“رضاعت سے کامل یتیمی تک ‘1’”
حلیمہ سعدیہ متاع انسانیت کو آغوش میں لیئے
آمنہ کو دیکھتے عبدالمطلب کے پیچھے
عبداللہ کے گھروندے سے نکل رہی ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے والے
خدا جانے۔۔۔۔
کیوں؟
آنکھوں کی زباں نہیں سمجھتے
آمنہ کی آنکھیں کہتی ہوں گی
ایسے ہی!!
دن کے ایک ڈھلتے سورج میں عبداللہ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آج عبداللہ کی نشانی محمد!!
بیٹے دور ہوں
تو مائیں دعاوں کو گود لے ،لیتی ھیں!
مکہ سے باہر طائف کے رستے
بنی سعد کی سب عورتیں بچوں کو لیئے خیبات بنو سعد” کی جانب نکل پڑی ھیں
جدہ سے 30 اور مکہ سے 10 میل دور حدیبیہ واقع ھے
جسے آج شمیسی کہتے ھیں
حلیمہ سعدیہ کا قبیلہ بنو سعد طائف کے قریب خیبات کے علاقوں میں مدت سے خانہ بدوش طرز کی زندگی گذار رہا ھے!
قافلے والے نہ آتے وقت حلیمہ کے لیئے رکے تھے اور نہ جاتے وقت اسکے منتظر ھیں۔۔
نکل چکےقافلے کی اڑتی دھول کے پیچھے مریل سفید گدھی پہ سوار،
حلیمہ محمد کو آغوش میں لییے
شہر سے باہر منتظر بیمار اونٹنی کے پاس بیٹھے خاوند ابوکبشہ کے غم میں اور غمزدہ ہوئے جاتی ھے جو آگے ہی آگے نکلتا قافلہ پیچھے رہ جانے والے کی شخصیت اور ہمت کے لیئے چھوڑ رہا ہوتا ھے!
مگر !
قدرت کا اصول الگ ھے
صابر فطرت لوگوں کے لیئے کڑا وقت مٹھی سے گرتی ریت کے برابر ہوتا ھے
شہر سے باہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحرا کی ٹھنڈی گود میں بھوک سے روتا محمد حلیمہ کی خشک چھاتیاں ڈھونڈ رہا ھے
حلیمہ نے ایک نظر دیکھتے
خشک چھاتی کھولی اور سوکھی پستان محمد کے منہ دی!
حیرت کی انتہا ہوگئی
سوکھے اور خشک پستان میں جیسے دودھ کی سوتیں بہہ نکلی ہوں
چھاتیاں دودھ سے بھر گئ
دودھ پیتے محمد سیر ہوگئے اور اب ہمیشہ سے رونے والا بھوکا عبداللہ دودھ پیتے پیتے سو گیا
سامنے بیمار بیٹھی اونٹنی اٹھی
ابوکبشہ نے دیکھا
مریل بیمار اونٹنی کے تھن تن گئے ھیں دودھ خود بخود ٹپکا پڑ رہا ھے
دودھ دویا برتن بھر گئے
حلیمہ کو پلایا خود پیا اور آرام سے سو رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلیمہ کی آغوش میں
چمکتے سورج کو دیکھتے حارث بولے
بخدا بڑا مبارک بچہ پالیا ھے تم نے
حلیمہ بولی میرا بھی خیال یہی ھے
چلو قافلے والوں کے پیچھے چلتے ھیں
دائیوں کا قافلہ طائف سے نکل رہا ھے اور حلیمہ کی سفید گدھی مستانہ وار آگے ہی آگے نکل رہی ھے
چھوڑ جانے والے آگے نکل جانے والے اب حلیمہ کو ساتھ چلنے کا درس دے رہے ھیں
مگر گدھی کو تو جیسے اب طائف سے یمن کو جاتی راہ پہ شقصان کے مقام سے
دائیں طرف خیبات کے مرکزی مقام الصحن کے سامنے پہاڑی پہ واقع شحطہ کا گاوں جو حلیمہ کا گاوں ھے وہی آ کے بس رکنا ھے۔۔۔۔
اور وہی گدھی رکی!
حلیمہ محمد کو لیئے گھر میں داخل ہوئیں
مکہ کی پتھریلی زمین پہ رہنے والے پتھر دل کے مکینوں کے مکانوں سے مختلف حلیمہ کا خیمہ
پہاڑی کے دامن میں خوبصورت باغ
حلیمہ کے مکان کے نیچے ایک کنواں
دور اور حد دور نظر تک پہاڑوں کے سلسلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارشیں ہو گئی تو یہی کہسار سبزہ اور ہریالی کی تفسریں اور نہ ہوئیں تو خاردار جھاڑیوں کی ویرانیوں کے قصے
کسی اور کے لیئے ویرانیاں ہوں تو ہوں لیکن حلیمہ کے لیئے تو اب ہر چڑھتا سورج برکت اور فضل والا ھے
ہر شے نکھر رہی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ برس کی شیما باغ کے پاس بہتے کنویں کی گیلی ٹھنڈی زمین پہ بیٹھی محمد کو لوریاں دے رہی ھے
گھر سے چرنے والے جانور لوٹ کر آتے ھیں تو چرواہا انکے نکلے ہوئے پیٹ دیکھ ،تھکن بھول جاتا ھے
اور دوسری طرف چھوڑ جانے والیاں دائیاں جانتے ہوئے بھی کہ قحط ھے اپنے چرواہوں کو روز کہتی ھیں تم بھی وہی جایا کرو جہاں حلیمہ کا چرواہا جاتا ھے
وہ روز کہتے ھیں ہم بھی اسکے پیچھے پیچھے ہوتے ھیں مگر جو اسے ملتا ھے وہ ہمارے لیئے نہیں ہوتا
رات دن میں اور دن رات میں یوں ملے دو برس کا پتہ نہ چلا
محمد۔۔۔۔
گاوں کی تازہ ہوا میں
شیما کے پیار اور حلیمہ کے دودھ سے 4 برس کے بچے برابر لگ رہے ھیں
رضاعت کا عرصہ ختم ہوا دل نہیں مان رہا مگر محمد کے لیئے حلیمہ مکہ کی طرف چل پڑی ھیں
بی بی آمنہ کی دو سالہ منتظر آنکھیں چمک اٹھیں ھیں
محبت اور بوسوں کا سلسلہ جاری ھے کہ
حلیمہ بولی !!!
مکہ کی فضاء بدل چکی ھے نئی قسم کے مرض میں لوگ مبتلا ھیں مجھے ڈر ھے محمد کے لیئے یہ ہوا اور ماحول مناسب نہیں میری مانیں تو محمد کو میرے ساتھ رہنے دیں
حلیمہ نے تو جیسے ۔۔۔۔۔
بی بی آمنہ کا ہاتھ ڈال کے کلیجہ پکڑ لیا ہو
محبت اور بوسے میں شدت آگئی روتے ہوئے گلے سے لگا لیا
عبدالمطلب کب چاہتے ھیں جدائی ہو
مگر یہ انجانی مرض نو مولود کے لیئے آفت ھے
آمنہ محمد کو جانے دو حلیمہ ہر چھے ماہ بعد محمد کو ملانے آتی رہے گی
حلیمہ سعدیہ متاع انسانیت کو آغوش میں لیئے
آمنہ کو دیکھتے
عبدالمطلب کے پیچھے
عبداللہ کے گھروندے سے نکل رہی ھیں۔۔۔۔۔
شحطہ کے گاوں کا باغ ھے بہتا کنواں آگے چھوٹے قدم ڈالتے لڑکھڑاتے محمد بھاگ رہے ھیں
اور پیچھے توتلی زبان میں لوریاں گاتی شیما پکڑ رہی۔۔۔۔۔۔۔
حلیمہ اور حارث مسکرا رہے ھیں
جانے آج کھیلتے ہوئے کیا ہوا ھے کہ ناراض محمد نے شیما کے کندھے پر کاٹ دیا ھے۔۔۔۔۔۔
دیکھ لینا۔۔۔
یہ کاٹنا بھی شیما کے لیئے باعث راحت ہوگا!!!!!
دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں سال پر سال لے آئیں ھیں قدم اب لڑکھڑاتے نہیں
چال میں روانی ھے
کبھی عبداللہ کے ساتھ بکریوں کے پیچھے بھاگ رہے ھیں اور کبھی شیما کے پیار میں ہنس رہے ھیں
کھلی فضاء اور صحت مند ماحول سے چہرہ جسم توانا اور مضبوط ہو چکا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صبح ۔۔۔۔
حلیمہ گھر کے کام میں مصروف ھیں کہ ہانپتا کانپتا بھاگتا ہوا عبداللہ آیا
اماں اماں دو ،دو بندوں نے میرے قریشی بھائی کو قتل کر دیا ۔ ۔۔۔۔۔
حلیمہ سے پہلے حارث بھاگے دیکھا تو سامنے محمد خاموش حیران کھڑے ھیں
گلے لگاتے ہوئے حلیمہ نے پوچھا میرے بیٹے بتاو تو کیا ہوا؟
محمد بولے
“سفید کپڑوں میں ملبوس دو آدمی آئے ،مجھے لٹا کر میرا پیٹ چاک کیا اور اس میں سے کوئی چیز نکال کر پھینک دی اور پیٹ پھر ویسا ہی کر دیا جیسا وہ تھا”
شق صدر ۔۔۔۔
میری ذاتی رائے شق صدر کے بارے میں مختلف ھے
میں سمجھتا ہوں کہ
وہ دل جس کے لوتھڑے سے سیاہ نقطوں والا گوشت ہی نکال دیا گیا ہو جس میں شر کے جذبات مچلنے تھے تو پھر روحانی کمالات کی حثیت ثانوی رہ جاتی ھے
آپ کی حیات مقدسہ کا ہر لمحہ اور ہر پل مصائب اور حوادث میں رہا ھے جس کا سامنا کرتے وقت آپ دوسرے انبیاء کی طرح خدائی معجزوں پر نہیں رہے
البتہ اللہ تعالی کی نصرت اور حکمت عملی سے ان مصائب اور حوادث کا رخ موڑا!!
میں انکاری نہیں شق صدر سے لیکن میری تحقیق سے میرے مزاج کا جھکاو اس طرف زیادہ ھے کہ
ان روایات کے تمام راوی متفق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں کوئی عظمت کا پہلو بھی نہیں میں اس سے زیادہ اس بات کا قائل ہوں کہ اماں عائشہ کے پوچھنے پہ آپ نے بتایا
ہر ایک کے ساتھ شیطان ھے میرے ساتھ بھی مگر میرے والا میرا مطیع ہو چکا ھے”
اس بات میں آپکے روحانی کمالات کی معراج ھے اور میں اسی کا قائل ہوں!
شق صدر والا واقعہ اور ایسا ہی ایک اور واقعہ شحطہ کے گاوں سے گذرتے نصاری کے ایک گروہ نے محمد کو دیکھ لیا
اور رک گئے۔۔۔۔۔۔۔
سوال جواب کرنے کے بعد حلیمہ سے کہا یہ بچہ ہمارے ساتھ جانے دو تم ان سے واقف نہیں ہو!
ان دو واقعات کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلیمہ سعدیہ اور انکے خاوند ڈر گئے
اور سوچنے لگے محمد کو اب مکہ انکے قبیلے سپرد کر دینا چاہیئے۔۔۔۔۔
سفید گدھی پہ سوار حلیمہ محمد کو ساتھ لیئے مکہ کی جانب نکل پڑی ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہ شہر سے باہر صفاء اور مروہ سے متصل گھاٹیوں۔۔۔۔۔
میں محمد کہیں گم ہو گئے ادھر ادھر ہر جگہ تلاش کیا مگر محمد نہ ملے۔۔۔۔۔
بھاگم بھاگ عبدالمطلب تک پہنچی کہاں محمد کو ساتھ لے کر آئی تھی مکہ کے اوپر کے محلہ پہنچی تو محمد گم ہوگئے۔۔۔۔
عبدالمطلب۔۔۔
کعبہ کا غلاف تھامے دعائیں کرنے لگے!
سامنے سے آتے ورقہ بن نوفل نے کہا عبدالمطلب محمد مجھے مل گئے ھیں
یہ لو اپنا فرزند!
عبدالمطلب۔۔۔۔۔۔۔ محمد کو اٹھائے کندھے پر بٹھائے کعبہ کا طواف کرتے دعائیں دینے لگے
حلیمہ سعدیہ متاع انسانیت کا ہاتھ تھامے۔۔۔۔۔
منتظر آمنہ کی طرف بڑھتے۔۔۔۔۔۔ عبدالمطلب کے پیچھے
عبداللہ کے گھروندے میں داخل ہو رہی ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)