139

سرکاری ملازمین کا معاشی استحصال اور حکومت کی ہٹ دھرمی عبدالروف ملک (کمالیہ

کوئی بھی ریاست عوام اور بالخصوص ملازمین کیلیے ایک شیلٹر کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنی عوام اور ملازمین کی نہ صرف سرپرستی کرتی ہے بلکہ انکے مفاد اور بہبود کیلیے ہر ممکن اقدامات کرتی ہے۔ حکومتیں عوام کو سہولت دینے اور قوم کی فلاح و بہبود کیلیے مفادات اور ذاتیات سے بالاتر ہوکر سوچتی ہیں۔ حال ہی میں موجودہ نگران حکومت نے IMF کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے ہیں جو پنجاب بھر کے ملازمین کا نہ صرف معاشی قتل ہے بلکہ انکی ریٹائرمنٹ کے بعد بڑھاپے کا سہارا تک چھین لینے کے مترادف ہے۔ حکومت کی ان ملازمین کش پالیسیوں سے صرف اساتذہ کرام ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ پنجاب حکومت کے تمام محکموں کے ملازمین اس معاشی استحصال کا شکار ہوئے ہیں جن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن، ریونیو، سول ڈیفنس، ایگریکلچر، محکمہ انہار، پاپولیشن، بیت المال، ہائی وے ڈیپارٹمنٹ، بلڈنگ، عشر زکوة، اکائونٹ آفس، پولیس، انکم ٹیکس، سوشل سیکیورٹی اور محکمہ ہیلتھ کے تمام ملازمین شامل ہیں۔ ان تمام ملازمین کے مستقبل اور بقا کیلیے صرف اساتذہ کرام ہی سراپا احتجاج ہیں اور باقی محکموں کے ملازمین کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت مہنگائی اور بےروزگاری کا جو عالم ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گزربسر کررہی ہے اور یہ موجودہ مسئلہ صرف ملازمین کا نہیں ہے بلکہ اس سے پاکستان کی پوری عوام بالخصوص غریب اور سفید پوش طبقہ بھی متاثر ہوگا۔ ملازمین کے ان تحفظات کو عوامی مسائل کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس قوم کا مستقبل انتہائی غیر محفوظ نظر آتا ہے۔ آئیے ان مسائل کے حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں تاکہ پوری قوم کو اس مسئلے کا ادراک ہوسکے۔1-سکولوں کی این۔جی۔اوز کو حوالگی پاکستان کی زیادہ تر عوام اور سفید پوش طبقہ اس وقت مہنگائی اور بےروزگاری کے طوفان میں گھرا ہوا ہے مزدور کیلیے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوگیا ہے ایسے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کیلیے سرکاری سکول بہترین آپشن ہیں جہاں امیر اور غریب دونوں کے بچے ایک ہی بنچ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت ان سرکاری سکولوں کو مختلف غیر ملکی این۔جی۔اوز کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کیلیے پیپر ورک کا باقاعدہ آغاز ہو بھی چکا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو سکول کی ماہانہ فیس ہزاروں میں ہوگی جو غریب مزدور طبقہ چاہ کر بھی ادا نہیں کرسکے گے نتیجتاً تعلیم غریب اور مزدور طبقہ کی دسترس سے نکل جائے گی اور صرف دولتمند افراد ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلواسکیں گے۔ اسکی زندہ مثال ایف۔سی کالج اور کنیڈ کالج ہیں۔ اور ایسے اداروں میں غیراسلامی سلیبس اور مغربی افکار کے ذریعے بچوں کو اسلام سے دور اور لادینیت اور لبرلزم کے قریب کیا جائے گا۔2-سکولوں کی پرائیویٹائزیشن سرکاری سکول غریب عوام کیلیے تعلیم و تربیت کا واحد ذریعہ ہیں بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ اور نام نہاد سیاسی جماعتوں نے IMF سے کچھ اس طرح کے معاہدے کیے ہیں جنکا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ قومی اثاثوں اور اداروں کو بیچ کر ڈالر کمائے جائیں اور پھر لوٹ مار مچاکر بیرون ملک میں اپنی پراپرٹیز اور بینک بیلنس بڑھایا جائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی نشئی کو جب نشہ پورا کرنے کے لیے پیسے نہیں ملتے تو وہ گھر کی چیزیں بیچنا شروع کر دیتا ہے یہی کچھ ہمارے اس ملک اور اسکے اداروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔3-اساتذہ کی غیرمستقلی غریب اور سفید پوش طبقے کیلیے زندگی میں صرف ایک ہی آپشن ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ملازمت حاصل کرلیں اور اپنے گھروالوں کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالیں لیکن پچھلے بارہ سال سے ملک و قوم کی خدمت کرنے والے اساتذہ اور دیگر ملازمین کو غیر مستقل رکھا گیا ہے یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی دیہاڑی دار مزدور۔ ایسی صورتحال میں مستقبل میں ہماری قوم کے نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا انکو جب مستقل بنیادوں پہ بھرتی ہی نہیں کیا جائے گا تو سرکاری ملازمت کی کشش ختم ہوکر رہ جائے گی۔ 4-پنشن رولز میں ترمیم گورنمنٹ کا ہر ملازم اپنی ملازمت کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک اپنی اصل تنخواہ سے کٹوتی کرواتا ہے اور ساٹھ سال کی عمر تک اپنی جوانی اور انرجی ملک وقوم کی خدمت میں صرف کردیتا ہے گورنمنٹ کے ساتھ اسکا یہ معاہدہ تحریری ہوتا ہے وہ اس امید پہ اپنا کام جانفشانی سے کرتا ہے کہ جب وہ ریٹائر ہوگا تو اسکی جمع شدہ رقم ریٹائرمنٹ کے موقع پر اسے یکمشت ملے گی جس سے وہ اپنی بیٹی کی شادی یا اپنے بوسیدہ مکان کی مرمت کروا سکے گا۔ موجودہ حکومت پینشن کے ان قوانین میں ظالمانہ ترمیم کرکے ملازمین کا یہ آئینی حق ختم کرنا چاہتی ہے۔5-لیو انکیشمنٹ رولز میں ترمیم ہر سرکاری ملازم کو حکومت کی طرف سے اپنی پوری سروس میں ایک سال کی چھٹیاں کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کو اصطلاح میں LPR کہاجاتا ہے اگر کوئی سرکاری ملازم یہ چھٹیاں حاصل کرنے کی بجائے ڈیوٹی کرنا چاہتا تو ان 365 دن کا معاوضہ اسکو موجودہ بنیادی تنخواہ کے حساب سے دیا جاتا تھا لیکن اب اس نگران حکومت نے اس قانون پہ شبخون مار کے ملازمین کا معاشی استحصال کیا اور یکم جون 2023 سے لیوانکیشمنٹ کے اس قانون میں ترمیم کی ہے کہ ملازمین کو LPR کا معاوضہ موجودہ بیسک تنخواہ کی بجائے تیس یا پینتیس سال پہلے ملازمین کی پہلی بنیادی تنخواہ کے حساب سے دیا جائے گا۔ یہ ترمیم سراسر ناانصافی اور ظلم پر مبنی ہے جس کو عقل بھی تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان کی تاریخ رقم کرتے ہوئے مؤرخ لکھے گا کہ پاکستانی دنیا کی وہ واحد قوم ہیں جو اپنے محسنوں اور پیغمبرانہ پیشہ تدریس کے وارثوں پر سرِ عام لاٹھیاں برسانے کے جرم میں ملوث ہیں پوری قوم کیلیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جو بندہ بھی اپنے جائز حق کیلیے آواز اٹھاتا ہے تو طاقت اور قوت کا استعمال کرکے اسکو ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیا جاتا ہے اس وقت بھی موجودہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے کہ اساتذہ کرام نے جو اس قوم کے معمار ہیں جو اس معاشرے کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور باشعور طبقہ ہے جب اپنے حقوق کیلیے اپنی آواز بلند کرنے کیلیے پرامن احتجاج کیا تو انکے جائز حقوق کو تسلیم کرنے کی۔بجائے انکی پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی ان پہ غیر انسانی تشدد اور شدید لاٹھی چارج کیا گیا قائدین کو پابندِ سلاسل کرکے ان پہ جھوٹی FIR کاٹی گئیں اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اساتذہ پہ لاٹھی چارج کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ اساتذہ صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ ان لاٹھی چارج کرنے والوں کے مستقبل کیلیے بھی آواز بلند کررہے ہیں۔ اب وقت ہے کہ اپنے بچوں کے مستقبل اور انکی بقا کی خاطر اس قوم کا ہر فرد ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑا ہو اور تمام ملازمین بھرپور طریقے سے اپنا پرامن احتجاج اس وقت تک جاری رکھیں جب تک انکے جائز مطالبات مان نہیں لیے جاتے، قائدین کو رہا اور ان پہ کاٹی گئی FIR کو ختم نہیں کیا جاتا ورنہ ہماری اشرافیہ اور صاحبِ اقتدار کی فرعونیت کے نتائج بھاری فیسوں، مہنگی کتب، غیراسلامی اور مغربی افکار پر مبنی سلیبس اور بچوں کے غیر محفوظ مستقبل کی صورت میں پوری قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں