نواسہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم، جگرگوشۂ بتول رضی اللہ عنہا، فرزند علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، برادر حسین رضی اللہ عنہ، مصلح امت، فصاحت و بلاغت میں بے مثال صلاحیت کے حامل، نبوت کے کندھوں پر سوار ہونے والے، محبوب رسول و آل رسول، نبوی پیشین گوئی کے مصداق، عشق الہی میں مدینہ منورہ سے 25 حج پیدل کرنے والے، خلیفۃ المسلمین، چاروں خلفائے راشدین کے منظور نظر،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بلاد افریقہ، طرابلس، قومس، جرجان، طمیسہ، اور اصبہان وغیرہ میں مجاہدین کے لشکر کے ساتھ ساتھ رہنے والے، حضرت عثمان غنی کے دروازہ پر پہرہ دینے والے، سخاوت میں ید طولیٰ رکھنے والے، پیکر تسلیم و رضا، اپنے نانا محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والے، امت میں اتحاد و اتفاق کی فضا بنانے کے لئے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنے والے، اس کے علاوہ بے شمار اوصاف و کمالات کے حامل حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ ہیں،
آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت راجح قول کےمطابق 15 رمضان المبارک سن 3 ہجری میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ جب آپ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے دائیں کان میں آذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی اورآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک لعاب دہن سے آپ کے منہ میں گھٹی ڈالی۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کانام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے “حسن” رکھا آپ رضی اللہ عنہ کی بچپن میں کفالت اور دودھ پلانے کی سعادت حضرت ام الفضل کو حاصل ہوئی ۔۔۔۔۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی تو محبت فرما.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور حضرت حسن کو اپنے سینے مبارک سے چمٹا لیا (ابن ماجہ). حضرت براء بن عازب کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے حضرت حسن کو اپنے کندھے پر اٹھا رکھا تھا اور فرما رہے تھے اے اللہ! مجھے اس سے محبت ہے تو بھی اسے اپنا محبوب بنا لے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن کو اپنے ساتھ باہر لائے اور انہیں مبر پر (اپنے ساتھ) بٹھایا اور فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے امید ہے کہ کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا. (صحیح البخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن کو اپنے کندھے پر اٹھا رکھاتھا۔ کسی نے کہا کہ لڑکے! کتنی اچھی سواری پر تو سوار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اور سوار بھی تو کتنا اچھا ہے” (ترمذی)
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سخاوت میں مشہور و معروف تھے بعض دفعہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایک ہی آدمی کو ایک لاکھ درہم دے دیتے تھے تھے۔ (جو ہمارے موجودہ زمانے میں دو کروڑ دس لاکھ روپے کے برابر ہے) ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے انصار کے کچھ لوگوں سے چار لاکھ درہم کا باغ خریدا بعد میں آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ غریب ہو گئے ہیں تو آپ نے وہ باغ ان کو مفت واپس کر دیا۔ اور زندگی بھرآپ نے کسی مانگنے والے کو “نہ” نہیں کی. حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ جب مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ رضی اللہ عنہ کو قیام مدینہ کے دوران کئی بار زہر دیا گیا لیکن جب آخری مرتبہ زہر دیا گیا تو طبیب نے کہا کہ اس زہر نے تو اندر سے انتڑیاں تک کاٹ دیں ہیں اور چالیس دن اسی شدید تکلیف حالت میں گزارے جب انتقال کا وقت نزدیک تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا مجھے باہر صحن میں لےچلو تاکہ میں آسمان میں اللہ تعالی کی نشانیوں پر غور کروں اور میرا ایمان مزید مضبوط ہوجائے۔ مشہور قول کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ربیع الاول سن 49 ہجری میں ہوا اس وقت آپ کی عمر مبارک 46 سال تھی. حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ (جو امیر مدینہ تھے) انہوں نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا تھا آپ رضی اللہ عنہ کے جنازہ میں لوگوں کا اتنا ہجوم تھااگر کوئ سوئی بھی پھینکی جاتی تو وہ زمین پر گرنے کے بجائے کسی آدمی کے سر پر گرتی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں
