مریم آج جلدی سکول سے واپس آ گی اس کو بابا سے بات کرنی تھی ۔ذیشان صاحب ایک بزنس مین انسان تھے اس کے ساتھ رحم دل بھی تھے سب کی مدد کرتے ۔یہ چیز مریم کو پسند نا تھی ،جب بھی کوئی غریب اپنا مسلہ لیے کر ذیشان صاحب کے پاس آتا مریم غصے میں وہاں سے چلی جاتی اور غریبوں کو برا بھلا کہتی رہتی ۔
ابھی کل کی بات تھی ان کے محلے میں دین علی کی بیٹی کی شادی تھی جو پیشے کے لحاظ سے ایک مستری تھا ۔عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ کام بھی کم کرتا تھا ،کل اس کی بیٹی کی شادی تھی لیکن عین نکاح کے وقت لڑکے والوں نے جہیز کی مانگ زیادہ کر دی ،وہ غریب انسان کہاں سے جہیز دیتا جو دو وقت کی روٹی بامشکل اپنے خاندان والوں کو کھلا رہا تھا ۔
جب ذیشان صاحب کو دین علی کی پریشانی کا انداز ہوا تو اس نے لڑکوں والوں کو اپنی طرف سے جہیز دیے دیا۔یہ سب باتیں مریم کو بری لگی تو اس نے بابا سے بات کرنے کا سوچا۔
بابا:”میں آپ سے ناراض ہوں”.
ذیشان صاحب :کیوں میرے بچے کیا ہوا؟.
بابا:آپ سب کی مدد کیوں کرتے ہیں جو بھی کوئی غریب آ جائے آپ اس کی مدد کرتے ہو۔
بیٹا:آپ نے اقبال کا وہ شعر سنا ہے
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّو بیاں۔
درد کا رابط دل سے ہوتا ہے آپ درد کو تب محسوس کرئے گے جب آپ کسی کو تکلیف یا دُکھ میں دیکھ اپنے اندر درد کو محسوس کریں اور جب آپ اس درد کو محسوس کر کے دوسروں کی مدد کرئے تو وہ انسانیت کے زمرے میں آتا ہے۔
اللہ پاک کی عبادت کے لیے بہت سارے فرشتے ہیں ،انسان کا مقصد صرف اللہ پاک کی عبادت کرنا ہی نہیں بلکہ اس کی مخلوق سے محبت کرنا ہیں۔
اگر ہم کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اس کی مدد کر دیتے ہیں تو اللہ پاک بہت خوش ہوتا ہے اور ہمیں دو گنا زیادہ دیتا ہے ۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ بھی لوگوں کی مدد کرتے تھے
طوائف والوں نے کتنا برا سلوک، لیکن ہمارے پیارے نبی نے معاف کر دیا ۔
اس لیے کسی غریب سے کبھی نفرت نہیں کرنی چاہیے وہ بھی ہماری طرح انسان ہوتے ہیں ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں ،بس غربت کی وجہ سے اللہ پاک ہمیں ان ک وسیلہ بنا دیتا ہے ،ورنہ ہم کچھ نہیں ہیں اور ایک اچھا انسان وہ ہوتا ہے جس کے اندر انسانیت کا جذبہ اور مخلوق سے محبت کا جذبہ زندہ ہو۔
ذیشان صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا ،
مریم بیٹا:میری بات سمجھ میں آئی۔
جی بابا مجھے سمجھ میں آ گی اب میں بھی سب کی مدد کرو گی۔
