حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے.
تحریر: عصمت اسامہ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اگر امت مسلمہ ،اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت نہیں کرسکتی تو اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں !
آج امت مسلمہ بشمول پاکستان ،طرح طرح کے عذابوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے ،لمحہء فکریہ ہے کہ کیا ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حفاظت کر رہے ہیں ؟ جب بی جے پی حکومت کی ترجمان ” نوپور شرما” نے عالم اسلام کو للکارتے ہوئے رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے تو گویا سوۓ ہوۓ مسلمان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور اپنے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ناموس پہ حملے کے خلاف احتجاجاً سڑکوں پہ نکل آۓ، ریلیاں اور مظاہرے کرکے بھارت کی ہرزہ سرائی پر آتش فشاں کی مانند پھٹ پڑے۔عرب ممالک نے بروقت بھارتی مصنوعات کا مقاطعہ کرکے اسے زک پہنچائی کہ ہندو بنیا ،مال کی زبان سمجھتا ہے۔پاکستانی عوام نے ناموسِ رسالت کی خاطر مظاہروں اور ریلیوں میں شامل ہوکر اپنے آقا علیہ الصلاۃ والسلام سے محبت کا اظہار کیا۔ جماعتِ اسلامی کے کارکنان نے انڈین ایمبیسی پہنچ کے اپنا غم و غصہ ظاہر کیا ۔ایک بھارتی چینل کو پاکستانیوں نے ہیک کرکے ” یانبی ،سلام علیک ” کی نعت بھارتیوں کو سنا کے بتایا کہ وہ ایسا جواب بھی دے سکتے ہیں۔ مسلمان اپنے آقا علیہ الصلاۃ والسلام سے اپنی جان سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں ۔یہ وہ محبت ہے جو صدیوں کا سفر کرتے ہوئے ہم تک پہنچی ہے ۔یہ بہت طاقت ور محبت ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تہجد کی نمازوں میں اپنے ہر امتی کی بخشش کی خاطر مصلے کو آنسوؤں سے تر کیا ہے، امت کو اپنے نبی کا یہ احسان بھولا نہیں ہے ! یہ وہ محبت ہے کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو تپتی ریت پہ لٹا کے ،سینے پہ بھاری پتھر رکھ کے بھی مٹائ نہ جاسکی ! یہ وہ محبت ہے جس کے سبب،یارغار صدیقاکبر رضی اللہ عنہ، سانپ کا ڈنگ برداشت کرتے رہے ! یہ وہ محبت ہے جس نے دعا بن کر ،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو مسلمان کردیا !
یہ وہ محبت ہے ،جس کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے وضو کا بچا ہوا پانی اپنے چہروں پہ ملتے تھے !
یہ وہ محبت ہے جس نے حضرت اویس قرنی کے دل میں گھر کیا تو وہ دور رہ کر بھی عاشق_ رسول کہلاۓ !
یہ وہ محبت ہے جس کے سبب ،آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے مدینہ تک ریلوے لائن بچھانے کے لئے الگ شہر بسایا تاکہ پتھروں اور لوہے کے کوٹنے کی آوازیں ،مدینۃ النبی تک پہنچنے نہ پائیں !
اس محبت کی رونمائی میں کبھی ترکھانوں کا بیٹا غازی علم دین بازی لے جاتا ہے !
کبھی یہ محبت عبدالرحمن چیمہ کی صورت جرمنی میں جلوہ افروز ہوتی ہے !
کبھی کوئ ممتاز قادری ،گستاخوں کو رائفل کے دھوئیں سے خاموش کرواتا ہے !
شہادتوں کا یہ سلسلہ تا قیامت پروانہ وار جاری رہے گا ،کوئ امت کا بیٹا ،امت کا دل ٹھنڈا کرتا رہے گا، لیکن اس محبت کا ایک رخ اسوہء حسنہ کی پیروی بھی ہے ۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے بارے میں مطالعہ کرنا اور پھر اپنی زندگی کو اس علم کی روشنی میں عمل میں ڈھالنا اصل کام ہے۔ان کے مشن کی پیروی کرتے ہوئے دین کی تعلیمات کو پھیلانا۔اس محبت کا تیسرا رخ فتنہء قادیانیت کے چیلنج کو سمجھنا اور اس کا توڑ کرنا بھی ہے۔ قادیانی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے بلکہ نعوذ باللہ ،اپنے کسی مرزا کو آخری نبی بنارکھا ہے ،ان کی ریشہ دوانیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ افسوس ناک صورت حال ہے کہ حکومتی سطح پر ان کو کنٹرول نہیں کیا جارہا بلکہ یہ وطن عزیز پاکستان کے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز ہیں جب کہ آئین_ پاکستان کی رو سے اس کی اجازت نہیں ہے۔
ضرورت امر کی ہے کہ ہر مسلمان اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور اگر اسے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے تو کسی قادیانی سے رابطہ نہ رکھے،نہ کوئ ہمدردی جتاۓ۔ قادیانی ملک سے باہر بھی وطن عزیز کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں اور ان کے رابطے یہودیوں سے جا ملتے ہیں۔عوام اپنے ووٹوں سے جسے منتخب کرکے پاکستان کا حکمران بنائیں ،اسے کم از کم حلف میں “خاتم النبیین” بولنا آنا چاہیے ۔
دہن میں زباں ،تمہارے لئے
بدن میں ہے جاں تمہارے لئے !
