فروری شمسی سال کا دوسرا مہینہ ہے، اس مہینے میں سردی کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور برگ و بار پر بہار کی آمد کے ابتدائی آثار نمودار ہوتے ہیں۔ کہر کو توڑتا ہوا بیداری پہ مائل کرتا فروری، اسی کے ساتھ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دنوں کی تعداد باقی مہینوں سے کم ہوتی، چار سال بعد ایک مزید دن کا اضافہ ہوتا ہے۔ یہ وہ معلومات ہیں جو کہ سب کے علم میں ہیں اس میں چند دہائیوں سے ایک دن کا اضافہ ہمارے ہاں دیکھنے میں آیا ہے۔ پوری دنیا میں 14فروری کو ویلنٹائن ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے کی مصدق پاکستان میں بھی یہ دن بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کب اور کیوں شروع ہوا؟ اس حوالے کوئی ختمی رائے یا روایت نہیں ملتی البتہ مختلف داستانیں ہیں جو اس دن سے منسوب کی جاتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کی کوئی ٹھوس دلیل نہ ہو وہ بس کہانیوں کے زور پر چلتی ہے۔ یہی حال ویلنٹائن ڈے کا ہے۔ ان تمام کہانیوں میں ویلنٹائن نام مشترک ہے۔
یونانی دیو مالائی داستان کے مطابق یہ دن رومیوں کے ہاں ان کی شادی بیاہ کی دیوی “یونو” جو کہ دیوتاؤں کی ماں ہے اور رومی عورتوں کی محافظ و نگران دیوی شمار ہوتی تھی اس کے دن کے طور پر منایا جاتا تھا۔ پھر رومی 15 فروری کو اپنے ایک دیوتاLupercalia کے نام پر سالانہ میلے کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ اس میلے کی خاص بات یہ تھی کہ نوجوان لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈالے جاتے پھر مرد بغیر دیکھے وہ نام نکالتے، یوں ایک دن، سال یا تاحیات وہ ایک جوڑے کی صورت میں رہتے تھے۔
ایک روایت یہ ہے رومی بادشاہ کلاڈیوس دوم کی فوجیں مختلف محاذوں پر سرگرم رہتی تھیں۔ اس نے ملک کے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرنا چاہ تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر جنگوں میں شرکت نہیں کرنا چاہتے۔ اس وجہ سے اس نے شادی پر پابندی عائد کر دی۔ ایک راہب جس کا نام ویلنٹائن تھا اس نے جوڑوں کی خفیہ شادیاں کرائیں۔ بادشاہ کے علم میں جب یہ بات آئی تو اس نے اس کو سزائے سنائی۔ جیل میں اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی۔ دونوں کی خفیہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ اسے 14فروری کو پھانسی دے دی گئی۔ اس نے اپنے آخری خط کے اختتام پر “تمہارا ویلنٹائن” کے الفاظ لکھے۔ اس کی موت کے بعد کچھ منچلوں نے اسے شہید محبت قرار دیتے ہوئے اس کے نام سے یہ دن منانا شروع کر دیا۔
ایک اور کہانی کے مطابق ایک چرچ میں کسی راہبہ اور راہب کو ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے مگر چرچ کے قانون میں کوئی راہب یا راہبہ تاحیات شادی نہیں کر سکتے۔ راہب جس کا نام ویلنٹائن کہا جاتا ہے اس نے راہبہ کو کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ 14فروری ایسا مبارک دن ہے جب سب جائز ہو جاتا ہے۔ یوں ان دونوں نے چرچ کے قوانین کی خلاف ورزی کی اور قتل کر دئیے گئے۔
ایک اور کہانی پادری ویلنٹائن کی ہے اس وقت تک رومی بت پرست تھے کچھ لوگ اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر عیسائیت اختیار کرنے لگے رومی شہنشاہ کے علم میں جب یہ بات آئی تو اس نے پادری ویلنٹائن کو پھانسی دے دی(کچھ کا خیال ہے کہ یہیں جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی تھی) بعد میں جب روم نے سرکاری طور پر عیسائی مذہب اختیار کیا تو اس پادری کی یاد میں یہ دن منایا جانے لگا۔
اب دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب اس دن کے حوالے سے کیا کہتے ہیں.
سب سے پہلے عیسائیت کی بات کرتے ہیں کیونکہ عیسائی دنیا میں اسے بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ اس دن پر بارہا پابندی لگائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 2016ء بھی مسیحی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیے۔ اسی کی کڑی کے طور پر بینکاک میں ایک مسیحی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کر دیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔
اب بات کرتے ہیں ہندومت کی۔ ہندومت میں ہر قسم کی خرافات اور شرک کی گندگی ہے اس کے باوجود ہندوؤں نے ’’ویلنٹائن‘‘ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارت میں ویلنٹائن منانے والوں پر سخت گیر مذہبی ہندو تنظیمیں حملے کرتی اور پھول و تحائف بیچنے والوں کی دکانیں توڑ دی جاتی ہیں ۔ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ویلنٹائن سامان بے حیائی اور ان کی تہذیب و ثقافت کے انتہائی خلاف ہے۔ لہٰذا اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت میں ویلنٹائن ڈے انتہائی خوف و دہشت کے سائے میں منایا جاتا ہے۔
اسلام وہ آفاقی مذہب ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام میں نکاح کے بغیر کسی محبت یا کسی تعلق کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کسی بالغ مرد و عورت کو تنہائی میں ملنے کی اجازت نہیں کیونکہ ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔
اوپر دی گئی کہانیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ویلنٹائن نے سب سے پہلے محبت کا رقعہ بھیجا تاہم عوامی سطح پر محبت کی عبارتیں تحریر کرنے کا رواج 1400ء کے بعد شروع ہوا۔ پھر ہر تہوار کی طرح یہ دن کاروباری حضرات کے ہتھے چڑھا۔ انہوں نے اس سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ آج پوری دنیا میں کرسمس کے بعد تحائف یا کارڈ اسی دن دئیے جاتے ہیں۔ یعنی یہ دن محبت سے زیادہ تجارت و کاروبار کے لئے سود مند ہے۔ بڑے بڑے سٹورز میں چاکلیٹ ، نقلی و اصلی گلاب، لال بھالو( ٹیڈی بیئر) پر خصوصی ڈیل نظر اتی ہے۔اسی طرح مختلف ہوٹل اور ریسٹورنٹ کی طرف سے خصوصی پیکج دئیے جاتے ہیں موبائیل فون کمپنیاں کئی رعایتی پیکیج متعارف کراتے ہیں۔ موبائیل فون کی دکانوں پر بھی یہی رعایت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اخبارات میں یکم فروری ہی سے اشتہار دیکھنے کو ملتا ہے جس میں محبت کرنے والے احباب کو دل کی بات پہنچانے کی سہولت بہم پہنچائی جارہی ہے اس دن کے لئے پیغام شائع کرانے کے لئے فورا بکنگ کریں۔ ساتھ ہی مختلف چارجز کی لسٹ دی جاتی ہے یک سطری، دو سطری اور دل وغیرہ کے ساتھ پیغام پر مزید اضافی چارجز لاگو ہوں گے۔ سر عام اس دن کو منانے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ گویا اس دن کا نہ منانا سخت محرومی ہے ۔ یہ سب دیکھتے ہوئے وہ حدیث ذہن میں آتی ہے ” جب تم حیا چھوڑ دو تو جو چاہے کرو”
اور ویسے بھی محبت کے لئے صرف ایک دن ؟؟
یہ اہل عشق تہی کیسہ ہو گئے کب سے
کہ سال بھر میں فقط ایک دن محبت کا