188

حضرت مولانا ارشاد احمد رحمہ اللہ کے انتقال پر ملال پر مرثیہ(مثنوی)/شاعر/محمد محسن ظفر

اَسلاف کے کردار کا وہ عالی نمونہ
وہ بحرِ کراں علم کا،انمول خزینہ

ہر آن تھا سرمَست “ھواللہ” کی صدا میں
تھی اسکی رضا حضرتِ اَحمد کی رضا میں

اخلاق تھے اس کے جہاں گیر و جہاں دار
چہرے کی تبسم سے کِھلیں لالہ و گلزار

اِخلاص میں گوندھی ہوئی مٹی کا بشر تھا
مرجھائے نہ جو فصلِ خزاں میں وہ شجر تھا

تصنیف کی دنیا کا چمکتا ہوا تارہ
ہر لفظ تھا علم کا٫عرفاں کا شمارہ

تسنیم کے قطروں سے دُھلی ہوتی تھی گفتار
یعنی کہ وہ گفتار تھی ظلمت میں ضیا بار

تقدیرنےتدبیرکواسطرح سےلُوٹا
لو آج وہ پرچۂِ اَلماس ہے ٹوٹا

اَشکوں کاتَلاطُم ہے،تخیل ہے شکستہ
خاموش زباں میری ہے دل میرا گَرِفتہ

انسان نہیں،حضرتِ انسان گیا ہے
سنت کا، شریعت کا، نگہبان گیا ہے

اب کون ہے اُس جیسا اُسی لہجے میں بولے
اِخلاص کی تاثیر کے اَلماس کو رولے

اس شب کے مسافر کو سبھی تَکتی ہیں راہیں
ہے دل یہ حَزیں اور ہیں متلاشی نگاہیں

وہ وقت کاسرہندی و اِمداد گیا ہے
وہ شیخِ زماں حضرت اِرشاد گیا ہے

محسن کے خدا ان پہ تو خاص اپنا کرم کر
اور شیخ کی مرقد کو سدا باغ اِرَم کر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں