ (یہ بات درست بھی ہے کہ اسلام کسی کے مذہبی شعائر کی توہین کی اجازت ہرگز نہیں دیتا) لیکن کسی کو یہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہو رہی کہ پہلے اسلامی جمہوریہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کس نے اور کیوں کی؟ جس کا یہ ردعمل ظاہر ہوا؟ آخر وہ کون مجرم ہے جو اس شنیع فعل کا اولین مرتکب ہوا؟ کیا مسیحیت اجازت دیتی ہے کہ کسی کی مذہبی کتاب کی توہین کی جائے؟ اگر اس شخص کے فعل کو مسیحیت سے جوڑنا درست نہیں تو چرچ جلانے والوں کا تعلق کیوں اسلام کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے؟؟؟


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں