130

حسینیت کو اپنائیں/تحریر/محمد زاہد جمیل

محمـــــد زاھــــــد جمیــــــل

آج کل یہ بہت بڑا المیہ بن چکا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صرف شہادت کا ہی ذکر کیا جاتا ہے، اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ان کی شہادت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، اس سے ہماری زندگیوں کو ” مقصدِ زندگی” ملتا ہے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا، ان پر جو ظلم کے پہاڑ ٹوٹے دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، لیکن یہ بات بھی تو قابلِ غور ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوتے ہی تو میدان کربلا نہیں پہنچ گئے تھے، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب کربلا کے میدان میں پہنچے تو ان کی عمر 58 سال تھی، کیا وجہ ہے کہ ابتدائی چھ سال بھی بڑے زور و شور سے بیان کیے جاتے ہیں اور واقعہ شہادت بھی بڑے افسوس کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے لیکن درمیان کی 52 سالہ زندگی کہاں گئی؟ اس کو کیوں بیان نہیں کیاجاتا ؟ کیا اس 52 سالہ زندگی کا کوئی ایسا روشن پہلو نہیں جو دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے؟ ان کے عام دنوں میں شب و روز کیسے گزرے کیا یہ امت کے سامنے لانے کی ضرورت نہیں؟ ان کے اعلیٰ اخلاق، عمدہ اوصاف، بہترین کمالات، عادات و اطوار، عبادت و ریاضت، فیاضی و سخاوت، ایثار و محبت، معرفتِ الٰہی اور متبعِ سنتِ نبوی ہونے جیسی خصوصیات کا ذکر نہ کرنا کیا اس بات کا ثبوت نہیں پیش کر رہا کہ ہم لوگ حسینیت کو صرف بیان کرنا چاہتے ہیں اپنانا نہیں چاہتے۔

آئیے! اس جنتی نوجوانوں کے سردار کی زندگی کے چند پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں، اس کے بعد اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم حسینی ہونے کے دعوے میں کتنے سچے ہیں؟

کثرتِ عبادت!

انسان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی حاصل کرنا ہے، اس کے حصول کے لیے جنتی جوانوں کے سردار ہونے کے باوجود حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرتے تھے، سوتے وقت سورۃ الکہف کی تلاوت کا معمول تھا، آپ نے 25 حج کیے جن میں اکثر پیدل تھے، رات کے اول حصے میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبادت کرتے اور رات کے آخری حصے میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو جاتے، نماز پڑھتے، رو رو کر دعائیں کرتے، کثرت سے استغفار کرتے، اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز کرتے، آپ کی یہ عادتِ مبارکہ اس قدر پختہ تھی کہ شہادت تک جاری رہی، یہاں تک کہ کربلا کے میدان میں بھی یہ عادت برقرار رہی اور آپ اپنی زندگی کی آخری رات سوئے نہیں بلکہ ساری رات عبادت میں مشغول رہے، اللہ اکبر اتنے کٹھن حالات میں بھی فرض، نفل، تلاوتِ قرآن، ذکر و اذکار اور انتہائی عاجزی و انکساری سے دعا مانگنا نہیں چھوڑا۔

سبق: اس سے ہمیں کثرتِ عبادت پر ہمیشگی کا سبق ملتا ہے، لیکن آج ہم دیکھ لیں کہ نفلی نماز روزے تو درکنار اپنے فرائض بھی ادا نہیں کر رہے جبکہ دعویٰ ہمارا ہے کہ ہم حسینی ہیں، کیا ہم سچے حسینی ہیں یا فقط دعوے ہیں، کیا ہم حسین کی طرح اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کا شوق رکھتے ہیں؟ کیا ہم حسین کی طرح اپنے رب سے ہم کلام ہونے کا شوق رکھتے ہیں؟ کیا ہم دعاؤں، التجاؤں میں اپنے رب کے سامنے گڑگڑانے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں اپنے عمل کو اپنے دعوے کے مطابق کرنا ہو گا۔

تواضع انکساری!

تکبر انسان کو برباد کر دیتا ہے جبکہ تواضع و انکساری قرب الہٰی کا ذریعہ ہے، خاندانِ نبوت کے اس چشم و چراغ نے اپنی پوری زندگی تواضع و انکساری کے ساتھ گزاری، ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں کچھ غریب لوگ کھانا کھاتے ہوئے ملے، انہوں نے آپ کو دیکھا تو کھانے کی دعوت دی کہ اے اولادِ رسول ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیں، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سواری سے اترے، ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا، آخر میں ارشاد فرمایا: اللہ تکبر کرنے والوں کو اپنا دوست نہیں رکھتا، پھر ان سے کہا کہ میں نے آپ لوگوں کی دعوت قبول کی ہے، لہٰذا آپ لوگ بھی میری دعوت قبول کریں، کچھ دیر بعد ان کو اپنے گھر لے آئے اور اپنی شایانِ شان ان کو دعوت کھلائی۔

سبق: اس سے ہمیں تواضع کا سبق ملتا ہے، آج محاسبہ کریں کہ ہم اپنے غرباء کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ بیگانے تو بیگانے جو ہمارے قریبی غرباء ہیں ان سے ہمارا سلوک کیا ہے؟ کیا ہم حسین کی طرح ان سے محبت کرتے ہیں یا پھر اتباعِ شیطان میں تکبر کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں؟ کیا ہم حسینیت کے پیمانے پر پورا اتر رہے ہیں یا بس بے بنیاد دعوے ہی ہیں؟

عفو و درگزر!

عداوت و کدورت اور آپس کی رنجشیں صرف افراد ہی نہیں بلکہ خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد کر دیتی ہیں، جبکہ آپس کی محبت سے معاشرے میں محبتیں جنم بھی لیتی ہیں اور قائم بھی رہتی ہیں، اس حوالے سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ آپ کے چھوٹے بھائی محمد بن حنفیہ رحمہ اللّٰہ سے کوئی ایسی بات سر زد ہو گئی جس سے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکلیف پہنچی، تو آپ نے بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے اظہارِ ناراضگی فرمایا، ادھر محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ گھر پہنچے، فوراً حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام معذرت نامہ لکھا، اب حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایسے گھرانے میں تربیت پائی تھی جو علم و ادب، تہذیب و تمدن اور اخلاق کا ایسا نمونہ تھا جس کی مثال نہیں ملتی، لہٰذا خط کو پڑھا، فوراً اٹھے اور جا کر بھائی کو گلے لگا لیا۔

سبق: اس سے ہمیں خونی رشتوں کے تقدس کا سبق ملتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دیکھیں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس سنت پر ہمارا کتنا عمل ہے؟ بد قسمتی سے ایسی ایک بھی مثال نہیں ملے گی، باپ بیٹا، بہن بھائی، بھائی بھائی، بہن بہن، چچا زاد، تایا زاد، خالہ زاد، پھوپھی زاد، نسلوں کی نسلیں جھگڑوں کی نظر ہو کر قبروں کو جا پہنچتی ہیں اور دعویٰ حسینی ہونے کا ہے۔

خیر خواہی!

بخل اور کنجوسی انسان کے اچھے اور عمدہ اوصاف کو کھا جاتی ہے، جبکہ سخاوت و فیاضی انسان کی بلند اخلاقی کا مظہر ہوتی ہے، ایک مرتبہ ایک دیہاتی مدینہ منورہ کی گلیوں گھومتا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر رک گیا، دروازے پر دستک دیتے ہوئے اپنی غربت و لاچاری کو اشعار کی صورت بیان کیا، آپ گھر سے باہر آئے، سائل کی حالت دیکھی تو اس پر فقر و فاقہ کے آثار نمایاں تھے، گھر واپس لوٹے، اپنے غلام قنبر کو آواز دی، پوچھا نفقہ میں کچھ باقی ہے؟ اس نے بتایا کہ آپ کے اہل خانہ کے لیے 200 درہم رکھے ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا ہمارے خاندان سے زیادہ ان دراہم کا حقدار یہ سائل ہے، چنانچہ سارے دراہم سائل کو عنایت کر دیے۔

سبق: اس سے ہمیں لوگوں سے خیر خواہی کا سبق ملتا ہے، لیکن افسوس کہ انسانیت بھوک سے مر رہی ہے، غربت لوگوں کے صحنوں میں ناچ رہی ہے اور ہمارے مالداروں کی تجوریاں بھری پڑی ہیں، بے بسی آفت زدہ لوگوں کے گلے سے چمٹ چکی ہے، لیکن حسینیت کے دعوے دار اپنی دولت کو خرچ کرنا تو درکنار ہوا لگانا بھی پسند نہیں کر رہے، کیا یہ حسینیت ہے؟ حسین نے تو کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔

خدمت خلق!

ایمان کے بعد اللہ تعالٰی کے دربار میں جلد قبولیت حاصل کرنے والی نیکی خدمتِ خلق کا جذبہ ہے اور یہ جذبہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، محمد بن ابی طلحہ رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہمانوں کی خدمت کرتے تھے، محبت کرنے والوں کو خوب نوازتے تھے، رشتے داروں پر خرچ کرتے تھے، محتاجوں کی حاجت کو پورا کرتے تھے، سائل کو محروم و خالی ہاتھ کبھی نہ لوٹاتے تھے، بھوکوں کو کھلاتے تھے، قرض داروں کے قرض کی ادائیگی اپنی طرف سے کرتے تھے، کمزوروں کی مدد کرتے تھے، یتیم سے حسنِ سلوک سے پیش آتے تھے، جب کہیں سے مال آتا تو اسے لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔

سبق: اس سے ہمیں خدمتِ خلق کا سبق ملتا ہے، آج ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی اشد ضرورت ہے کہ ان اچھے اور خوبصورت اوصاف میں سے ہمارے اندر کیا ہے؟ یقین کریں اگر ہم ان اوصاف کو عمل میں لے آئیں تو دنیا میں ہمارے جیسا مسلمان کوئی نہیں اور جنت میں ہمارے جیسا جنتی کوئی نہیں، دعویٰ حسینی میں بھی ہم تبھی سچے ہو سکتے ہیں۔

باہمی محبت!

اسلام بڑوں کی عزت و احترام کا سبق دیتا ہے، خاندانِ نبوت نے اس سبق کو صرف سمجھا ہی نہیں بلکہ اہلِ اسلام کو اپنے عمل سے اس کی تعلیم بھی دی ہے، حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص خلفائے راشدین سے جس عقیدت و محبت کا ثبوت دیا ہے ایسے ادب و احترام کی مثال نہیں ملتی، عہدِ صدیقی میں آپ کم عمر تھے، عہد فاروقی کے آخر میں سنِ شعور کو پہنچے، عہدِ عثمانی میں آپ نے بہت سی دینی و ملی خدمات سر انجام دیں، خراسان، طرابلس، جرجان اور طبرستان کی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا، یہاں تک کہ جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو یہ دونوں شہزادے محافظ بن کر کھڑے تھے، عہد مرتضوی میں یہ دونوں شہزادے اپنے والد کے شانہ بشانہ رہے، اس کے بعد حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو کر خانوادہِ نبوی کی تربیت کا ثبوت دیا۔

سبق: اس سے ہمیں خلفائے راشدین اور حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کا سبق ملتا ہے، معلوم ہوا کہ وہی شخص حسینی کہلوانے کا حقدار ہے جو حضراتِ خلفائے راشدین اور حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عزت و احترام کرنے والا ہے، جو ان کا ادب و احترام نہیں کرتا اس کی سوچ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی نہیں اور وہ دعوائے عشقِ حسین میں بری طرح ناکام ہے۔

حسینیت کا پیغام!

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سابقہ زندگی کی طرح ان کی شہادت بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، جس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ دین کی اشاعت و حفاظت کے لیے حرمینِ شریفین جیسے مقدس مقامات کی جدائی بھی سہنی پڑے تو سہہ لینی چاہیے، ظالم کا ظلم روکنے کے لیے جان کی قربانی بھی دینی پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے، ظلم سے ٹکرانے کے لیے بہادری، جوانمردی، جرأت اور استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، جب خاندان کے لوگ اللہ کی راہ میں کٹ جائیں تو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے، لیکن ان جان گسل مراحل کو طے کرتے وقت نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن، نوافل، ذکر اللہ اور مناجات نہ چھوٹنے پائے، اللہ کی طرف سے آنے والے کسی بھی طرح کے امتحان اور آزمائش میں اللہ کی رضا پر راضی رہنا اور صبر و استقلال سے کام لینا چاہیے، ہر حال میں الله کی رضا پر راضی رہنا اور صبر و استقلال سے کام لینا نبوت کا خاصہ ہے، جس پہ نواسہِ رسول حضرت حسین اور پورے خاندانِ نبوت نے عملی مظاہرہ کرکے دیکھا دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے ”حسینیت کو اپنائیں/تحریر/محمد زاہد جمیل

  1. واقعہ کربلا ہمیں عظیم قربانی کا درس دیتا ہے سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان اسلام اور اسلام کی بقاء کے لیے قربان کی۔ محرم الحرام 2022 عاشورہ کا دن اعلیٰ مقاصد کے حصول اور دین کی بقاء کے علاوہ کئی عظیم تاریخی واقعات سے بھرا پڑا ہے
    ضرورت اس امر کی ہے کہ آج امت مسلمہ آپس میں لڑائی جھگڑے نہ کریے تفرقہ بازی ختم کر کے کفار کے خلاف متحد ہو جائیں اسوہ شبیری پر عمل کریں اور دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں حاصل کریں امت مسلمہ کے حکمران بھی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے امت کو متحد اور یکجا کرنے میں کردار ادا کریں

    • السلام علیکم
      بہترین پیغام دیا ہے آپ نے اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اسوہ شبیری کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین یارب العالمین

  2. ماشاءاللہ۔۔۔حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سیرت پر بہت ہی بہترین, بے مثال اور جامع تحریر ہے۔

  3. بہترین رائے پیش کی ہے، اس کے بغیر ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے ❤️

  4. ماشاءاللہ اللھم زد فزد
    زاہد جمیل بھائی بہت عمدہ لکھا اللہ تعالٰی آپ کی اس کاوش کو قبول فرمائیں
    آج کل اس چیز کو عام کرنے کی ضرورت ہے جسے قوم بھول چکی ہے قوم یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ صرف عقیدت نہیں بلکہ عقیدہ ہیں ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ مشعل راہ ہے اس چیز بہت ضرورت تھی جس پہ ماشاءاللہ آپ نے روشنی ڈالی اللہ تعالٰی قبول فرمائیں۔۔۔
    خدا کرے زور قلم اور زیادہ
    دعاگو و دعاجو
    محمد اسامہ قاسمی
    والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں