*”یار ! کیا کر رہے ہو ادھر کونےمیں ؟ ” فراز نے احمد کو یونیورسٹی کے ایک سنسان گوشے میں کھڑے دیکھا تو حیرت سے پوچھا ۔” اوہ !! فراز !!!! آ ؤ آ ؤ !!!! یہ دیکھو .. ” احمد نے فراز کو اپنا موبائل دکھاتے ہوئے کہا۔”استغفرُللہ!!!! احمد !!! تم نے یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” احمد کے موبائل میں دیکھتے ہوئے فراز نے چیختی آ واز میں کہا ۔ ” کیا یہ سب ؟؟؟؟ پوری دنیا آ ج کل یہی حرکتیں کر رہی ہے۔۔۔اور شہرت حاصل کرنے کا سب سے آسان اور اثر انگیز طریقہ یہی ہے۔۔۔۔” احمد نے رسان سے کہا۔” لیکن احمد !” ، فراز احمد کو سمجھاتے ہوئے بولا ، ” اگر ساری دنیا کنوئیں میں چھلانگ لگا دے گی تو کیا تم بھی لگا دو گے چھلانگ ؟؟ کیا ساری دنیا اگر اپنے گھروں کو آ گ لگا دے گی تو کیا تم بھی اپنے گھر کو آ گ لگاؤ گے ؟؟؟؟ کیا ساری دنیا اگر اپنا وقت تباہ کر دے گی تو تم نے بھی ضرور ہی کرنا ہے؟؟؟؟؟ ” “لیکن ! فراز ! میری نیت تو اچھی ہے یار! میں صرف لوگوں کو ہنسانا چاہتا ہوں ، ان کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔دوسروں کو ہنسانا بھی تو ثواب کا کام ہے نا !!! ” ” نہیں احمد ! ہر گز نہیں !!! کسی کو مزاق میں یا جھوٹ بول کر ہنسانا ثواب کی بجائے ، وبال جان بن جاتا ہے۔۔۔اور شاید تم بھول رہے ہو کہ ایک حدیث کا مفہوم بھی اسی طرح کا ہے کہ جو کسی کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے وہ آ گ میں ہے۔۔۔۔۔تو تم کیسے اس قسم کی حرکتیں کر سکتے ہو ؟؟؟؟ اور احمد !! یہ تو ویسے بھی مغربی ممالک کی نقالی ہے ۔۔۔۔ جو جو تہوار وہ لوگ مناتے ہیں ۔۔۔ہم بھی بعینہٖ انہی تہواروں کا راگ الاپتے رہتے ہیں تو پھر اس زمین کے ٹکڑے کو لینے کی ضرورت کیا تھی ؟؟؟؟؟ ” ” ہاں فراز ! تم ٹھیک کہہ رہے ہو ، کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا ہم واقعی میں ہی آ زاد ہیں ؟؟ ہماری نوجوان نسل جو ٹک ٹاک کا نہایت ہی غلط استعمال کر رہی ہے اور میں بھی سستی شہرت کے چکر میں اسی لائن میں آ گیا۔۔۔۔” احمد نے ندامت بھری انداز سے کہا ۔” واقعی احمد ! ہم آ زاد ہو کر بھی آ زاد نہیں۔۔۔۔ہماری روز مرہ معمولات کو ہی دیکھ لو، جا بجا انگریزی کا استعمال ، انگریزی لباس سے مرعوبیت، گوری رنگت کی چاہ ، گوروں کے ملک میں جا کر رہنے کی خواہش ۔۔۔۔کسی کو فر فر انگریزی بولتے دیکھ کر مرعوب ہو جانا اور غلط اردو پر فخر کرنا۔۔۔۔اس بات کا ثبوت ہے کہ نا ہم ذہنی طور پر آ زاد ہیں نا ہی جسمانی طور پر۔۔۔۔۔” “ہیں !!!! جسمانی طور پر ؟ اس سے تم کیا کہنا چاہ رہے ہو ؟” احمد نے حیرت سے پوچھا ۔” جسمانی طور پر ہم گورا رنگ چاہتے ہیں ، جس کو حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے رہتے ہیں۔۔۔گوروں جیسے لباس پہنتے ہیں۔۔۔ان ہی کی طرح کے بال بناتے ہیں ۔۔۔ اگر وہ لوگ اپنے بال یوں کھڑے کریں جیسے کرنٹ لگ گیا ہو ، تو ہم بھی ویسے ہی بال بنائیں گے۔۔۔ وہ اگر ایک طرف سے بال منڈوا کر دوسری طرف بال نہ منڈوائیں تو ہم بھی وہی کریں گے۔۔۔وہ اگر پھٹی پینٹ پہنیں گے تو ہم بھی پہنیں گے۔۔۔۔غرض ہم اپنے جسم و روح کو گوروں کی طرز پر ڈالنے پر تُلے ہوئے ہیں۔۔۔۔اسی لیے میرے نزدیک ہم جسمانی اور ذہنی ہر دو طرح آ زاد کہلائے جانے کے قابل نیں۔۔۔ہمارے خیالات ، نظریات حتیٰ کہ ہمارے اندر کی ۔۔۔۔ ہمارے بہت اندر کی سوچ تک غلامی کی دلدل میں دھنس چکی ہے ۔۔۔جس سے ہم چاہ کر بھی نہیں نکل سکتے الا یہ کی ہمارا رب ہماری مدد کر دے۔۔۔””واقعی! تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ہم آ زاد ہوتے ہوئے بھی آ زاد نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب ہم کیا کریں ؟؟ تمہی کچھ بتاؤ!”” یار ! میں کیا بتاؤں ۔۔۔ میرا تو خیال ہے کہ ہم اپنے آ پ کو احساس کمتری سے باہر نکالیں اور اپنے مذہب کو اپنی روزمرہ زندگی میں شعوری طور پر شامل کریں اور اپنی زندگی کو صرف اور صرف اللّٰہ کی غلامی میں دے دیں، یہی وہ وقت ہو گا جب ہم واقعتاً اپنے آ پ کو آ زاد محسوس کریں گے! “فراز نے ایک جوش و جزبے سے کہا۔۔” آ ج سے میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے تمام معمولات و معاملات میں اپنے دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا۔۔۔” احمد نے ایک جذب سے کہا۔” ان شاءاللہ ” فراز نے کہا اور دونوں اپنی جماعت کی جانب چل دیے۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل