حضرت عزیر 124

حضرت عزیر علیہ السلام/ حیرت انگیز نیند، قصص قرآن 5 / تحریر حکیم شاکر فاروقی

بخت نصر (بنوکد نصر) بابل کا بادشاہ تھا۔ یہ انتہائی ظالم، جابر اور سفاک انسان تھا۔ ہزاروں لوگ اس کی خواہش سلطنت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 587 سال قبل مسیح میں اس نے یروشلم (موجودہ بیت المقدس) پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کہا جاتا ہے اس نے عمارتوں تک کو نہ بخشا، مکانوں کو آگ لگا دی اور معبد خانوں کو گرا دیا۔ ظلم و جور کا ایسا تندور گرم کیا جس کی بھٹی میں چالیس ہزار کے قریب علماء و مشائخ بھون دیے گئے۔ اسی ہزار یہودی غلام بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر بابل لے جائے گئے۔(کچھ لوگوں نے یہ تعداد لاکھوں میں بتائی ہے۔) معززین کو قید میں ڈال دیا گیا جبکہ باقی ماندہ کو بازاروں میں بیچ دیا گیا۔
یروشلم اجڑی سہاگن کی مانند ویران ہو گیا۔ بے بسی و لاچاری اور ویرانی و وحشت اس کے کونے کونے سے ٹپکنے لگی۔ ہر گھر میں الو بولنے لگے۔ گلیاں سنسان اور گھرانے اجڑ گئے۔ سناٹا ہر در و دیوار سے جھانکنے لگا۔ یوں محسوس ہوتا تھا اس نگری کو زندگی دیکھے صدیاں بیت گئی ہیں۔ ایسے عالم میں ایک مرد دانا (حضرت عزیر علیہ السلام) اپنی سواری (گدھے) پر سوار یہاں سے گزرا۔ در و دیوار سے ٹپکتی وحشت اور سنسان گلیوں نے اسے تھوڑی دیر رکنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے گدھے کو ایک درخت سے باندھا اور توشے سے کھانا نکال کر سامنے رکھا۔ کھانا کیا تھا؟ انگور کے چند خوشے اور خشک روٹی کے کچھ ٹکڑے…… مسافر نے انگور نچوڑے اور ان میں روٹی کا ٹکڑا بھگو دیا تاکہ نرم ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ میٹھا بھی ہو جائے۔ پھر بیٹھ کر اجڑے دیار کا جائزہ لینے لگا۔
’’الہی! تو اس ویران و سنسان شہر کو کیسے آباد کرے گا؟‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
اسے رب العزت کی صفت تخلیق پر مکمل یقین تھا لیکن سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسے اجڑے دیار کی آبادی کیونکر ممکن ہوگی؟ اسی اثنا میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے ہلکورے دینے شروع کیے، یوں نیند بھوک پر غالب آ گئی اور مرد دانا سو گیا۔ یہ تقریباً چاشت کا وقت ہوگا۔
آپ جانتے ہیں یہ مرد دانا کون تھا؟ مشہور قول کے مطابق سیدنا حضرت عزیر علیہ السلام اور صحیح قول کے مطابق سیدنا یرمیاہ علیہ السلام تھے۔ جب ان کی آنکھ کھلی تو عصر کا وقت ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے پوچھا ’’کتنا عرصہ سوئے؟‘‘
جواب دیا ’’یہی کوئی گھڑی دو گھڑی۔‘‘
فرشتے نے کھانے اور سواری کی جانب اشارہ کیا تو حیران رہ گئے کہ کھانا تو بالکل تر و تازہ رکھا ہے جب کہ گدھے کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ حیرت و استعجاب سے آپ کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔
فرشتے نے کہا ’’آپ پورے سو سال تک سوتے رہے۔‘‘
پھراس نے ہڈیوں کی جانب اشارہ کیا تو وہ آپس میں جڑنے لگیں، پل کے پل میں ان پر رگیں، اعصاب اور گوشت آنا شروع ہو گیا، پھر جلد چڑھی اور گدھا کان ہلاتا ہوا اٹھا اور آسمان کی جانب منہ کر کے آوازیں نکالنے لگا۔ یوں پیغمبر خدا کو علم الیقین اور عین الیقین سے بڑھ کر حق الیقین حاصل ہو گیا۔
حضرت عزیر علیہ السلام نے جب آس پاس کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا شہر نہ صرف دوبارہ آباد ہو چکا ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ آب و تاب رکھتا ہے۔ اپنے محلہ میں گئے تو پہچان لیے گئے، آپ کا ایک بیٹا زندہ تھا جس نے آپ کو آپ کے کندھوں کے درمیان واقع نشان کے ذریعے پہچان لیا۔ بنی اسرائیل میں حیات بعد الممات (موت کے بعد زندگی) کے عقیدے پر بحث چل رہی تھی جو آپ کے ظاہر ہونے سے دم توڑ گئی۔ تورات غلامی کی گرد میں گم ہو چکی تھی، آپ نے اپنے حافظہ سے دوبارہ لکھوا دی۔
موت کے بعد زندگی کے قائل کئی مذاہب ہیں لیکن اسلام کا تصور حیات بعد الممات سب سے جدا اور صاف ہے۔ اسے عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور جھٹلانا بھی ممکن نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا قائل ہے، اس کے لیے یہ عقیدہ ماننا چنداں مشکل نہیں۔ کہ جو اللہ پہلی بار عدم سے وجود میں لا سکتا ہے اس کے لیے دوبارہ زندگی دینا کیا مشکل ہے؟ نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بغیر کھلائے پلائے صدیوں تک زندہ رکھ سکتا ہے، اسباب کا محتاج نہیں تو آج کا مسلمان کیوں اپنے رزق کے لیے غیر مسلموں کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے؟

تحریر: حکیم شاکر فاروقی

لکھو کے ساتھ لکھو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں