82

سلسلہ وار/دیارحبیب/قسط نمبر10/تحریر/محمد عثمان کھوکھر

“لڑکپن سے نوجوانی تک”
ابو طالب کی بیوی فاطمہ بنت اسد نے ایک بار نہیں کئی بار دیکھا
محمد کچھ مانگتے نہیں ،
جو مل جائے خاموشی سے کھا لیتے ھیں
جبکہ باقی بچے لڑ جھگڑ کر کھانے پر ٹوٹ پڑتے ھیں
مگر محمد۔۔۔۔
سب سے الگ خاموش ایک طرف بیٹھے رہتے ھیں۔۔
ہائے!!!
پڑھنے والوں کے لیے بات عام ہو
میرے لیئے یہ بات آنسووں کا موجب بنے رہتی ھے۔۔۔۔
بچہ تو بچہ ہوتا ھے
چاہے آنے والے وقت میں اسکا نبی ہونا ہی طے ہو
یارو۔۔۔
اپنے کیا کسی بیگانے سے چند لمحوں کا کھیل مذاق ہو جائے تو بچے مان محبت لاڈ چاو کی وہ ادائیں دکھاتے ھیں کہ دیکھنے والا مر مٹے
آہ!!
کیا شعور ھے
محمد کے ذہن میں وقار متانت اور خوداری کا اس قدر مضبوط نظریہ ھے کہ جس میں سب قلبی جذبات سمٹ کے رہ گئے ۔۔۔۔۔۔
ایسا ممکن ہی نہیں قصی اور ہاشم،
کی نسل ہو عبدالمطلب اور عبداللہ کا بیٹا ہو اور اس میں وقار اور خوداری کی صفت نہ ہو
تاریخ گواہ ھے
آل قصی میں یہ صفتیں موجود تھیں مگر محمد میں خوداری کی صفت نے خودشعوری کی منزل کو جا پایا۔۔۔۔۔
10 سال کی عمر میں یمن کے تجارتی قافلے کے ساتھ چچا زبیر کے معاون بنے
اور کبھی 12 سال کی عمر میں بصری شام کے تجارتی قافلوں میں ابو طالب کی مدد میں رات دن کاٹ رہے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا فرصت ہوئی
تو ،
محسن ابوطالب کے گھر کا نقشہ دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ٹانگ سے معذور چچا ابوطالب کثیر اولاد کا واحد کفیل ھے اور کاروبار بھی کوئی خاص نہیں!
ابو طالب کی کفالت میں رہنے والا یہ 12 سالہ یتیم و یسیر آل ابو طالب کا کفیل بنے
ہاتھ میں چھڑی پکڑے بکریوں کا ریوڑ ہانکتے قراریط کی وادیوں میں بکریاں چرا رہا ھے
سب سے الگ سب سے جدا!!!!
عمر کے اس حصے میں قریش کے باقی فرزند صفاء و مروہ کے درمیان باپ دادا کی کمائی کھیل کود میں اڑا رہے ھیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
اور محمد
دن سے شام تک!
صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بکریوں کی دیکھ بال میں مصروف
انکے چرنے کی بےترتیبیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے
صیح جگہ پر اکٹھے رکھتے انھے منتشر ہونے سے بچا رہے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کبھی
غول کی حفاظت میں وحشی درندوں سے بچاو کی حکمت اور طاقت پیدا کرتے ہوئے دن پہ آتی شام کو دیکھتے رہتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مشقت میں کبھی بھوک جاگی تو بھیڑ بکری کا دودھ پی لیا
اور زیادہ بھوک لگی تو جڑی بوٹیوں کو ڈھونڈ کر نگل لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر
اس خود شناس کا سکون اور اطمینان ایسا کہ
رات سونے کے بعد صبح جاگتے تو چہرے پر تازگی
نظر جما دینے والی رونق،
اور آب و تاب ہوتی
آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاف اور نکھری
جیسے متاع کوثر و زمہ زمہ کے پیمانے ہوں!
ان حالات میں۔۔۔
دن اور رات گذر رہے ھیں ایسا نہیں کہ کوئی اور مشاغل نہیں تھے
سب کچھ تھا ،
ناچ گانا جوا پانسہ اور وہ بنوبکر اور تغلب کی لڑائی جو گھوڑ دوڑ سے شروع ہوئی اور چالیس سال تک جاری رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنے اور ہونے کو سب میسر تھا
حسن و عشق کے ایسے ایسے سخن جو اٹھتی جوانیوں کے لیئے باعث کشش اور جنون قیس کے درس تھے
ایسا ماحول،
محمد کو کیا دے سکتا تھا؟
عقیدت میں نہیں
ہوش اور سوچ کو پختہ کیئے کہتا ہوں
محمد ابوطالب کے گھر کے کفیل ہی نہیں مکہ سے روٹھی ہوئی تہذیب ابراہیم اور تمدن قصی کے بھی وارث تھے جو برسوں پہلے اہل حرم سے روٹھ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
15 سالہ محمد اجیاد کے قریب قراریط کی وادیوں میں بکریاں چرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ادھر مکہ سے 94 کلومیڑ اور طائف سے 40 کلومیڑ دور السیل الکبیر نام کا برساتی نالہ جسے پہلے نخلہ کہتے تھے
اس نخلہ کے پاس وادی عکاظ ھے جہاں ذی قعدہ کی پہلی تاریخ کو عرب جمع ہوتے
20 روز گذار کر مجنہ میں آتے
دس روز کا میلہ یہاں چلتا اور پھر ذولحجہ کا چاند دیکھ ذولمجاز میں چلے جاتے
8 روز یہاں قیام کرتے ہوئے
8 ذی الحجہ کو حج کے لیئے عرفات چلے آتے!
590ء کے قریب،
عکاظ کی منڈی میں حیرہ کے حاکم نعمان کا تجارتی قافلہ بنو ہوازن کے سردار عروہ الرجال کی پناہ میں پہنچا
یہ قافلہ اوارہ” نامی کنویں کے پاس ٹھرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں بنوکنانہ کے ایک شخص براض بن قیس’
نے اچانک حملے سے عروہ کو قتل کردیا
اور خود بھاگ کر خیبر میں چھپ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں اسکی ملاقات مشہور شاعر
بشیر بن ابی خازم اسدی سے ہوئی
براض نے سارا معاملہ بشیر کو سنایا اور کہا یہ بات
عکاظ کے میلے میں موجود
عبداللہ بن جدعان
ہشام بن مغیرہ
حرب بن امیہ
نوفل بن معاویہ دیلمی
اور بلعاء بن قیس کو دے دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشیر عکاظ کے میلے پہنچا تو اسنے یہ بات ان تک پہنچائی!
انھوں نے بھاگ کر حرم میں پناہ لے لی
دوسری طرف
بنو ہوازن کو بھی خبر ہو گئی!
انکے پیچھے بھاگتے ہوئے بنو ہوازن کے سردار ابو براہ نے کہا قریش نے ہمیں دھوکے میں رکھا
اب وہ حرم میں پناہ لے چکے ھیں
یہ سنتے بنو عامر سے ادرم بن شعیب بولا
“ہمارا تمہارا مقابلہ انہی دنوں آئندہ سال ہوگا اور ہم کوئی کسر نہ چھوڑیں گے”
کہا جاتا ھے کہ
اس سال عکاظ کی منڈی بھی نہ لگی
قریش ،کنانہ ،بنو اسد اور دوسرے حلیف قبائل سارا سال جنگ کی تیاری میں رہے
دوسری طرف قیس عیلان بنو ہوازن والے بھی خوب تیاری کرتے رہے
اگلے سال دونوں فریق آمنے سامنے آئے
قریش کے سردار
عبداللہ بن جدعان
ہشام بن مغیرہ
حرب بن امیہ
سعید بن عاص
عتبہ بن ربیعہ
عاص بن وائل
معمر بن حبیب اور عکرمہ بن عامر
حرب بن امیہ
(ابو سفیان کا باپ اور امیر معاویہ کا دادا)
کی سربراہی میں نکلے
ادھر بنو ہوازن والے
سردار ابو براء عامر
سبیع بن ربیعہ
ربیعہ بن معاویہ
درید بن صحمہ
ابو معتب ،
ابو عروہ بن مسعود
عوف بن ابی حارثہ
اور عباد بن رعل کمانڈر کی حثیت سے آئے
ابو براء آگے بڑھا صف بندھی کروائی اور جھنڈا تھاما!
مقابلہ شروع ہوا
شروع دن میں بنو ہوازن اور انکے حلفاء
کے نصیب میں شکست نظر آئی اور پچھلے پہر شکست قریش اور کنانہ کے حصے میں رہی
جنگ چلتی رہی!
نوجوان محمد قریش کی طرف سے آل ہاشم کے علم بردار زبیر بن عبدالطلب کی صف میں تھے
زور و شور سے لڑائی جاری تھی کہ
قریش کے سردار عتبہ بن ربیعہ نے صلح کا نعرہ لگایا
ابوبراء رکا ۔۔۔۔۔۔۔۔
حرب بن امیہ اور ابو براء میں طے ہوا
مقتولوں کی گنتی کی جائے
زائد والے مقتولوں کی دیت ادا کریں!
گنتی ہوئی تو دیت قریش کے حصے میں آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیت ادا ہوئی
جنگ ختم ہوئی فریقین گھروں کو لوٹے!
15 سالہ نوجوان محمد اپنے چچاوں کے ساتھ موجود تھے
گو لڑنے کے قابل تھے مگر اپنے چچاوں کو تیر پکڑاتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ لڑنے کی وجہ یہ جنگ حرمت والے مہینوں میں ہوئی
اور
محمد بن عبداللہ
کی نوجوانی کا مزاج بھی
فجاری معاملات سے کراحت ظاہر کرتا ھے!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں