کمرے میں کئی افراد کے ہوتے ہوئے بھی گہرا سکوت تھا۔دروازے کے عین سامنے موجود چارپائی پر دو مرد بیٹھے تھے جن کی مماثلت بتاتی تھی کہ وہ یقیناً بھائی ہیں جبکہ دونوں کی نظریں سامنے موجود خاتون پہ تھیں۔پختہ عمر کی خاتون جس نے سوتی ساڑھی زیب تن کی ہوئی تھی۔ایک ہاتھ سے ساڑھی کا پلو تھامے دوسرے ہاتھ میں کوئی خط پکڑے بیٹھی تھی۔اس کی نظریں بھی انہی دونوں پر مرکوز تھیں جب کہ اردگرد موجود سب لوگ بس بت بنے کھڑے تھے کہ کب وہ تین نفوس کچھ حرکت کریں اور کب وہ بھی اپنی رائے کا اظہار کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاج بچپن سے ہی اپنے دادا کے بہت قریب تھا۔ان کے ساتھ سونا،انہی کے ساتھ کھیلنا،کچھ بڑا ہوا تو وہ اسے اپنے بچپن جوانی اور ہجرت کے قصے سناتے رہتے۔کبھی ہنستے اور کبھی پرانی یادوں کو یاد کر کے آنکھیں نم ہو جاتیں۔بس ایک بات پہ ہمیشہ ہی وہ اٹک جاتے تھے پھر اسے کہتے کہ ”جاؤ اب جا کر کھیلو اور خود سبز رنگ کی ڈائری کھولے جانے کیا لکھتے رہتے اور روتے رہتے“
دادا نے کبھی اپنی ڈائری کو ہاتھ ہی نہیں لگانے دیا کہ بلاج کبھی اس ڈائری کے راز کو جان پاتا تبھی تجسس اندر ہی اندر پلتا رہا اور اب تو وہ جوانی کی دہلیز پر تھا۔
دادا بیمار رہنے لگے تھے تبھی بلاج سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہتا۔باقی پوتے پوتیوں کی نسبت وہی ان سے زیادہ انسیت رکھتا تھا اسی لیے اپنی وفات سے پہلے وہ سبز رنگ کی ڈائری اس کے سپرد کر گئے تھے۔وہ ڈائری جو رازوں کا سمندر تھی اور اسے لگتا تھا یہ راز انہی کے ساتھ دفن ہو جائیں گے مگر وہ یہ راز بلاج کے ہاتھوں سپرد کر گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”میرا نام بلونت کور ہے اور میں عبدلعلیم کی بیوی ہوں“
ساڑھی میں ملبوس عورت نے دوسری بار اپنی بات دہرائی تھی۔ساڑھی کا پلو سر پہ ایسے ٹکا ہوا تھا کہ اس کی مانگ کے سفید بال واضح تھے البتہ مہندی لگانے سے کچھ سرخی مائل ہو چکے تھے۔
اس کی بات سن کر ایک مرد نے آنکھیں میچ کر دوسرے کی جانب دیکھا تھا جیسے کہتا ہو
”کیا تمہیں اس بات پہ یقین ہے؟“
جبکہ پہلے شخص نے نفی میں سر ہلایا تھا۔اردگرد موجود افراد نے اس عورت کی بات سن کر دبی دبی سرگوشیوں میں کچھ کہنے کی کوشش کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاج کے پاس دادا کی ڈائری کیا آئی تھی وہ تو دنیا کی رنگینیوں سے ناتہ ہی توڑ بیٹھا تھا۔دن رات اسے ہی پڑھنے میں مشغول رہتا۔یہ ڈائری نہیں تھی یہ تو پاکستان کے وجود سے محبت کا ایک جھوٹا سا ثبوت تھی۔
29 دسمبر 1930
دس سال کی عمر میں پہلی بار”نظریہ پاکستان “اور دو قومی نظریے کے متعلق سنا تو حیران رہ گیا۔علامہ اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔
22 مارچ 1940
آج کے دن کا ہمیں بے صبری سے انتظار تھا،دہلی سے کئی قافلے لاہور کے جلسے میں شرکت کرنے گئے تھے۔میں اور ابا مل کر ریڈیو پہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے کے خطابات سنتے رہے۔جب سے ایک علیحدہ مملکت کا تصور پیش کیا گیا تھا،تمام مسلمان جوش و جذبے سے سرشار تھے۔اس قرار داد کے بعد ”بٹ کر رہے گا ہندوستان“ ”بن کر رہے گا پاکستان“ یہ نعرہ گلی کوچوں میں سنائی دینے لگا تھا۔ہم رات کافی دیر بیٹھ کر آنے والے حالات پر گفتگو کرتے رہے۔اگلے دن کے اخبارات میں چھپنے والی تصاویر اور جلسے کے نکات کا ہمیں بے چینی سے انتظار تھا۔
2 اپریل 1941
عبدالعزیز کی آمد کے بعد ہمارے گھر میں رونق بڑھ گئی تھی۔پروین بھی اب کافی مصروف ہو گئی تھی لیکن اس کا اپنے سکھ اور ہندؤں پڑوسیوں کی جانب آنا جانا لگا رہتا۔بقول اس کے غیر مذہب کے ہیں مگر ہر مشکل میں ساتھ نبھایا ہے ان پڑوسیوں نے۔میں ہی اسے بہت گھلنے ملنے سے منع کرتا تھا۔
14 جون 1945
دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد یہاں کے حالات کافی خراب ہو گئے تھے۔کئی مسلمان نوجوانوں نے اس میں حصہ لیا اور شہید ہوئے۔میرے گھر اسی سال دوسرے بیٹے عبدالاحد کی آمد ہوئی تھی۔جنگ کے اختتام کے بعد ہندوستان دنیا کی چوتھی بڑی صنعتی طاقت بن کر سامنے آیا اور اس کے بڑھتے ہوئے سیاسی ،معاشی اور فوجی اثر و رسوخ نے ہی برطانیہ سے اپنی آزادی کی راہ ہموار کی۔
7 اگست 1947
اگست کے دن حبس سے بھرپور تھے مگر فضا میں کچھ انہونی ہونے کی بازگشت تھی۔گلیوں میں گشت کرتے برطانوی فوجیوں کے قدموں کی چاپ کبھی گھر کے کمروں تک سنائی دیتی۔سب جانتے تھے کہ ابھی کچھ ہی دنوں میں ہم علیحدہ ریاست کے مالک بنے والے تھے۔ہندوں کو تو صرف برطانوی راج سے آزادی ملتی جبکہ مسلمانوں کو بیک وقت ہندوستانی اور سکھوں کی غلامی سے بھی نجات حاصل ہو جاتی مگر یہ ہندو کبھی ہمیں اپنے ملک جانے کے لیے زندہ نہ رہنے دیتے۔
نجانے کتنے لوگ تھے جو ان گھروں میں آخری سانسیں گن رہے تھے۔
13 اگست 1947
ریڈیو پہ پاکستان اور ہندوستان کے آزاد مملکت بنے کا اعلان ہوا تھا کہ دہلی،حیدر آباد،اعلی آباد ،لکھنو،آگرہ ہندوستان کے چپے چپے سے مسلمان اپنے سامان کی گھٹریاں اُٹھائے ہجرت کے لیے رخت سفر باندھ چکے تھے۔اس وقت ایک جانب ہندو ہاتھوں میں خنجر لیے خون کی ہولی کھیلنے نکلے تھے تو ایک جانب سکھوں نے کرپان تان کر قافلوں کے قافلوں کو لوٹ لیا تھا۔پھر بھلا ان کے شر سے بچتا کون؟کسی گھر کو آگ لگائی تو کسی کے ننھے بچوں کے سر ماؤں کے سامنے تن سے جدا کر دئیے۔مائیں ابھی بچوں کا ماتم کر رہی ہوتیں کہ ان کی عزتیں پامال کر دی جاتیں۔مردوں کی لاشوں کو کرپانوں پہ اٹھائے وہ ایک سے دوسرے قافلے پہ حملہ کرتے۔ایسے میں ہم دو دن گھر میں ہی مقیم رہے۔
دو دن بعد رات کے وقت میں نے سکھوں کا بھیس بدلہ تو پروین کو بھی سکھ عورتوں کی طرح کپڑے پہنا کر عبدالعزیز اور عبدالاحد کے بھی سکھ بچوں کی طرح سر لپیٹ دئیے تھے جس میں ان کے سر کے بال جوڑے کی طرح بندھے ہوئے تھے۔
ہم ابھی کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ سامنے سے رنویر سنگھ کچھ سکھوں کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔وہ پروین کا پڑوسی رہ چکا تھا اور کسی زمانے میں اس کی خواہش تھی کہ اس کی شادی پروین سے ہوتی اس وقت تو پروین کے والد نے صاف انکار کر دیا مگر آج وہ یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی اس کی آنکھوں کی ہوس دور سے پہچانی جا رہی تھی۔
”چلو آج سکھنی بن ہی گئی ہو تو سکھ کے ساتھ ہی چلو“
اس نے پروین کی جانب بڑھنا چاہا مگر میں نے اسے روکنے کی کوشش کی تبھی وہ میرے پیٹ میں خنجر گھونپ کر پروین کو اپنی کمر پہ اٹھانے لگا۔میرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور میں زمین پہ گر پڑا۔وہ چیخ چلا رہی تھی جب دوسرے سکھ نے اس کے سر پہ کرپان کا وار کر کے اسے خاموش کروا دیا۔اس کے سر سے خون بہنے لگا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔
میری آنکھ کھلی تو میں کسی کیمپ میں موجود تھا۔کچھ قافلے والوں کی نظر مجھ پہ پڑی تو میری کراہیں سن کر مجھے ساتھ لے آئے۔کیمپ میں مرہم پٹی کے بعد میں اٹھنے کے قابل ہوا تو اپنے دونوں بیٹوں کو بھی ڈھونڈا جو دوسرے کیمپس میں میرے منتظر تھے۔
بچوں کو تو میں نے ماں کے مر جانے کا کہہ کر خاموش کروا دیا تھا مگر اس دل کا کیا کرتا تو ہر روز اس زخم پہ رستا ہے۔
نجانے پروین کبھی آئے گی یا نہیں؟
نجانے وہ زندہ ہو گی؟
نجانے وہ مسلمان ہو گی یا سکھ؟
کیا رنویر نے اس سے شادی کی ہو گی؟
سوالات کے دلدل میں میں پھنستا چلا جاتا ہوں اور کوئی سرا کوئی حل سمجھائی نہیں دیتا۔
ہو سکتا ہے نسیم بھائی کا لاہور کا پتہ اب بھی اس کے پاس ہو اور کیا پتہ وہ کبھی یہاں آ سکے۔اسی لیے میں سالوں سے لاہور میں مقیم ہوں ہو سکتا ہے میرا اس سے ملنا اسی دنیا میں ہی ممکن ہو۔۔۔۔
آگے بھی پروین کی یاد میں کئی صفحات تھے۔وہ سبز ڈائری ہاتھ میں تھامے کھڑا اس عورت کو دیکھ رہا تھا جس کے گرد مجمع لگا ہوا تھا۔
”بلونت کور بھلا ہمارے والد کی بیوی کیسے ہو سکتی ہے،ہماری ماں تو ہجرت کے وقت ہی شہید ہو گئی تھی“
عبدالاحد ناسمجھی سے بولا تھا۔
”میرا اصلی نام پروین ہے اور یہ خط میری ساڑھی کے پلو سے بندھا رہ گیا جس میں تمہارے والد کے ہاتھ کی لکھائی میں نسیم بھائی کا پتہ ہے۔کتنے سال میں نے رنویر سنگھ کی قید میں اس کی سکھ بیوی بن کر گزارے ہیں اب اس کے مرنے کے بعد میں آزاد ہوئی ہوں اور اپنی اولاد کو دیکھنے میلوں کا سفر طے کر کے آئی ہوں۔
اس پاک سرزمین کو دیکھنے جس کے لیے میری جیسی کئی عورتوں نے اپنی جانوں اور عزتوں کی قربانی دی ہے۔ہزاروں سہاگ اجڑے اور کتنے گھر لٹ گئے تبھی یہ پاک سرزمین وجود میں آئی ہے۔
پروین نے روتے ہوئے آنسو پونچھے مگر دونوں بھائی اب بھی بے یقین تھے جب بلاج نے سبز ڈائری ان کے ہاتھ میں تھمائی تھی۔آج تو اس ڈائری کے راز کا پردہ فاش ہو گیا تھا۔
بلاج کو اب احساس ہوا تھا کہ اس ملک کے لیے قربانیاں دینے والے بزرگوں کا قرض یہ نسل کبھی نہ چکا پائے گی۔