159

دور حاضر یا دور فتنہ/تحریر/اے بی اشرف جٹ

پاؤں میں برانڈڈ بوٹ پہنے دکھنے میں فرنگیوں جیسی جیکٹ پہنے جسے خاص طور پر اک نشاں (جسے نیم لبرل نوفیشن ایبل بندہ یاں بندی انگلینڈ کا جھنڈا و پرچم کہتی ہے) وہ بنا ہوا ہے بھنوؤں میں کٹ لگائے بالوں کو مصنوعی رنگ سے بھورے کروائے ساتھ میں اک حسینہ لیے لیے وہ بھی اپنی طرح کی آزاد خیال (لبرل) سی تھی اس کے حساب سے  بس فرق بالوں کے کلر کا تھا وگرنہ باقی سب سیم سیم اور ہاتھوں میں گٹار 🎸 تھامے ہوئے پارک کے عین وسط میں بیٹھا ہوا تھا یہ جوڑا دونوں نے جینز بھی پہن رکھے تھے ہنسی خوشی کے عالم میں قہقے لگ رہے تھے پرفیوم ایسا کہ بندہ پارک میں داخل ہوتے ہی سونگھتا چلا آئے راقم بھی ادھر ہی موجود تھا یہ کوئی بحریہ ٹاؤن یاں کسی یونیورسٹی کا پارک نہیں تھا یہ اک ہسپتال کا تھا جسے لاہور میں کیا پنجاب بھر میں جانا جاتا ہے بنام مئیو ہسپتال راقم چونکہ وقت کی تباہ کاریاں لکھتا ہے تو دیکھنا ضروری تھا کسی اور نظر کو نہیں دیکھا مجھے لکھنے کے لیے یہی مدعا کافی تھا سوچوں میں گم سم میں مئیو ہسپتال کے شعبہ ہڈی جوڑ والے پارک میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ کیا میں ابھی پاکستان میں بیٹھا ہوا ہوں یہ بات زیر ذہن رکھتے ہوئے اٹھا اور ایک طرف بنے گول سے دائرے میں جا پہنچا جہاں خستہ حال لکڑی اور لوہے سے بنی نشستوں کا مرکز تھا قرب و جوار میں جھاڑیاں سی اگ آئی تھیں وہاں بیٹھا غالباً یہ نومبر دسمبر دو ہزار بائیس کے درمیان کی بات ہے حدِ درمیاں تلک کی سردی تھی ہلکی ہلکی سی دھند سورج کی روشنی کو منعکس کر رہی تھی بہرحال نظارہ اک ادبی ٹچ دے رہا تھا سورج کی گرم شعائیں اس موسم میں مجھے محفوظ کر رہی تھیں ہلکے پھلکے ٹھںڈی ہوا کے جھونکے چہل قدمی کر رہے تھے جب بھی کوئی قریب سے ہو کر جاتا تو سردی کی شدت میں اضافہ محسوس ہوتا ایسے پسندیدہ موسم و نظارے میں دل کچھ نا کچھ سوچ رہا تھا جو غلط تھا اور سوچوں کے بادشاہ ضمیر بھیا نے ملامت کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی ہوں تم ایسے ہی بدگماں ہو رہے ہو اس بات کا فیصلہ تھوڑا مشکل مشکل تھا جیب سے سگریٹ کی ڈبیہ اور ماچس نکال کر سگریٹ سلگا کر پھر اپنی سوچ و ذاویہ نگاہ کا منصف عارضی بنے سوچا تو سوچ آئی کہ اگر وہ میاں بیوی بھی ہوں تو پبلک پوائنٹ پر ان کا یہ نازیبا لباس اور حرکیات مجرمہ کسی نا کسی فتنے کی میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں کیونکہ ایک ایسا ملک جو بنے کلمہ کے نام پر جس میں سیاست ہو {یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)} کے نام پر تو اس میں ایسا کچھ دیکھنا کسی عجوبے سے کم نہیں تھا۔

لیکن کہا بھی کچھ نا جا سکتا تھا کہ کہیں کہہ کر ان کے جیسا ہی لباس نا ہو جائے میرا ( ان کی پینٹیں پھٹی ہوئی تھیں جسے رف پینٹ بھی کہا جاتا ہے بس اک طنزیہ جملہ لکھنے کا یہ کہا ہے) اور چپ سادھے سوچوں میں ہی مگن رہا لیکن یہ اک آدھ جوڑا ہوتا تو شائد میں نا ویلا بیٹھتا نا سوچتا نا لکھتا بس اپنی سی راہ ناپتا اور چلتا بنتا ویسے ہی کئی جوڑے کوئی کپل کئی لڑکیاں آپ کو لاہور کی ہر دوسری سڑک پر مل سکتی ہیں انہیں دیکھ کر لیکن کچھ عجب سا محسوس ہو رہا تھا جو کہ ان کے اک کھلونے گٹار کی وجہ وجہ سے بھی ہو سکتا تھا ہو سکتا کیا تھا ہی میں حیران ہوتا اس سے پہلے اپنے اندر جھانکا تو چونکہ میں بھی گیتکار ہوں چنانچہ اس بارے کچھ بازگشت ہی نا ہو نا سوچیں بہتر تھا لیکن اسی دنیا میں اک سنگر جسے گلوکار کہتے ہیں بستا ہے جس کا نام ہے *EFI world* ان دنوں اس کا گیت آیا تھا *(اولڈ سکول وایب آ پرانی منڈے دی ہن ایتھوں شروع اے کہانی منڈے دی)* اس نے اپنے پہلے گانے میں ہی اک بہترین آغاز کا علی اعلان کہہ دیا تھا اور بھی دو تین آنے والے تھے پتہ نہیں آئے ہیں یاں نہیں یہ نہیں جانتا میں ماہر گیت کاری بنے اس گیت ہر تبصرے بھی کر چکا تھا کہ یہ بندہ *(لیندے پنجاب)* کا آنے والا اک بے تاج بادشاہ ہوگا مگر اللہ نے اسے ہدائت نصیب فرمائی اور اس نے پھر علی اعلان کہہ دیا کہ ہماری *(شریعت محمدی)* میں گیت کاری یہ میوزک وغیرہ مانع ہیں لہذا اب سے سب ختم یہ اک بہت بڑی فتح تھی افی بھائی کے لیے جب یہ بات مجھے پتہ چلی تو رہ نا پایا اس بھائی کی دین اسلام پر استقامت دیکھی سوچا اس بھائی کا معاملہ زیرِ بحث ضرور رکھوں گا تو آج ا ہی گیا ایسا نہیں ہے کہ تائب حضرات میں کمی ہے اک اور بندہ جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر کافی شہرتِ دوام حاصل کر چکا تھا اسے سترہ لاکھ بندہ فالو کر رہا تھا اسے لائیکس ستاون لاکھ تھے اور تو اور اسے ٹرینڈنگ ویڈیوز کا بادشاہ مانا جاتا تھا نام ہے *(حسن عابد)* کہتا ہےکہ میرا دوست فوت ہوا مجھے خواب آیا کہ اسے عذاب ہو رہا ہے اور میں نے اس سے پوچھا یار تو تو بہت شریف بالنفس بندہ تھا تونے کبھی کسی کا برا نہیں سوچا تو پھر یہ کیا کہتا ہے میرے دوست نے بتایا جو مر گیا تھا کہہ رہا ہے ٹک ٹاک کے اکاؤنٹ کی وجہ سے جتنے لوگ اس کے بنائے ہوئے مواد کو دیکھ رہے ہیں اور گانے سن رہے ہیں ان کی وجہ سے جیسے جیسے سننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے میرا عذاب بڑھ رہا ہے کہتا ہے دوسرے دن میں نے خواب میں اس کے کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ پڑ رہا ہے اور وہ کہہ رہا ہے یار حسن تجھے خدا کا واسطہ میرا ٹک ٹاک کا اکاؤنٹ ڈلیٹ کروا دے کہتا ہے کہ میں نے آج ہیکر ڈھونڈا اور اکاؤنٹ اڑوا دیا ۔

جناب یہ تھی آپ بیتی حسن عابد کی وللہ کیسے خوش نصیب بندے ہیں جو ایسے خواب دیکھتے ہیں اور کتنے باضمیر لوگ ہیں کہ جو عبرت پکڑتے ہیں ۔

اسی گیت کاری کے لحاظ سے جو بتانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ اک گروپ ہے سات میمبرز پر مشتمل ہے کورین گروہ ہے لڑکوں کا جو ہم جنسی کو فروغ دے رہا ہے آپ اب کہیں گے ہی کہ گروپ کوریا کا اور باتیں ادھر سنا رہا ہے بھئی کچھ تو لاجک ہوگا ہی جو بتاؤں گا تو توجہ طلب بات ہے کہ اس گروپ کا پہلا نام بریمگنٹن بوائز تھا اور اب کا نام (بی ٹی ایس)(بیوائنڈ دی سکائی) ہے ان انہوں نے ڈیبیو دو ہزار تیرہ میں بعض معلومات کے مطابق دو ہزار دس میں کیا اور وہ مرد کاہے کے کھسرے ہیں مطلب زنانے ٹائپ اور ان کی مداح زیادہ تر لڑکیاں ہی ہیں اور ان کے پیچھے لڑنے تلک آ جائیں گی انہوں نے پاکستان میں یہ فتنہ کچھ بڑے ہی قابل غور طریقہ سے جھونکا کہ انہوں نے اک لائیو شو کے درمیان سکرین پر (لو LOVE)کا اردو ترجمہ محبت اور عشق لکھا ایسا نہیں تھا کہ بس اردو زبان میں ہی لکھا ہو اور بھی بہت سی زبانوں میں لکھا یہ طریقہ مختلف کمیونیٹیز کو مداح بنانا تھا اور بنی بھی کچھ حیا باختہ لبرلزم کے کتوں نے اسے اپنی زبان سے محبت کرنے والا شو جیا کہ انہوں نے ہماری زبان اپنے شو میں ظاہر کی لہذا اک ٹویٹر پر ٹرینڈ بنا دیا گیا ہیش ٹیگ بنا دیا گیا

#loveurbts

ان کے اردو لکھنے سے اک فتنہ عظیم پاکستان کی حدود میں داخل ہو گیا اور پھیلتا گیا اور نوجوان لڑکیاں کافی حد تک اس فتنے کی شکار ہوئیں اس کا سب سے بڑا ثبوت کراچی سے بھاگی ہوئیں دو لڑکیاں تھیں جو اس بینڈ یعنی بی ٹی ایس سے ملنے کوریا جانا چاہتی تھیں وہ اپنے گھر سے بارہ سو کلومیٹر دور لاہور سے حراست میں لے لی گئیں کیونکہ ان کے ماں باپ نے اغواء و گمشدگی کا مقدمہ دائر کروا دیا تھا جو کراچی پولیس کی محنت شاقہ کے بعد حل ہوا اور لڑکیاں واپس آ گئیں اور دو ہزار بائیس میں اس بینڈ نے کچھ وقت کے لیے بریک لے لی ہے کیونکہ کوریا کا قانون ہے کہ ہر نوجوان لڑکا یاں لڑکی تین سال کی آرمی ٹریننگ ضرور لیتا ہے اور اس طرح ان کا بیک اپ دو ہزار پچیس میں ہوگا اور یہ فتنہ یعنی دجالی فتنہ اک بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائے گا اوپر سے اس ملک پاکستان میں قانون بھی نافذ ہو گیا ہے ہم جنس پرستی کا اور تب تلک اس مدعے پر کوئی بھی نہیں بولے گا کیونکہ تب تلک مختلف لوگوں کے انوسار کے مطابق یہ  ٹرینڈ اختتام پذیر ہو چکا ہوگا کیونکہ میرے ساتھی جو کالم نگار اور شاعر ہیں مصنف ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب تلک اک بات گردشِ ایام میں ہو تب تلک اس پر لکھو بعد میں لوگ کوئی مثبت کردار اور مثبت تاثر نہیں دیتے لہذا وہ نہیں لکھتے مگر میں ضرور لکھوں گا اور لکھتا رہوں گا یہ کوئی ٹرینڈ تھوڑی ہے امت مسلمہ کو کمزور کیا جارہاہے اور دو ہزار پچیس میں اک بہت بڑی تباہی ہوگی جو ہم جنسوں کے لیے اچھی خبر ثابت ہوگی استغفرُللہ سوچو تب کا وقت ہو سکتا ہے تب تک لبرلزم کا قانون بھی پاس ہو گیا ہو پاکستان میں یہ اللّٰہ جانتا ہے اور تب تلک فحاشی سرعام ہو جائے گی اور لوگوں کا ضمیر مر گیا ہوگا اور ملک پاکستان امام مہدی علیہ السلام کے انتظار میں ہوگا کیونکہ جتنی گندگی اب تلک پھیل چکی ہے اور پھیل رہی ہے اور پھیلے گی وہ وہی صاف کریں گے پھر کہیں جا کر غزوہ ہند ہوگا وگرنہ کوئی بھی پاکستانی لیڈر نہیں لڑ سکتا سوائے حافظ سعید جماعت دعویٰ کے اور وہ چھتیس سال کی قید میں ہیں اور فتنہ وقت وقت پر بڑھ رہے ہیں حال ہی کی بات ہے اسلام آباد کی اک یونیورسٹی میں اک سوال کیا گیا کہ بہن بھائی کے جسمانی تعلقات کے بارے میں لکھے کم از کم اس پیراگراف میں تین سو الفاظ ہوں میاں بیوی کا کردار اب بہن بھائی کے رشتے میں ڈال کر ایسا سوال کہ غیرت ہی شرمندہ ہو جائے یہ انسیسٹ اڈیکشن کا پہلا حملہ ہوا ہے جو کہ اک کثیر تعداد نے اس ہر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے اور اس میں ملوث افراد کو بزبان سرکار سزا دی جائے گی آپ اس گندے معاملے کو سوشل میڈیا پر ڈارک ویںز پر تحقیق کر سکتے ہیں ۔ یہ تمام فتنوں کا مجھے باپ لگا ہے اس قدر گندہ فتنہ میں نے آج تلک نہیں سنا اللہ پناہ اور میری اپنے قارئین کرام سے گزارش ہے کہ اس فتنے کی سرکوبی کیلئے آواز اٹھائیں وگرنہ ہم میں اور جانوروں میں فرق نہیں رہے گا ۔ اور بھی ایسے بہت سے فتنے ہیں جو کہ آپ قدم قدم پر ملک پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں اور قوم کی بے وقوفی آپ اس بات سے بھی سکتے ہیں کہ سیاسی کتوں کے پیچھے اپنوں سے لڑیں گے میرا کہنا ہے سبھی سیاسی کتے ہیں چاہے ملا ہو یاں لبرل یاں زرداری یا شریف سبھی کتے ہیں سب سے بڑا کتا عمران خان ہے جو کہ آج فتنہ عظیم کے روپ میں پاکستان پر مسلط ہوا کیونکہ ان کے مطابق جو عمران خان کے دھرنے میں آیا گو یہ کہ وہ راہ جہاد میں آیا اس طرح جو عمران خان کا ساتھ دے رہا ہے وہ حق پر ہے او بھئی کونسا حق یار جس بندے نے انگریزنی شادی کی ہو وہ کیسے امت مسلمہ کا قائد بن سکتا ہے ایسے ہی ہے جیسے یہ زنا کرتا رہا ہو یا شادی شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہو وی نکاح نہیں ہوتا اور نکاح کے بغیر زنا ہوتا ہے تھوڑا غور کیجیے عمران خان کے پیروکاروں ۔ یہ بہت بڑا فتنہ ہے عمران خان اس سے بڑا یہ سیاسی نظام جس میں ہر ملا قدم لا رہا ہے سب سے برے لوگ ٹی ایل پی والے ہیں جو دین کا نام لے کر عوام کو گھروں سے نکال کر کرسی چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ معاف فرمائے اگر کہیں تہمت ہی نا لگ جائے کیونکہ دلوں کے بھید اللہ جانتا ہے اور میرا دلی مؤقف یہ ہے کہ اس بار ووٹ ضائع کریں اور پھر روئیں اپنی قسمت پر اک اسلامی فرمان ہے کہ جیسی عوام ویسا حکمران مسلط کیا جاتا ہے اس میں استعمال ہوا لفظ مسلط قابل غور ہے کہ چنا نہیں جاتا مسلط ہوتا ہے ۔

اس سے آگے اس لائن کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔

احباب سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں سے شروع کیا لکھنا اور کہاں تلک آ گیا او بھئ عنوان ہی ایسا ہے آج کے کالم کا اور اک بات جو کہ قوم کی پستی کے حوالے سے تھی راقم آج سے چار دن پہلے اورنج لائن ٹرین میں سوار ہوکر ٹھوکر نیاز بیگ سے لاہور تک جا رہا تھا ساتھ میں احباب بھی تھے اور میری نشست کے سامنے جو سکرین لگی تھی وہ میٹرو ٹرین کے بارے بتا رہی تھی ایک لفظ بھی اردو کا نہیں تھا ایک لفظ بھی سب کا سب انگریزی زبان میں اور ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی یورپیئن یونین کے علاقے میں ٹرین پر بیٹھا ہوا ہوں اردو بس یہ بولی جا رہی تھی کہ اپنے سامان کا خیال خود رکھیں اور اگلا سٹیشن کونسا ہے باقی سب انگریزی زبان میں لکھا اور بولا جا رہا تھا مجھے اپنی قوم میں رچی بسی انگریزی دیکھ کر غصہ آ رہا تھا تو غصہ دور کرنے کے لیے نیں کھڑکی سے باہر جھانکتا رہا اور واپسی پر بھی یہی جیسے ہی جی پی او سٹیشن پر پہنچا تو وہاں تھوڑا سا آگے کتب میلہ منعقد تھا جسے دیکھ کر قوم ہر فخر ہوا مگر جب کتابیں دیکھیں تو 80 فیصد انگیریزی زبان میں تھیں معذرت خواہ ہوں کہ فتنوں کے کالم میں یہ لکھا مگر کیا کروں عادت ہے جو برا دیکھوں لکھنے کی تو لکھ دیا 

اے بی اشرف میں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں