یاد رہے! حجاب کوئی رسم یا فیشن نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی مذہب یا تہذیب کے خلاف اعلان جنگ کا نام ہے۔ حجاب خواتین کے لیے شرم و حیا کی ضمانت اور بقائے عفت کا ذریعہ ہے۔اس کا مقصود صرف عورت کی جسمانی ساخت کو ڈھانپنا ہی نہیں، بلکہ یہ خواتین کو بیمار ذہنیت والے مردوں کی بد نگاہی اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ اور ڈھال بھی ہے۔ حجاب محض کپڑے کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام اخلاق کا نام ہے جو حیا ، عفت اور عصمت جیسے اوصاف پر استوار ہے۔
اسلامی حجاب عورت کا وقار ہے، خواتین میں جو برقع پہننے کا رواج ہوا ہے یہ دورِ نبوت کی پاکیزہ خواتینِ اسلام کے عمل سے ہی ماخوذ ہے، برقع بھی اسی چادر کے قائم مقام ہے جس کا تذکرہ قرآنِ کریم میں لفظ جلباب سے کیاگیا ہے؛ البتہ پہلے زمانے میں برقعے نہیں بلکہ چادریں ہوا کرتی تھیں اور خواتین اسی قسم کی چادروں (برقعوں) کو پسند کرتی تھیں، جو پورے بدن کو بھی چھپالیتے تھے اور عورت کی شرافت کو بھی ظاہر کرتے تھے؛ لیکن آج کے دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مارکیٹ میں ایسے برقعے آگئے ہیں جن سے برقع کا مقصد ہی فوت ہورہا ہے، کپڑا اتنا باریک کہ جس سے اندر تک کا لباس نظر آتا ہے۔ سائز اتنا تنگ کہ جس سے جسم کی ساخت بھی ظاہر ہوتی ہے، رنگ برنگ دھاگوں کے پھول، ڈیزائن، رنگوں چمکیوں اور موتیوں وغیرہ سے مزین بڑے بڑے قیمتی اور جاذبِ نظر برقعے آج مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جن کے پہننے سے کبھی برقع کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ جو بجائے حیا کے بے حیائی کو ظاہر کرتے ہیں اور ساتھ ہی بہت سی خواتین پورا چہرہ یا آدھا چہرے کھلا رکھتی ہیں اور برقع پہننے کے باوجود سرکے بال برقع کے باہر ڈالے رکھتی ہیں اور بعض خواتین نوزپیس اس طرح لگاتی ہیں کہ پیشانی، بھویں اور ناک کا حصہ کھلا رہتا ہے، جو کھلی ہوئی بے حجابی اور بے غیرتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جب کہ انسانیت دم توڑ رہی تھی، فحاشی وبے حیائی اور جنسی انارکی بھی عروج پر تھی، پردہ کا ماحول بالکلیہ ختم ہوتا جارہا تھا، سوائے عرب کے کچھ شریف خاندانوں کے جو اس آوارگی سے دور تھے اور اس کو معیوب سمجھتے تھے؛ لیکن اکثریت فحاشی اور بے حیائی کے اس سیلاب میں بہتی جارہی تھی اور یہ بے حیائی اس حد تک بڑھ رہی تھی کہ عورتیں بے شرمی کے ساتھ بلاجھجھک اجنبی مردوں کے سامنے بازاروں اور گلی کوچوں میں بے پردہ بن ٹھن کر پھرا کرتی تھیں، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا، اسلام نے اس آوارگی اور بے حیائی پر سختی سے روک لگائی، عورتوں اور مردوں کے بے محابا اختلاط کو روکا، خواتین کو گھروں کی چاردیواری میں محدود رہنے کی ہدایت کی اور ضرورت کے وقت باہر نکلنے کے لیے بھی برقع یا لمبی چادروں سے پورا بدن چھپاکر اور سڑک کے کنارے چلنے کی ہدایت کی، خوشبو لگا کر بجنے والا زیور پہن کر باہر نکلنے کی ممانعت کی اور پھر جو ان سب حدود و قیود اور پابندیوں کے حصار کو پھاند کر باہر نکل جائے تو اس کے لیے سخت عبرت ناک سزائوں کا اعلان کیا۔
یہ سب اس لیے کیا؛ تاکہ معاشرہ سے بے حیائی اور آوارگی ختم ہو جو انسانیت کے لیے نہایت ہی مہلک ہے اور معاشرہ میں عصمت و عفت کے پھول کھلیں اور انسان ایک صالح زندگی گذار سکیں، یہ حقیقت ہے کہ فحاشی وے بے حیائی اور جنسی انارکی کے خاتمہ کے لیے پردہ ایک بنیادی شئے کی حیثیت رکھتا ہے؛ اسی لیے اسلام نے پردہ پر بہت زوردیا۔
اسلامی حجاب کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کو گھروں میں قید کردیا کہ وہ ہمیشہ اندر ہی رہیں کبھی باہر نہ نکلیں، جیسا کہ آج کے نام نہاد روشن خیال اور جدید تہذیب کے جھوٹے علمبرداروں کا خیال ہے؛ بلکہ اسلام نے خواتین کو ضرورت کے وقت پردہ کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دی ہے؛ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
(ترجمہ( اے پیغمبر! آپ اپنی بیویوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں تھوڑی سی اپنے اوپر لٹکائیں، اس میں یہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں اور کوئی ان کو نہ ستائے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الأحزاب:59)
اس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ اگر خواتین کو ضرورت کے وقت باہر نکلنا پڑے تو وہ لمبی چادریں (یا برقع وغیرہ) پہن کر باہر نکلیں۔ اس سے پردہ شرعی کے حکم کی تعمیل بھی ہو جائے گی اور بہت سہولت کے ساتھ اوباش اور شریر لوگوں سے حفاظت بھی ہو جائے گی۔
باحجاب خواتین اپنی ضروریات زندگی نہایت احسن طریقے سے پوری کرسکتی ہیں بلکہ پوری کرتی ہیں۔پردہ کسی بھی کام میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنتا۔ یہ مغربی ذہن ہمارے اس احساس کمتری کا سبب بن گیا ہے کہ باحجاب خواتین معاشرے کی نارمل خواتین نہیں ہوتیں۔انہیں اپنے گھریلو مسائل حل کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور پھیلاتے ہیں انھیں پتا ہی نہیں کہ پردہ اور حجاب میں رہتے ہوئے بہت سارے وہ کام بھی کیے جاسکتے ہیں جو بے پردہ خواتین ہرگز نہیں کرسکتیں۔
حجاب امت مسلمہ کے لیے ضروری کیوں؟
یہ سچائی اب آہستہ آہستہ دنیا تسلیم کرتی جارہی ہے کہ حجاب ظلم و جہالت کی نشانی نہیں ہے بلکہ خواتین کی دینی اور تہذیبی شناخت بھی ہے اور ان کی حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ بھی۔ حجاب ایک اعزاز ہے جو اسلام ہی اپنے خواتین کو عطا کرتا ہے تاکہ وہ معاشرے کی خونخوار نظروں سے محفوظ رہیں۔حجاب یا برقع کا حکم اللہ پاک نے سورۃ نور میں بیان کیا ہے۔ مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے،لوگ جو کچھ کریں،اللہ تعالیٰ سب سے خبر دار ہے۔(سورہ نور،آیت نمبر 30)۔ اسی سورہ کی آیت نمبر 31کے پہلے حصے میں فرمایا ہے کہ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچے رکھیں اور اپنی عصمت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔
حجاب اسلامی طرز زندگی کا حصہ ہے اور ہمیں اسلامی تعلیمات کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے لاگو کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ قرآنی تعلیمات سب سے پہلے مردوں سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں۔ اس کے بعد خواتین کو بھی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنے سینے کو ڈھانپے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد ان اعلیٰ اقدار کو معاشرے کا اہم حصہ بنانا ہے۔ اسلام نے خواتین کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی زینت کی جگہوں کو ڈھانپ کر رکھیں۔ زینت کی جگہوں کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ مرد و عورت کے مخصوص جسمانی خدوخال کو چھپانا حجاب کے زمرے میں آتا ہے اور لمبا کوٹ یا قمیض، برقع اور نقاب کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے ممالک ہیں جہاں پردے پر جزوی یا مکمل پابندی عائد ہے،جن میں سر فہرست بلجیم ، فرانس، ہالینڈ ، اٹلی ، اسپین ، ڈنمارک ، آسٹریا، جرمنی ،روس، سوئیزر لینڈ، نیدرلینڈ، بلغاریہ ،ترکی اور بھارت وغیرہ۔
جبکہ بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں حجاب پر مکمل طور پر تو پابندی نہیں مگر بعض مقامات میں حجاب پر مکمل پابندی ہے تعلیمی ادارے ،تفریحی مقامات اور آفس وغیرہ ۔
یورپ میں برقع وحجاب پر اگرچہ پابندی لگادی گئی ہے؛ مگر وہاں کے دانشوروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے، اس قانون کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے، اس حوالے سے یورپ کی انسانی حقوق کونسل کے کمشنر تھامس حمار برگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اس طرح کے اقدامات سے خواتین کو آزادی دینے کی بجاے انہیں معاشرتی زندگی سے ہی نکال باہر کیا جارہا ہے۔ درحقیقت برقع پر پابندی، یورپ کے انسانی حقوق کے معیارات اور خاص طور پر کسی کی نجی زندگی اور ذاتی شناخت کے احترام کے منافی ہے۔ جس طریقے سے مسلم خواتین کے لباس کے معاملے کو اچھالا جارہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے بحث اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔“
یاد رہے! حجاب کوئی رسم یا فیشن نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی مذہب یا تہذیب کے خلاف اعلان جنگ کا نام ہے۔ حجاب خواتین کے لیے شرم و حیا کی ضمانت اور بقائے عفت کا ذریعہ ہے۔اس کا مقصود صرف عورت کی جسمانی ساخت کو ڈھانپنا ہی نہیں، بلکہ یہ خواتین کو بیمار ذہنیت والے مردوں کی بد نگاہی اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ اور ڈھال بھی ہے۔ حجاب محض کپڑے کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام اخلاق کا نام ہے جو حیا ، عفت اور عصمت جیسے اوصاف پر استوار ہے۔
کچھ عرصہ قبل امریکا ہی کی ایک ہسپانوی النسل نو مسلمہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی ہوں تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا، گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری، ایک کرب انگیز اور مشکل عمل تھا۔ پھر جب میں کسی اسٹور، ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں، جاتی تھی تو خود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی، میں بظاہر آزاد وخود مختار ہوتی تھی؛ لیکن فی لحقیقت دوسروں کی پسند ونا پسند کی قیدی ہوتی تھی، پھر یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اور عمر ہے، لوگ میری طرف متوجہ ہیں، عمر ڈھل جانے کے بعد خود کو قابل توجہ بنانے کے لیے مجھے اور زیادہ محنت کرنی پڑے گی؛ لیکن اب اسلامی پردے نے ان الجھنوں سے مجھے یکسر بے فکر وآزاد کردیا ہے۔(الحمدللہ)“
آخری بات! عصر حاضر میں بہت سے برینڈ نت نئے ڈیزائن کے عبایا اور حجاب بنانے پر لگے ہوئے ہیں،انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ایسے عبایا اور حجاب کا حجاب سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے کیونکہ ایسے حجاب کو خود حجاب کی ضرورت ہے ،تمام بہنوں اور بیٹیوں کی خدمت میں دست بستہ گذارش ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عبایا اور حجاب کا استعمال لازمی کریں مگر ایسے نام نہاد برینڈز کے ایمبیسڈر بننے سے اجتناب کریں ۔
ابتداء اسلام میں پردے کے لیے چادر کو اوڑھا جاتا تھا۔ قرآن مجید میں جلباب کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب “چادر اوڑھنا” ہے۔ برقع اسی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ چادر اوڑھنے کے اس طریقے میں مروجہ برقع کی نسبت زیادہ پردہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس میں صرف ایک آنکھ نظر آتی تھی، باقی سارا جسم نہ صرف ڈھکا ہوتا تھا بلکہ جسم کے خد و خال بھی نظر نہیں آتے تھے۔ جدید دور میں برقعوں کے نت نئے فیشنوں سے برقع کا مقصد اصلی فوت ہو کر رہ گیا ہے۔