71

راشد منہاس شہید/تحریر/امداداللہ طیب

اپنی جان نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد، تجھے کیا پیش کروں

تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کے
اُبھرا ہر گام پہ تو فتح کا نعرہ بن کے

اس شجاعت کا تجھے، کیا میں صلہ پیش کروں
اپنی جان نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں

راشد منہاس غیور و نڈر قوم کا عظیم بیٹا جو جواں عمری میں اپنی جان اپنے ملک و قوم پر نچھاور کرگیا۔
وہ 17 فروری 1951ء کو شہر قائد میں پیدا ہوئے۔اپنی ابتدائی تعلیم بھی انہوں نے کراچی میں حاصل کی اور صرف سترہ سال کی عمر میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا خاندان کچھ عرصہ راولپنڈی بھی رہائش پذیر رہا۔ انہوں نے کوہاٹ اور رسالپور سے تربیت حاصل کی اور مزید تربیت کے لئے واپس کراچی آئے۔ ان کے خاندان میں اور بھی لوگ مسلح افواج سے منسلک تھے اس ہی لیے انہوں نے بھی پاک فضائیہ میں بطور پائلٹ شمولیت کا فیصلہ کیا۔
کراچی میں جنم لینے والے اس الوالعزم نوجوان راشد منہاس کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا۔ ان کے آباؤاجداد جموں و کشمیر سے گرداس پور میں آباد ہوگئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے دوران ان کا خاندان گرداس پور سے ہجرت کر کے سیالکوٹ کے قریب آباد ہوگیا۔ راشد کا بچپن لاہور میں بسر ہوا۔ ان کے والد پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر اور MES کے ساتھ وابستہ تھے۔ ان کا تبادلہ راولپنڈی ہوگیا۔ راشد نے اپنی ابتدائی تعلیم راولپنڈی کی سینٹ مرے اکیڈمی (Saint Mary Academy) سے حاصل کی۔ انہیں بچپن سے ہی جہاز اُڑانے کا جنون تھا۔اپنے جیب خرچ کا بڑا حصہ لڑاکا طیاروں کے ماڈل خریدنے پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ان کی سکول ڈائری میں درج ( 7 اگست 1965ء) کی تحریرسے بھی تصدیق ہوتی ہے، جس میں انہوں نے لکھا: ’’آج میں نے اپنے دل میں یہ تہیہ کر لیا ہے کہ مسلح افواج کے تین شعبوں میں سے کسی ایک کا حصہ ضرور بنوں گا۔‘‘
راشد منہاس کے والد انہیں انجینئر بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے بیٹے کے عزم کے سامنے اپنی خواہش سے دستبرداری اختیار کر لی۔ راشد منہاس نے A اور O لیول کے امتحانات اعزازی نمبروں کے ساتھ پاس کیے اور 18 برس کی عمر میں پی اے ایف کالج لوئر ٹوپا میں داخل ہوگئے۔ اس زمانے میں ان کا شمار کالج کے بہترین مقررین میں ہونے لگا۔ لوئر ٹوپا میں ابتدائی تربیت مکمل کرنے کے بعد اگست 1969ء میں انہوں نے 51GD (P) کورس پی اے ایف اکیڈمی رسال پور میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے طیارہ اڑانے کی ابتدائی اور پرائمری تربیت Havard اور T-37 ایئر کرافٹ پر حاصل کی اور اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
14 مارچ 1971ء نوجوان راشد منہاس کی زندگی کا ایک تاریخی اور یادگار دن تھا کیونکہ اس روز ان کے کندھوں پر پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسر کے رینکس آویزاں کیے گئے تھے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ چند روز گزارنے کے بعد راشد منہاس Masroor Base پہنچے جہاں انہیں T-33 پر Conversion Course میں حصہ لینا تھا اور اپنی قسمت میں لکھے فیصلے سے بے خبر راشد نے اسکواڈرن ٹو کے ساتھ فلائنگ ٹریننگ کا آغاز کیا۔
1971ء میں راشد منہاس نے بطور جنرل ڈیوٹی پائلٹ گریجوٹ کیا اور ان کی پوسٹنگ پی اے ایف بیس مسرور کراچی میں ہوگئ۔ اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی جب انہوں نے لڑاکا طیاروں کو اڑانے کی تربیت کا آغاز کیا۔ وہ کوئی عام نوجوان نہیں بہت ذہین و فطین تھے۔ مطالعے کے بھی شوقین تھے جس میں انگریزی جغرافیہ، موسمیات اور عکسری تاریخ ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔
وہ باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ ان کی اپنی لائبریری تھی جس میں مختلف موضوعات پر کتابیں موجود تھیں۔کھیلوں کے شوقین تھے۔ان کے مشاغل میں مطالعے کے علاوہ ہاکی کھیلنا شامل تھا۔
فلائنگ آفیسر راشد منہاس 20 اگست 1971ء کو معمول کے مطابق ٹی 33 ٹرینر جیٹ کو اڑانے والے تھے کہ ان کا بنگالی انسٹرکٹر فلائٹ لفٹینٹ مطیع الرحمان زبردستی ان کے جہاز میں سوار ہوگیا۔ طیارے میں سوار ہوتے ہی غدارِ وطن نے اپنے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ تم میرے اہل خانہ کو لے کر بھارتی ہائی کمیشن چلے جاؤ، میں جودھ پور جارہا ہوں۔ راشد منہاس نے فوری طور پر کنٹرول ٹاور کو مطلع کیا، پر مطیع الرحمان نے راشد منہاس کو ضرب لگائی اور کلوروفارم سونگھا دیا۔غدار کے پاس کچھ خفیہ دستاویزات تھیں جو وہ بھارت لے کر جانا چاہتا تھا۔
گیارہ بج کر اکتیس منٹ پر طیارے کا رخ بھارت کی جانب تھا تاہم راشد منہاس نے ہوش میں آنے کے بعد گیارہ بج کر تینتیس منٹ پر اطلاع دی کہ مجھے طیارے سمیت اغوا کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد طیارے کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہوگیا اب راشد منہاس کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔جوان سال پائلٹ نے جب یہ دیکھا کہ ہندوستانی سرحد صرف 32 میل دور رہ گئی ہے تو انہوں نے جہاز کا رُخ زمین کی طرف کردیا۔ جہاز کے زمین سے ٹکراتے ہی دونوں ہی وفات پا گئے۔ لیکن ایک شہید کہلایا اور دوسرا غدار۔ تاریخ ان دونوں کو اپنے اپنے کردار سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
کہ کیسے پاکستان کے شاہین نے اپنی جان قربان کرکے غدارِ وطن اور ہندوستان کے تمام ناپاک ارادے خاک میں ملا دیے۔
21 اگست کو راشد منہاس کو سپرد خاک کردیا گیا یہ مردِ مومن ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا یوں زندہ و جاوید ہے کہ آج تک قوم کے اس بیٹے کا یومِ شہادت عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔ پاکستان ائیر فورس کے شاہین راشد منہاس کو نشانِ حیدر سے نوازا گیا وہ پاکستانی فوج کی تاریخ میں اب تک کہ سب سے کم عمر ترین شہید ہیں۔ جن کو یہ اعزاز ملا۔
20 اگست ہمیں اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جب قوم کے شاہین نے اپنی جان اس وطن پر وار دی لیکن اس ملک کی سالمیت پر حرف نہیں آنے دیا۔
راشد منہاس نے اپنی ڈائری میں یہ جملہ رقم کیا تھا کہ ”کسی شخص کے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوا کہ اپنی جان ملک کے لیے قربان کردینا“ اور بلاشبہ اس مرد مجاہد نے یہ ہی کردکھایا۔
اللہ تعالیٰ شہید فلائنگ آفیسر راشد منہاس کے درجات بلند کرے۔
آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں