480

سرور کائنات کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھرکیوں رُکی ؟/تحریر/ اعجاز خاں میو

 حضرت براء بن عازب؄  سے منقول ہے کہ میں نے اہل مدینہ کو کسی چیز سے اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا رسول اللہﷺ کی تشریف آوری سے خوش ہوتے دیکھا ۔ حضرت انس بن مالک؄ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے تو حبشیوں نے بھی آپ کی تشریف آوری پرخوشی میں نیزہ بازی کے کرتب دکھائے ۔ آپﷺکی اونٹنی بڑے شان و شوکت سے گزرہی تھی اور ہر کوئی یہی چاہتا تھا کہ وہ اونٹنی کی مہار پکڑے لیکن آنحضرتﷺ یہی فرماتے تھے کہ 

’’ اس کو چھوڑ دو یہ منجانب اللہ مامور ہے ۔‘‘ 

 بالآ خر اونٹنی محلہ بنی النجار  (جو آپ کے ننھالی قرابت دارہیں ) میں خود بخود اس مقام پر بیٹھ گئی جہاں اس وقت مسجد نبوی کا دروازہ ہے ۔ مگر حضورﷺا ونٹنی سے نہ اترے کچھ دیربعد اونٹنی اٹھی اور حضرت ابو ایوب انصاری؄  کے دروازے پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد اٹھ کر پہلی جگہ آکر بیٹھ گئی اور گردن زمین پر ڈال دی ۔ اس وقت حضورﷺاونٹنی سے اترے اور حضرت ابو ایوب انصاری؄  آپ    ﷺ  کاسامان اٹھا کر اپنے گھر لے گئے ۔ 

 حضورﷺکا طبعی میلان بھی اسی طرف تھا کہ آپﷺ بنی النجار ہی میں اتریں جو آپﷺ کے دادا عبدالمطلب کے ماموں ہیں اور اپنے نزول سے ان کو عزت اور شرف بخشیں لیکن حق جل شانہ نے آپﷺ کی اس خواہش کو ایک معجزانہ طریقے سے پورا فرمایا کہ اونٹنی کی لگام آپﷺ کے ہاتھ سے چھڑا دی گئی کہ آپﷺاپنے ارادہ اور اختیار سے کسی جانب لگام کو حرکت نہ دے سکیں اور نہ اپنی طرف سے کسی مکان کو نزول کے لئے مخصوص فرمائیں ۔ تاکہ کسی کا دل بھی نہ دکھے اور آپﷺکا کوئی ذاتی ارادہ نہیں بلکہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ 

 اونٹنی اللہ کی جانب سے مامور تھی ۔جہاں اللہ کی طرف سے حکم ہوگا وہیں ٹھہرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺکی خواہش کو بھی پورا کردیا اورصحابہ کے لئے ایک معجزہ بھی ظاہر کردیا ۔ جس کی وجہ سے وہ آپس میں تفرقہ ہونے سے بھی پاک رہے۔ یہاں تک کہ سب نے خوب سمجھ لیا کہ حضرت ابو ایوب انصاری ؄  کے گھر کی تخصیص آپ کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ہے۔                                                                                                                                                                                                     

 حضرت ابو ایوب انصاری؄  نے آپﷺسے اصرار کیاکہ آپ ﷺبالا خانہ میں رونق افروز ہوں اور ہم نیچے کے مکان میں رہیں ۔ آپ نے اس خیال سے کہ ہر وقت آپﷺکی خدمت میں لوگوں کی آمدورفت رہے گی ۔ اب اگر حضرت ابو  ایوب؄  نیچے کے مکان میں رہیں تو ان کے اہل خانہ کو اس آمدورفت سے تکلیف ہوگی۔اس لئے بالا خانہ کے قیام کو منظور نہیں فرمایا ۔ نیچے ہی قیام کو پسند فرمایا۔ 

جسے چاہا اپنا بنالیا ، جسے چاہا در پہ بلا لیا

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے

 اس کے پس منظر میں جھانکیں تو ایک واقعہ سامنے آتا ہے ۔ایک دفعہ شاہ یمن ’ تبع ‘ جوایک صالح مرد تھا کا گزر مدینہ منورہ کی زمین پر سے ہوا تو چار سو علماء تورات بھی اس کے ساتھ تھے ۔ سب علماء نے بادشاہ سے استدعا کی کہ ہمیں اس سر زمین پررہ جانے کی اجازت دی جائے ۔بادشاہ نے اس کا سبب دریافت کیا تو علماء نے کہا کہ ہم انبیا ء علیہ السلام کے صحیفوں میں لکھا ہوا پا تے ہیں کہ اخیر زمانہ میں ایک نبی پیدا ہونگے ۔ محمدﷺان کا نام ہوگا اور یہ سرزمین انکا دارلہجرت ہوگی ۔ بادشاہ نے ان سب کو وہاں قیام کی اجازت ہی نہ دی بلکہ انکے لئے علیحدہ علیحدہ مکان تیار کروائے اور ان کے نکاح کروائے اور ہر ایک کو مال عظیم دیا ۔ ان میں سے ایک مکان خاص حضورﷺکے لئے تیار کروایا کہ جب نبی آخرالزماںﷺیہاں ہجرت فرماکر آئیں تو اس مکان میں قیام فرمائیں ۔ اس کے علاوہ اس نے حضورﷺکے نام ایک خط لکھا جس میں اپنے اسلام واشتیاق دیدار کو ظاہر کیا ۔خط کا مضمون یہ تھا ۔ ترجمہ:

 ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفیٰﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔اگر میری عمر ان کی عمر تک پہنچی تو میں ضرور ان کا معین اور مدد گار ہوں گا اور ان کے دشمنوں سے جہاد کروں گا اور ان کے دل سے ہر غم کو دور کروں گا ۔‘‘ 

 تبع نے اس خط پر ایک مہر بھی لگائی اور ایک عالم کے سپرد کیا کہ تم اس نبی آخرالزماں کا زمانہ پائو تو میرا عریضہ پیش کردینا  ورنہ اپنی اولاد کو یہ خط سپرد کرکے یہی وصیت کر دینا جومیں تم کو کررہا ہوں ۔ حضرت ابو ایوب انصاری اسی عالم کی اولاد میں سے ہیں اور یہ مکان بھی وہی مکان تھا جسکو  تبع شاہ ِ یمن نے خاص اسی غرض سے تعمیر کرایا تھا کہ جب حضورﷺہجرت کرکے آئیں تو اسی مکان میں اتریں۔ باقی انصا ر ان چارسو علماء کی اولاد میں سے ہیں ۔ چنانچہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی مکان کے دروازے پر جا کر ٹھہری جو تبع نے پہلے ہی سے حضورﷺکے لئے تیار کروا رکھا تھا ۔ 

 شیخ زین الدین مراغی فرماتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مدینہ منورہ میں حضورﷺحضرت ابو ایوب انصاری؄ کے گھر نہیں اترے تھے بلکہ اپنے مکان پر اترے تھے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری؄ کا قیام تو اس مکان میں محض آپﷺ کی تشریف آوری کے انتظار میں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حضور ﷺکی تشریف آوری کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری؄ نے وہ عریضہ جس میں وہ اشعار لکھے ہوئے تھے تبع کی طرف سے آپ   ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ 

 کتنے محترم ہیں وہ لوگ جن کی آرزو ئیں پایہٗ تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں ۔کتنے سعادت مند ہیں وہ لوگ جن کی تمنائیں بر آتی ہیں اور برگ و بار لاتی ہیں اور کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جن کی خواہشیں اور دعائیں مقبول ِ بارگاہ ہوجاتی ہیں ۔ تبع الحمیری اور اس کے چار سو علماء کتنے عظیم اور کتنے سعادت مند تھے کہ ایک ہزار سال نبی آخر الزمانﷺکے انتظار میں گزار دئیے ۔دس صدیوں پر محیط فاصلے نہ ان کی آرزوئوں میں کمی کرسکے اور نہ ان کے ارادوں کو متزلزل کرسکے۔ انتظار کے لمحات کتنے کٹھن اور جا ں گسل ہوتے ہیں ۔یہ ان سے پوچھئے جو محبوب کے انتظار میں ہوتے ہیں ۔ انتظار میں تو لمحات مہینے اور مہینے سال بن جاتے ہیں اور سال صدیاں لگتی ہیں ۔لیکن ان  لوگوں کی عظمت ،ہمت اور جرات پر سلام جنہوں نے انتظار محبوب میں صدیاں گزاردیں ۔ آخر کار ان کی اولاد سعید نے وہ بلند مقام حاصل کرلیا جس کے لئے دنیا ترستی ہے اور ابد الآبا تک ترستی رہے گی ۔    ماہنامہ منہاج القرآن میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا کہ یہ یثرب کے کوچہ وبازار کا منظر ہے۔عجیب دلکش سماںہے ہزاروںافراد پر مشتمل ایک قافلہ درد منداں رواں دواں ہے۔ہر شخص نہایت احترام اور عقیدت کے ساتھ سر جھکائے چل رہا ہے۔ لوگ یثرب کے در و دیوار سے دیوانہ  وار لپٹ رہے ہیں اور ان کے ساتھ لگتے ہی بے اختیار انہیں چومنے لگتے ہیں ۔کچھ افراد کی آنکھیں اشکبار ہیں اور بعض کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب رواں دواں ہے۔ ان سب کے آگے ایک شخص دیوانہ وار چل رہا ہے ۔ وہ کبھی یثرب کی گلیوں اور کبھی مکانوں کی دیواروں کو بے اختیار چومنے لگتا ہے اور کبھی انہیں حسرت سے تکنے لگتا ہے ۔

  یہ شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ،شاہانہ لباس میں ملبوس ہے اور اپنے طور و اطوار سے اس قافلہ عشّاق کا قائد نظر آتا ہے لیکن آج وہ شاہانہ جاہ وجلال ،طمطراق اور شان و شوکت کی بجائے عجز وانکسارکا پیکر اور والہانہ جذبات کا مظہر دکھائی دیتا ہے ۔وہ عجب وارفتگی اور شیفتگی کے عالم میں کچھ کہہ رہا ہے ۔اس کی آواز اور لہجے میں نہایت درد مندی اور سوز و گداز موجود ہے ۔وہ نہایت احترام اور بے پناہ عقیدت کے ساتھ گویا ہے ۔اس کے ہر لفظ سے سوز وگداز اور آرزو مندی کی بے پایاں خوشبو آرہی ہے ۔وہ کہہ رہا ہے ۔

 ’’ یثر ب کی گلیو ! گواہ رہنا کہ تُبع الحمیری تمہارے آقا کا سچا غلام ہے ۔یثرب کے بازارو اوراس کے مکانات کی پاکیزہ دیوارو ! شاہد رہنا اور یاد رکھنا کہ میں تمہارے مولا کا نہایت ادنیٰ عقیدت مند اور نام لیوا ہوں۔ اے مقدس اور محترم دروازو ! محتشم اور مکرم دیوارو! میں تمہیں بوسہ دیتا ہوں ۔تمہاری گلیوں کی خاک کو چوم رہا ہوں بلکہ اس خاک پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔

 اے ارضِ یثرب !یہ آسمان صرف اس لئے سر بلند و سرفراز ہے کہ اس نے تیرے شہر کی چھت کو بوسہ دیا ہے ۔ یہ خاک اس لئے ارجمند ہے کہ یہ میرے آقا و مولا کی بارگاہ بننے والی ہے ۔ہاں یہ وہ مقام ہے جہاں آفتاب سعادت طلوع ہونے والا ہے اور جس کی آمد سے دنیا بھر کی ظلمتیں چھٹ جائیں گی ۔ ہر طرف نور ہی نور ہوگا اور ساری کائنات ارضی سعادتوں اور برکتوں سے معمور ہوجائے گی ۔اے ارض ِ اقدس ! یہاں بدر منیر طلوع ہوگا جس کی چاندنی سے ساری فضا پر نور ہوجائے گی اور دلوں کے اندھیرے کافو ر ہوجائیں گے ۔ ‘‘

 یہ شخص اسی وارفتگی اور دل بستگی کے ساتھ یثرب کی گلیوں اور بازاروں میں گشت کرتا ہے اور تعظیم بجا لاتا ہے ۔یوں چل رہاہے گویا کسی مقدس شے کا طواف کررہا ہے۔ وہ عربی کے دل آویز اشعار پڑھتا جاتا ہے ۔معلوم ہوتا ہے وہ کسی اَن دیکھے اور نامعلوم محبوب کی تعریف میں رطب اللسان ہے وہ کہتا ہے ۔

شھدت علیٰ احمد انہٗ

وجاھدت با لسیف اعداء ہٗ

رسول من اللہ باریٗ النسمِ

وفرّجت عن صدرہ کل غمّ

فلو مد عمری الیٰ عمرہ

لکنت وزیراً لہ‘ وابن عمّ

 ۱۔میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفے ٰ احمد مجتبیٰﷺاللہ کے رسو ل برحق ہیں۔

 ۲۔اگر میری عمر ان تک پہنچی تو میں ضرور ان کا معین و مدد گار ہوگا۔ 

       ۳۔اور میں ان کے دشمنوں سے جہاد کروں گا اور ان کے دل سے ہر غم کو دور کردوں گا ۔ 

     تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ یثرب کے کوچہ و بازار میں وارفتگی کے عالم میں یہ شعر پڑھنے والا اور شاہانہ لباس میں ملبوس شخص’ تبع الحمیری ‘ ہے۔ جس کا اصل نام حمیر بن وردع ہے اور تاریخ میں وہ مَلک تبع کے نام سے مشہور ہے ۔وہ یمن کا شہنشاہ ہے اور کئی بادشاہوں سے برتر و افضل ہے ۔ چار دانگ عالم میں اس کی   دھاک بیٹھی ہوئی ہے لیکن آج وہ یثرب کے کوچہ وبازار میں اپنے نادیدہ محبوب کی یاد میں دل فگار ہے۔ وہ پریشان حال پھر رہاہے اور اس کی فوج کے تمام سپاہی ،درباری،وزراء اور امراء بھی عجزو انکسار کی تصویر بنے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔

 تبع الحمیری کے جو بڑے جلا ل وجبروت اور شان وشوکت کا حامل بادشاہ تھا کے بارے محمد اسحٰق اپنی کتاب ’’ مغازی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ تبع ان پانچ بادشاہوں میں سے ایک تھا جنہوں نے کائنات ارضی پر قبضہ جما رکھا تھا ۔ اس دور میں بھی اس کے پاس بہت بڑا لشکر تھا جس میں ایک لاکھ33 ہزار سوار اور ایک لاکھ13 ہزار پیدل سپاہی شامل تھے۔ اس کے دربار میں دانش مند وزراء اور ارکان سلطنت ہر وقت موجود رہتے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی ۔ یہ شہنشاہ ایک بار اپنے لشکر قاہرہ کے ہمراہ گردو نواح کے علاقوں کو فتح کرنے کے لئے یمن سے نکلا اور فتوحات کے جھنڈے گاڑتا ہوا جب مکہ کے پاس پہنچا تو اہل مکہ نہ اسکے لشکر سے مرعوب ہوئے اور نہ کسی فرد نے شان وشوکت سے اس کا استقبال کیا ۔ اس صورت حال سے وہ بہت غضبناک ہوا۔ 

 وزراء میں سے کسی نے اسے بتایا کہ’’ یہ اہل عرب اپنی جہالت پر نازاں ہیں اور چونکہ اس شہر میں کعبۃ اللہ ہے ۔ جسے’’ اَنْ طَھْرا بَیتی ‘‘  کہا گیا ہے۔ اس لئے وہ اسکے پاسبان ہونے کے ناطے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔‘‘ 

 بادشاہ نے غصے میں آکر اس شہر کو تباہ وبرباد کرنے اور اس کے باشندوں کو قتل عام کا حکم دے دیا ۔لیکن اس حکم کے جاری ہوتے ہی اسے ایک پُر اسرار بیماری نے آگھیرا ۔ اس کی ناک ،کان اور منہ سے خون بہنا شرو ع ہوگیا ۔وہ سر کے درد سے بے حال ہوگیا ۔ کئی طبیبوں نے علاج کیا لیکن کوئی علاج بھی کارگر ثابت نہ ہوا ۔ حتیٰ کہ وہ اس بیماری کے باعث موت کے منہ میں جانے لگا ۔ 

  بادشاہ کی بے بسی اور بے چارگی دیکھ کر ایک صاحب بصیرت شخص سامنے آیا اور اس نے کہا !

 ’’ میں بادشاہ کا علاج کرسکتا ہوں ۔ بشرطیکہ میں جو بھی سوال کروں اس کا مجھے صحیح صحیح جواب دیا جائے۔ ‘‘ بادشاہ نے اس مرد دانا کی شرط مان لی اور الگ کمرے میں چلا گیا۔ یہ مرد دانا بادشاہ سے سوال کرتا رہا اور باد شاہ جواب دیتا رہا ۔ جب بادشاہ نے کعبۃ اللہ کو مسمار کرنے اور اہل مکہ کا قتل عام کرنے کے ارادے کا ذکر کیا تو اس دانائے راز نے کہا کہ :

    ’’ بادشاہ سلامت ! یہی تمہاری اصل بیماری ہے جس نے تمہیں کئی دنوں سے مبتلائے عذاب کر رکھا ہے ۔ اس خیالِ خام کو دل سے نکال دوکیونکہ اس گھر کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جس نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔‘‘ 

 بادشاہ نے دانا ئے راز کے کہنے پر اپنے مذموم ارادے کو ترک کیا اور سچے دل سے توبہ کی ۔ کہتے ہیں کہ وہ مرد حق پرست بادشاہ کے کمرے سے ابھی باہر نہ نکلا تھاکہ بادشاہ کی اس پراسراربیما ری جاتی رہی اور وہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگیا ۔ اس کے بعد بادشاہ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اہل مکہ کو بہت بڑی ضیافت دی ۔ جس میں سبھی چھوٹے بڑے اور ادنیٰ و اعلیٰ شریک ہوئے ۔ضیافت میں پینے کے پانی کی بجائے شہد پیش کیا گیا۔ 

 اس کے بعد بادشاہ نے نایاب قسم کے ریشم سے کعبۃ اللہ کا غلاف تیار کروایا۔مگر خواب میں اشارہ ہوا کہ یہ مناسب نہیں ۔پھر خوشبو دار کپڑے سے غلاف تیار کروایا ۔ مگر خواب میں وہی اشارہ ہوا ۔تیسرے روز برد یمانی اور حریر ملا کر سات پردوں والا غلاف تیار کروایا۔ اس کے بعد بادشاہ نے تمام بتوں کو نکلوادیا اور خوب تزین وآرائش کی۔ دروازہ مقفل کرکے چابی مجاور کے حوالے کردی اور پھر اپنی مہم پر چل پڑا ۔ کئی علاقے فتح کرکے یثرب آپہنچا۔ اہل یثرب مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے شہر کے دروازے مقفل  کرکے قلعہ بند ہوگئے۔ کئی ماہ گزرگئے ۔لیکن بادشاہ اپنے لشکر قاہرہ کے باوجود شہر کو فتح اور اہل مدینہ کو مطیع نہ کرسکا ۔ 

 آخر کار اہل شہر کے حالات کی جستجو میں لگ گیا تاکہ کہیں کوئی کمزوری نظر آئے اور اس سے فائدہ اٹھاکر وہ شہر پر حملہ کرسکے ۔ ہفتوں اور مہینوں کے محاصرے کے باوجود کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آئی ۔ اسے شب خون مارنے کا بھی موقع نہ ملا ۔ ایک روز علی الصبح اس نے اپنے لشکر کے خیموں کے باہر کھجور وں کی گھٹھلیاں پڑی دیکھیں تو وہ بہت حیرا ن ہوا ۔کیونکہ اس کے اپنے زادہِ راہ میں کھجوروں کا نام و نشان بھی موجود نہ تھا ۔ اس نے اہل لشکر سے پوچھا تو سپاہیوں نے بتایا کہ رات کے آخری حصے میں یثرب شہر کی فصیل کے اوپر سے کھجوروں سے بھری ہوئی بوریاں پھینک دی جاتی ہیں جنہیں ہم کھالیتے ہیں ۔ بادشاہ تبع الحمیری یہ سن کر حیران و پریشان رہ گیا اور کہنے لگا کہ

 ’’ ہم تو مہینوں سے اس شہر کا محاصرہ کئے ہوئے ہیں ۔ باہر سے تمام رسد بند کرکے نہ صرف انہیں بھوکے مارنے کی کوشش میں بلکہ اس کے مکینوں کو لوٹنا ، قتل کرنا اور تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن یہ عجیب لوگ ہیں جو حالت جنگ میںاپنے دشمنوں کے ساتھ دوستوں والا سلوک کررہے ہیں۔‘‘

 بادشاہ گہری سوچ میں پڑ گیا ۔مسئلہ حل نہیں ہورہا تھا ۔ آخر کا ر اس نے وجہ دریافت کرنے کے لئے اپنی فوج کے اکابر کو یثرب کے اکابرین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کا حکم دیا ۔ جب یہ بات یثرب کے مستند علماء اور احبار تک پہنچی تو انہوں نے کہا۔ 

 ’’ ہم دور دراز کے علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں ۔ہم میں کسی کا تعلق خیبر سے ہے اور کسی کا کسی دوسرے علاقے سے، کوئی شام سے آیا ہے اور کوئی مصر سے اور ہم یہودی ہیں ۔ہم نے تورات اور زبور جیسی الہامی کتابوں میں یہ پڑھا ہے کہ یہاں نبی آخرالزماںﷺآنے والے ہیں اور ہم یہاں رہ کر ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔ہماری کتب اور صحائف سماوی کے مطابق پیغمبر آخر الزمان حلیم وکریم اور شفیق ہونے کے ساتھ ساتھ مہمان نواز بھی ہونگے ۔ اس لئے ہم بھی اپنے آپ کو ان جیسی صفاتِ کریمہ سے متصف کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔‘‘ 

 تبع الحمیری اہل یثرب کی ان باتوںاور حسنِ سلوک سے بہت متاثر ہوا ۔ اس کے سینے میںسوز وگداز سے معمور دل پگھل گیا اور وہ بے ختیار رونے لگا ۔ وہ اس بات سے اثر پذیر ہوا کہ وہ پیغمبر ابھی مبعوث بھی نہیں ہوئے لیکن ان کے اوصافِ کریمہ پر لوگوں نے عمل بھی شروع کردیا ہے ۔ وہ روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ کاش وہ اس نبی کریمﷺ کے دور مسعود میں ہوتا ۔ان پر ایمان لاتا اور سرخرو ہوتا اور جب وہ اپنی قوم کے مظالم سے تنگ آکر یہاں تشریف لاتے تو ان کا خدمت گزار ہوتا ۔ 

 نبی اکرمﷺ کے بارے میں دل آویز باتیں سن کر اس کا شوقِ دیدار بڑھ گیا۔ اس نے اہل یثرب سے اجازت مانگی کہ وہ اس شہر محبوب کی گلیوں ،بازاروں اور مکانوں کی زیارت کرسکے۔ اجازت ملنے پر وہ شہر میں داخل ہوا۔ پورا لشکر اس کے ساتھ تھا ۔آج وہ فاتح نہیں ،مفتوح تھا ۔بادشاہ نہیں دل گیر تھا۔ وہ دل گرفتہ جلوس کے ساتھ یثرب کے بازاروں اور گلیوں میں گھومتا رہا ۔ اسکے شوق فراواں اور ذوق بے پایاں کا یہ عالم تھا کہ درد سے لبریز اور سوز سے معمور اشعار پڑھنے لگا۔ حتیٰ کہ مورخین بتاتے ہیںکہ لشکر یوں نے یامحمدؐ    یامحمدؐکے نعرے لگائے اور حضورﷺکو یاد کرکے بے حد روئے اور آنسو بہائے۔ 

 تبع الحمیری نے اس کے بعد یثرب کے سارے شہر کو صاف کرایا۔ عالی شان اور خوبصورت عما رتیں تعمیر کرائیں ۔اس کی خواہش تھی کہ وہ یہیں کا ہو رہے اور یہودی علماء کے ساتھ وہ بھی نبی آخرالزّماں کا انتظار کرے لیکن امور سلطنت نے یہ خواہش پوری نہ ہونے دی ۔بعض روایات کے مطابق وہ کافی مدت یہاں مقیم رہا۔ لیکن اس کی عدم  موجودگی میں یمن میں بغاوت ہوگئی تو اسے بادلِ نخواستہ واپس کوچ کرنا پڑنا۔اس نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے چارسو علماء کو خوبصورت مکانات بنواکر دئیے اور انہیں زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کیں ۔ان علماء میں سے شامول نامی عالم تھا۔جسے مکان کے ساتھ ساتھ اس کی گزر بسر کے لئے باغات لگوا کر دئیے ۔ اس کے بعد اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک خط بھی دیا جس پر اپنی مہر لگا کر بادشاہ نے اسے صندوقچے میں رکھا اور چابی شامول کے حوالے کرکے سخت تاکید کی اگر اسے نبی آخر الزّمانﷺ کا زمانہ اور دیدار پر انوار نصیب ہو تو یہ خط بصد احترام انہیںپیش کردینا اور تمہیں یہ سعادت نصیب نہ ہوسکے تو اپنی اولاد کو تاکید کردینا ۔حتیٰ کہ وہ نسل در نسل وصیت کا سلسلہ جاری رکھے تاآنکہ وہ روز سعید آجائے جب وہ پیغمبر ورہبر کامل دنیا و جہاں میں تشریف لے آئیں ۔  

 یہ خط نسل در نسل حضرت ابو ایوب انصاری؄ کے پاس پہنچا ۔حضرت ابو ایوب انصاری؄ شامول کی اکیسویں پشت میں سے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سرکار دو عالمﷺ کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری؄ کے گھر کے قریب بیٹھ گئی ۔ حضور اکرمﷺ حضرت ابو ایوب انصاری؄ ‘ کے گھر ٹھہرے ۔وہ انصار جنہوں نے آنحضرتﷺ کی حمایت و مدد کی ،تبع کے آباد کردہ چار سو علماء کی اولاد میں سے تھے ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انصار کوئی معمولی لوگ نہ تھے ۔

 ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضورﷺجب مدینہ تشریف لارہے تھے تو حضرت ابوایوب انصاری؄ نے ایک معتبر شخص کے ذریعے وہ مکتوب گرامی حضورﷺکی خدمت میں روانہ کردیا تاکہ وہ جلد از جلد مکتوب الیہ تک پہنچ سکے اور وہ اس بار ا مانت سے سبکدوش ہوسکیں جو صدیوں سے ان کے خاندان میں چلا آرہا تھا۔ ہجرت کے دوران نبی اکرمﷺ ابھی قبیلہ بنی سلیم میں تھے کہ قاصد پہنچ گیا۔ آنحضرتﷺ نے اس شخص کو دیکھتے ہی فرمایا ! 

 ’’ تو ابو یعلی ہے ؟ اور کیا تبع کا خط تیرے ہی پاس ہے ‘‘

     یہ الفاظ سن کر وہ شخص حیران و ششدر رہ گیا  ۔کیونکہ وہ حضورﷺکو پہچانتا بھی نہیں تھا اور نہ ہی حضورﷺنے پہلے کبھی اس سے ملے تھے۔ اس نے حیران ہو کر دریافت کیا : 

 ’’ آپ کون ہیں اور مجھے آپ کے چہرے سے جادو کے آثار بھی نظر نہیں آتے ۔‘‘ 

 حضورﷺنے فرمایا !

 ’’ میں محمدؐ بن عبداللہ ہوں ۔ اور صاحب کتاب ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے۔‘‘ 

 ابو یعلی نے خط جیب سے نکالا اورحضورﷺکی خدمت عالیہ میں پیش کردیا۔ حضورﷺجب اس خط کے مضمون سے مطلع ہوئے توآپﷺنے زبانِ مبارک سے تین مرتبہ فرمایا !

مرحبا یا اخی الصالح

یعنی اے صالح بھائی مرحبا   

 یہ کوئی معمولی اعزاز نہ تھا ۔جہاں تک شامول کا تعلق ہے اس کی نسل سے حضرت ابوایوب انصاری؄ کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا ۔جو کسی اور کو بسیار کوشش اور خواہش کے باوجود نہ مل سکا۔ 

 یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا    

 اس کے ساتھ ساتھ اہل مدینہ کو ’’ انصار ‘‘ کا لقب ملا یعنی مدد کرنے والے ۔ اگر تبع الحمیری کے اشعار کی جانب توجہ کی جائے تو اس نے ایک ہزار سال قبل کہا تھا : 

 ’’اگر میری عمر ان تک پہنچی تو میں ادنیٰ غلام کی طرح ان کی خدمت کروں گا اور کا معین و مدد گار بنوں گا۔ ان کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کروں  گااور ان کی دل محزون سے ہر غم کو دور کرو ں گا۔ ‘‘  

 تبع الحمیری کی یہ دعا قبول ہوئی ۔ اس کے آباد کئے ہوئے چار سو علماء وحکماء کی اولاد آگے چل کر نبی آخرالزماں کی معین مدد گا ر بنی اور انہوں نے رسول اکر مﷺکے تمام دکھ درد دور کرنے میں اپنی تمام تر قوتیں اور توانائیاں صرف کردیں ،جان ومال سے دریغ نہ کیا اور امداد طلب کرنے کے وقت کہا کہ: 

 ’’ یا رسول اللہﷺ! ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔آپ فرمائیں گے تو آگ میں بھی کود جائیں گے ۔ آپﷺ حکم دیں گے تو سمندر میں چھلانگ لگادیں گے ۔ ہم موسیٰ  ؑ کی قوم نہیں جو یہ کہیں کہ جائیں آپ اور آپ کا خدا جنگ لڑیں اور ہم یہاں انتظار کرتے ہیں۔ ‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں