ایک زمانہ تھا جب انسان غاروں میں رہتا تھا، پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانپتا تھا، جنگلی جانوروں کے شکار سے ان کا گزر بسر چلتا تھا۔ اس وقت وہ اپنی زندگی مطمئن ہوں گے، لیکن پھر آہستہ آہستہ انسان نے نئ راہیں، نئ منزلیں کھوجنا شروع کی جس نے انسان کی زندگی اور فطرت میں تغیر برپا کر دیا۔جب انسان کی زندگی لفظ تجسس سے روشناس ہو جائے تو زندگیاں بدل جایا کرتی ہیں۔اس طرح انسان کی زندگی اور فطرت میں اٹھنے والا طوفان انسان کو اسکی منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔لیکن اس سے پہلے ہمیں زندگی گزارنے کے اصولوں کا تعین کرنا ہوتا ہے کیونکہ اصولوں کو تھامے بغیر نا تو آپ کی زندگی کی ٹرین کسی شاندار اسٹیشن پہ رک پاتی ہے اور نا ہی آپ اس سے لطف اٹھا سکتے ہیں
اللّٰہ رب العزت نے اپنے بندے سے محبت میں اس کائنات کو تشکیل دیا اور مختلف رنگوں سے بھر دیا اور پھر ایک کتاب کی صورت میں قرآن نازل کیا کہ ہم اس رنگوں سے بھرپور کاoئنات میں رہنے کا طریقہ سمجھ سکے اس طرح سے اس کائنات میں رہنے اور اس میں چھپے رازوں سے پردہ اٹھانا انسان کے اختیار میں ہے
کبھی آپ نے کسی ایک سمت میں چلتے ہوئے دیکھا ہے کتنے لوگ، کتنے چہرے ، کتنے منظر آپ کے ہر اٹھتے قدم کے ساتھ بدل جاتے ہیں اور یہی زندگی کی خوبصورتی ہے اگر کبھی ایسا نا ہو تو آپکی زندگی ایک غیر مرئی نقطے پر منجمد ہو جاتی ہے۔ زندگی کی گاڑی کو چلاتے رہنے کے لیے منزل کا ہونا معنی رکھتا ہے جیسے ہماری زندگی ایک سفر ہے ایسا سفر جس میں ہمارے ساتھ چلنے والے لوگ تو بہت ہوتے ہیں لیکن منزل پہ ہمارے ساتھ وہی پہنچ پاتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا قریبی یا خونی تعلق ہوتا ہے درحقیقت یہی لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں منزل مقصود تک پہنچانے میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور انہی رشتوں کی وجہ سے انسان کی زندگی میں خوبصورتی قائم رہتی ہے
زندگی کی خوبصورتی کو پرکھنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے انسان نے اپنی معاشرتی اور دکھاوے کی زندگی کو اپناتے ہوئے اپنی زندگی کی خوبصورتی اور دلکشی خود ختم کی ہے۔ آج کے دور اس گہما گہمی کے دور میں انسان نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے جو انسان کو کھوکھلا کر رہی ہیں اور یہ کھوکھلا پن معاشرتی بے راہ روی کی صورت میں آپکے سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگ بہت امیر ہو کہ، پیسہ پا کر بھی زندگی سکون سے نہیں گزار پاتے اور کچھ لوگ دو وقت کی روٹی کھا کر بھی پر سکون زندگی گزارتے ہیں
آپ نے اپنی زندگی کس ڈگر پر لے کے جانی ہے اس کا اختیار انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے چاہے تو آپ اپنی زندگی کی گاڑی کو کسی پرسکون مقام پر روکنا چاہیے یا کسی بے ڈھنگے شورشرابہ والی جگہ پہ۔
کسی اولڈ ہوم میں دو بوڑھے بزرگوں کے بیڈ قریب قریب تھے لیکن ان کے درمیان میں ایک پردہ حائل رہتا تھا ۔ ایک بزرگ کے بیڈ کے پاس کھڑکی تھی جس سے وہ باہر کے خوبصورت نظارے اپنے ساتھی کو سنایا کرتا تھا اس طرح ان میں بات چیت ہوتی رہتی تھی اور باہر کے خوبصورت نظاروں کا سن کہ اس کے دل میں باہر کے مناظر دیکھنے کی خواہش جاگتی اور اس طرح اس کی زندگی میں امید کے جگنو ٹمٹماتے کے وہ کبھی ٹھیک ہو کر یہ سب دیکھ پائے گا۔ایک دن کھڑکی کے پاس والے بزرگ کا انتقال ہو جاتا ہے اور دوسرے بزرگ کی خواہش پر اسے اپنے بیڈ سے کھڑکی والے بیڈ پر منتقل کیا جاتا ہے اور وہ سب سے پہلے بند ہوئ کھڑکی کو کھول کر باہر کا خوبصورت نظارہ کرنا چاہتا ہے لیکن جیسے ہی کھڑکی کھولتا ہے اس کے سامنے ایک وسیع وعریض بنجر زمین ہوتی ہے۔ وہ نرس سے پوچھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مرنے والا بزرگ نا بینا تھا۔ لیکن اس کی زندگی کے رنگوں نے اس کی آنکھوں کے اندھیرے میں بھی روشنی کئے رکھی اور ساتھ ہی ساتھ دوسروں میں بھی امید کے جگنو بانٹے۔
تو انسان کی زندگی، حالات سب انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے چاہے تو اس کو شاندار بناۓ یا چاہے تو اس کو مایوسی اور نا امیدی کا گڑھ بنا لے۔