محمد مسعود کی جاب ختم ہوگئی ، وہ پچھلے چھ ماہ سے بے روز گار تھا ، روزگار کے لیے بہت کوشش کی مگر کسی بھی طرح سے کوئی راستہ نہ نکل رہا تھا ، بچوں کی فیس ادا کرنےاور گھر کے کرایہ ادا کرنے کے لیے بھی پیسے نہ تھے ، سوشل میڈیا میں قرض دینے والی ایپ کا اشتہار دیکھا تو قرض ایپ ڈون لوڈ کرلی اور 25 ہزار روپے کے لون کی درخواست کردی ، اور کچھ ہی دیر میں 13 ہزار موصول ہوگئے ، ابھی کچھ ہی دن گزرئے تھے ، کہ لون ایپ والوں کے فون آنے لگے اور واپسی کا مطالبہ کرنے لگے ، چند رابطوں کے بعد ان کا رویہ سخت ہونے لگا ، دھمکیاں دینے لگے ، محمد مسعود نے دوسری ایپ سے لون لینے کا فیصلہ کیا اور اس میں بھی ایسا ہی ہوا اور یوں ایک ایپ کے قرض کو اتارنے کے لیے دوسری ایپ سے پیسے لیتا گیا اور ان کے جال میں پھنستا گیا ،محمد مسعود نے 7 لاکھ روپے واپس کیے مگر وہ سارے سود کے طور پر ادا کیے ، جبکہ اصل رقم ابھی باقی تھی ، لون ایپ کے نمائندوں نے رشتہ داروں اور دوستوں سے رابطے کیے ، ان کو اس بارے آگاہ کیا ، اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ شروع کردیا ، دوسری طرف سے اس کی گھریلو تصاویر کو وائرل کرنے کی دھمکی دینے لگے اور بلیک میل کرنے لگے ، محمد مسعود نے ذہنی تکلیف کا شکار ہوگئے ، اپنی فیملی کے نام ایک مختصر مگر دلخراش پیغام دیا اور پھندے پر جھول کر موت کو گلے لگا لیا ۔
کاشف علی اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے آبدیدہ ہوگے، وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک بہت اچھی کمپنی میں جاب کر رہا تھا ، اس کی زندگی کا گزر بسر بہت اچھا چل رہا تھا ،ایک مجبوری کی غرض سے 19 ہزار کا قرض لون ایپ سے لیا ، اس کے بعد اس دلدل میں پھنستا ہی گیا ، ایک بعد ایک ایپ ڈون لوڈ کی قرض لیا اور دوسری کو دے دیتا ، ایک پلاٹ والد صاحب نے بہت مشکل سے خریدا تھا ، وہ بھی فروخت کر کے انہی کو دے دیا ، کچھ کمیٹیوں کے پیسے تھے ، جس سے پلاٹ پر گھر بنانا تھا ، وہ بھی انہی کو دے دیں ، تنخواہ بھی اسی کھاتے میں چلی جاتی ، گھر میں بچوں کے لیے دودھ کے پیسے نہیں ہوتے تھے ، ایک وقت آیا دریا کی پل پر کھڑا ہو کر خودکشی کی کوشش کی ، لیکن ہمت نہ ہوئی ،گھر واپس چلا گیا ، اب کچھ ہوہمت اور حوصلہ ملا ہے کہ اب نہ تو ان کے پیسے دوں گا اور نہ ہی ان سے بلیک میل ہوں گا۔
سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والے بخوبی اس بات سے واقف ہوں گے ، کہ کسی بھی ویڈیو کے شروع میں یا درمیان ویڈیو کےاشتہار چلائے جاتے ہیں ، جس میں اکثر لون ایپ کے ہوتے ہیں ، جس میں وہ ہر مڈل کلاس کی مجبوری کا تذکرہ کرکے اس بات پر ابھارتے ہیں کہ ہم سے آسان قسطوں پر قرض لیں ، بے روزگاری اور مہنگائی کے ستائے لوگ اپنی وقتی مجبوری کے لیے اس جال میں پھنس جاتے ہیں ، ایک رپورٹ کے مطابق ڈھائی کروڑ لوگوں نے لون ایپ کو ڈاون لوڈ کیا ہے ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک کتنا پھیلا ہوا ہے ، اس کے لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ ان لون ایپ کے خلاف ایکشن لے اور اس میں ملوث افراد کو سخت سزا دے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب مجبور شخص کیا کرے ، وہ مشکل وقت میں کس طرح اپنے لیے راستہ نکالے ، کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غریب شخص کو کوئی بھی ادھار نہیں دیتا ، تو اس کا بہترین حل موجود ہے اور اس کے تحت کام بھی ہورہا ہے ، ساہیوال میں جامعہ الحسن ایک دینی ادارہ ہے ، اس کے مختلف شعبہ جات ہیں ، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق کام کر رہے ہیں ، اسی ادارے نے 2016میں ایک شعبہ الحسنہ کے نام سے بنایا تھا،کچھ اہل خیر نے قرض حسنہ کے مقصد سے رقم دی ،جس کی بنیادی رقم 5 لاکھ 80 ہزار تھی ، جس کے ذریعے سے غیر سودی قرض حسنہ دیا جاتا ہے ، جو 25 سے 30 ہزار تک ہوتا ہے ، اور یہ علاقائی سطح کے لوگوں کے لیے ہے ، اس کو آسان اقساط میں واپس کرنا ہوتا ہے اور وہ قرض لینے والے کی طرف سے اس کی سہولت کے مطابق طے ہوتا ہے ،گذشتہ 6 سالوں میں 90افراد کو قرضہ دیا گیا ، اور اس کی مجموعی رقم دیکھی جائے تو وہ 23 لاکھ بنتی ہے ، اور اس قرض کی واپسی کی شرح 98 فیصد ہے اور 2 فیصد میں کچھ مسائل آئے ، مگر بہت اچھے نتائج ملے ہیں ۔
بحیثیت مسلمان ہم قرض حسنہ دینے کے اجر و ثواب سےواقف ہیں ، لہذا علاقی سطح پر کچھ ایسے نظم ضرور بنائے جائیں ، جس میں غیر سودی قرضے دیے جائیں ، تاکہ لوگ سود اور اس کی نحوست ،لعنت و ملامت سے بچ سکیں ، یقینا یہ بہت خیر کا کام ہے جس میں صاحب ثروت لوگوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔
