48

راجہ عزیز بھٹی کا یوم شہادت/ تحریر/محمد عزیر گل

26 ستمبر 1965 کو صدر مملک فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجویں کو جنگ میں بہادی اور نمایاں کارنامے انجام د ینے پر مختلف اعزازات سے نوازا گیا ، ان اعزاز میں سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو نوازا گیا ، نشان حیدر حاصل کرنے والوں میں میجر عزیز بھٹی تیسرے پاکستانی ہیرو ہیں ، جن کی جرات ، بہادری اور وطن عزیز سے محبت کا غیر متزلزل جذبہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔

ارض پاک خدا وند عظیم کی لازوال نعمتوں میں سے ایک ہے ، یہ ایک خود مختار ریاست ہے ، اس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ مدینہ منورہ کے بعد وہ واحد ریاست ہے جو لا الہ الا اللہ کے نام پر وجود میں آئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ روز اول سے نظریاتی و سرحداتی دشمن پاکستان کو معاشی ، سیاسی اور نظریاتی طور پر کمزور کرنے توڑنے کی ناپاک کوششوںمیں لگے ہوئے ہیں ، اس کا آغاز1947 میں آزادی سےکچھ عرصہ بعد ہی شروع ہوگیا تھا ، جب پہلی مرتبہ 27 اکتوبر 1947کو مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرلیا ۔ اسی طرح اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اندرونی خلفشار پیدا کرنے کے لیے کلبھوشن یادو جیسے کریکٹروں کو تیار کرتے ہیں ، جن کا بنیادی مقصد ہی پاکستان کو ہر طرح کی نقصان پہنچانا اور کمزور کرنا ہے ، لیکن دشمن کو ہر مرتبہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، کیونکہ پاکستانی فوج اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے لحاظ سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے ، اس بات کی پوری دنیا معترف ہے ، کیونکہ پاک فوج کی اولین ترجیح دفاع پاکستان ہے اور وہ اس کے لیے ہمیشہ مستعد رہتی ہے ، ہر سپاہی شہادت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے ، ان کا نعرہ جہاد فی سبیل اللہ ہے ، اسی جذبے اور جنون کی وجہ سے ہزاروں نوجوانوں نے ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانے پیش کیے ہیں ، اپنے بنیادی نظریہ جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی لا الہ الا اللہ کی بقا کے لیے جام شہادت نوش کی ، انہی پاکستان کے عظیم سپوتوں میں ایک چمکتا ستارہ میجر عزیز بھٹی شہید بھی ہے ۔
میجر عزیز بھٹی شہید 16 اگست 1928 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے ، آپ کا تعلق ایک پنجابی راجپوت گھرانے سے تھا ، جو ہندوستان میں پنجاب کے ضلع گجرات سے تقریبا 110 میل دور ایک چھوٹے سے گاوں سے تھا ، کیونکہ آپ کے والد راجا عبداللہ بھٹی اور دو چچا ہانگ کانگ میں پولیس فورس میں جاب کرتے تھے ، اس لیے انہوں نے اپنی فیملی سمیت وہیں رہائش اختیار کرلی تھی ، آپ کی والدہ آپ کو محبت سے راجہ پکارتی تھیں ، اس لیے راجہ عزیز بھٹی کے نام سے بھی پکارے جاتے تھے ، عزیز بھٹی شہید نے اپنی ابتدائی تعلیم ہانگ کانگ سے حاصل کی ، وہیں سے بی اے کیا ، کالج میں آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے پرنسپل نے آپ کے لیے برطانوی حکومت سے سفارش کی ، جس پر انہیں اعلی تعلیم کے لیے سکالر شپ دینے کی پیش کش کی گئی،بچپن میں فٹ بال ، ہاکی ، کرکٹ اور ٹینس بال کھیلنا پسند تھا ،دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دسمبر 1945 میں سارا خاندان اپنے آبائی علاقے لادیاں لوٹ آیا ، آپ نے جون 1946 میں رائل انڈین ائیر فورس میں بہ طور ائیر مین کے شمولیت اختیار کی ، قیام پاکستان کے بعد میجر عزیز بھٹی نے پاک فضائیہ کے ساتھ وابستہ ہوگئے ، جنوری 1948 میں انہوں نے وزارت دفاع کو ایک درخواست لکھی ، جس میں انہوں نے پاکستان آرمی میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ، جس کو منظور کرلیا گیا ، آپ کو پاکستان ملٹری کاکول میں جانے کا حکم دیا گیا ، میجر عزیز بھٹی شہید نے 1950 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے ریگولر کورس کی پاسنگ آوٹ میں شمولیت کی ، جس میں انہیں شہید ملت لیاقت علی خان سے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ اعزازی شمشیر اور نارمن گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا ، انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی اور 1956 میں ترقی کرتے ہوئے میجر بن گئے ۔
جنوری 1965 سے لے کر مئی 65 تک بھٹی شہید نے 17 پنجاب رجمنٹ کے جنرل سٹاف آفیسر کے طور پر سر انجام دیتے رہے ، لیکن آپریشن جبرالٹر پر ہندوستانی فوج کے جوابی حملے کے بعد آپ کو دو ملٹری کمپنیوں کا کمانڈر متعین کیا گیا ، 6 ستمبر 1965 کو جب بھارتی فوج نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی شہید اس وقت لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے ، آپ کو پیشہ ورانہ مہارت کی بنیاد پر بی آر بی نہر کے دفاع کی ذمہ داری دی گئی، میجر عزیز بھٹی نے نہرکے اگلے کنارے کی پلٹون کے ساتھ رہتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے بھارتی یلغار کا بھرپور انداز میں دفاع کیا ، انہوں نے اپنی پوزیشنوں کو بدل بدل کر فائرنگ کرنے کا حکم دیا تاکہ دشمن کو یہ تاثر جائے کہ مقابلہ میں پوری بریگیڈ ہے ، انہوں نے انڈیا کے اس خواب کو کہ وہ شام کا کھانا پاکستان میں کھائیں گے ، چکنا چور کردیا ،ان کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا ، ان کے علاقے میں گھس گئے ، اور دستہ کی کمان آگے رہتے ہوئے کرتے رہے ، آپ مسلسل 5 دن 5 راتیں جاگتے رہے ، اس دوران انہیں کئی چوٹیں لگیں ، مگر انہوں اس کی فکر کیے بغیر کمان جاری رکھی ،اپنے سپاہیوں کے حوصلے بلند رکھے ، میجر عزیز بھٹی شہید کو اعلی کمان کی طرف سے آرام کا مشورہ دیا گیا ، بلکہ چھٹی دینے اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کی پیش کش کی ، مگر انہوں وطن عزیز کی آزاد فضاوں کی خاطر اپنے آرام کو قربان کیا اور کہا مجھے واپس نہ بلائیں ، میں واپس نہیں جانا چاہتا ، میں اپنے خون کا آخری قطرہ اپنے وطن عزیز کے دفاع میں بہادوں گا ، انہوں نے اپنے الفاظ کو اپنے کردار سے سچا ثابت کیا ۔
اپنے علاقے کو آزاد کروانے کے بعد وہاں نعرہ تکبیر کی صداوں سے علاقے کو معطر کیا اور اس میں پاکستانی پرچم بلند کر کے دشمن کے حوصلے پست کیے ،آگے بڑھتے ہوئے دشمن کے قریب تر ہوتے گئے ، خود کو ہمیشہ آگے رکھا تاکہ اپنی کمان کا حوصلہ بڑھاتے رہیں اور دشمن کی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھ سکیں ، 12 ستمبر 1965 کو صبح کے وقت میجر عزیز بھٹی شہید نے انڈیا کی گاڑیوں کو برکی طرف سے بڑھتا ہوا دیکھا جو نہر کی جانب بڑھ رہی تھیں ، آپ نے ان پر حملہ کا حکم دیا ،جس سے ان کے ٹینک تباہ ہوگئے ، اس دوران 9 بجے کے قریب دشمن کی ایک توپچی نے گولہ فائر کیا جو آپ کے سینہ میں آکر لگا اور آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے اور اپنے وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے عشق اور بہادری کی لازوال داستان اپنے خون سے رقم کر گئے اور رب کے حضور پیش ہوگئے ، اس وقت آپ کی عمر 37 سال تھی ، آپ کو آبائی گاوں کے گھرکے صحن میں سپرد خاک کیا گیا ، تاکہ نسل نو کے لیے وطن کی عظمت اور تقدس کا مثالی کردار ہمیشہ زندہ رہے ۔
26 ستمبر 1965 کو صدر مملک فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاک فوج کے 94 افسروں اور فوجویں کو جنگ میں بہادی اور نمایاں کارنامے انجام د ینے پر مختلف اعزازات سے نوازا گیا ، ان اعزاز میں سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو نوازا گیا ، نشان حیدر حاصل کرنے والوں میں میجر عزیز بھٹی تیسرے پاکستانی ہیرو ہیں ، جن کی جرات ، بہادری اور وطن عزیز سے محبت کا غیر متزلزل جذبہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں