63

سلسلہ وار/دیارحبیب/قسط نمبر9/تحریر/محمد عثمان کھوکھر

“زبیر سے ابو طالب کی سر پرستی تک”
عبدالمطلب
تاکیدا” محمد سے کہا کرتے تم مجھ سے کبھی جدا نہ ہونا۔۔۔۔۔۔
576ء
حج کے ایام تھے اور عبدالمطلب محمد کو ساتھ لیئے طواف کر رہے تھے
کہ تیسرے چکر پہ سانس پھولی ۔۔۔۔
محمد کا ہاتھ تھامے بستر مرگ پہ جا لیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر اور ابوطالب کو بلایا
محمد کو پیار دیتے ہوئے کہا
سنو!
میرے بیٹے کا بڑا خیال رکھنا۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔
تاکیدا” کہنے والا کہ تم مجھ سے کبھی جدا نہ ہونا
آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2 سال بعد ہی رخصت ہو کر جدا ہو گیا!!!!!!
سب کے ساتھ جنازے کے پیچھے پیچھے چلتے 8 سالہ محمد بن عبداللہ
عبدالمطلب کے لیئے روتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی آسمانی مصلحت ہی تھی تبھی تو انس ہو جانے والی ہر مادی شے سے محمد کو الگ کر دیا جاتا
ممتا کی وہ آغوش جس میں بچہ ماں کو دیکھتے دیکھتے اسکے خال و خد نظروں میں اتار لیتا ھے
وہ وقت۔۔۔
خیبات بنو سعد کی ایک خانہ بدوش عورت کو دے دئیے گئے،
وہ وقت۔۔۔۔
جب بچہ مان اور محبت دکھانے کے لیئے سو معصوم شرارتیں اور دل لگیاں کرتا ھے
عین اس وقت آسمان والے نے محمد بن عبداللہ سے آمنہ بی بی کو الگ کر کے عبدالمطلب کے سپرد کر دیا۔۔۔۔۔۔۔
سنجیدہ، بوڑھا اور بینائیوں سے محروم ہوتا دادا عبدالمطلب
ہر طرح کا پیار نچھاور کر ہی رہا تھا کہ خدا نے اس شفقت والی محبت سے بھی محروم کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا جانے کس محبت کی تکمیل کے لیئے ان دنیاوی محبتوں کو چھینا جا رہا تھا
کن امتحانوں کے واسطے ان جدائیوں کو بڑھایا جا رہا تھا
قدرت کا اصول ھے
جو موتی ریت کی تہ میں پائے جاتے ھیں ،درشہوار بنتے ھیں
اور مٹی پتھر میں رلنے والے ہیرے ہی کوہ نور کہلاتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالمطلب کے بعد
زیادہ طرح مورخ اور سیرت نگار ابوطالب کی کفالت کا ذکر کرتے ھیں
لیکن دوسری صدی کے مورخین ابوطالب سے پہلے زبیر بن عبدالمطلب کا ذکر کرتے ھیں
دیکھا جائے تو عرب تمدن میں باپ کے بعد بڑا بیٹا ہی قبیلے اور قول و فعل کے لیے نامزد ہوتا تھا
اور عبدالمطلب کے بعد زبیر ہی بڑا بیٹا تھا
قبیلے کے ساتھ زبیر ہی محمد کا کفیل بنا اور کتنی دیر کفیل رہا اسکی کوئی وضاحت نہیں
البتہ زبیر کا تاجر ہونا اور اس سلسلہ میں یمن و شام کے کئی سفر کرنا اور ابوطالب سے زیادہ مالدار ہونا ثابت ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل زبیر کے لیے نبی محترم کی محبتوں کے الفاظ کچھ یوں ملتے ھیں
محمد بن عبداللہ اپنی چچی عاتکہ بنت ابی وہب بن عمرو جو زبیر کی بیوی تھی کو امی کہا کرتے تھے اور زبیر کے بیٹے عبداللہ کو کہا کرتے تھے”تو میری ماں کا بیٹا ھے”
زبیر بن عبدالمطلب کی جب وفات ہوئی تو محمد بن عبداللہ 20 سال کے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ یہ معلوم ھے کہ
زبیر سے زیادہ اور کم و بیش 42 سال ابوطالب نے محمد بن عبداللہ کا مشاہدہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان میں محمد بن عبداللہ سے محمد رسول اللہ ہونے کا کڑا وقت بھی شامل ھے
جس میں جناب ابوطالب کا کردار ناقابل فراموش ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوطالب کا مشاہدہ اور فراست دیکھنے کے لائق ھے
مکہ میں قحط آن پڑا
انسان تو انسان
ہر جاندار پریشان_ حال ہیں
ایسے میں
کچھ لوگ ابوطالب کے پاس آئے اور کہا اے متولی کعبہ اے آل ابراہیم ہمارے لیئے کچھ دعا کجیئے اور خدا سے اسکی رحمت اور فضل مانگیئے!
وہ ہم پہ بارش برسائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوطالب ایک بچہ ساتھ لیئے باہر آئے
بچہ ابر آلود سورج کے جیسا جس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے
ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی بچے نے انکی انگلی پکڑ رکھی تھی
آسمان پہ اس وقت بادلوں کا کوئی نشان نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو طالب نے ہاتھ اٹھائے اور ساتھ ہی ننھے ننھے ہاتھ محمد بن عبداللہ نے اٹھائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے ادھر ادھر سے بادل آئے اور موسلا دھار بارش ہوئی
وادی میں سیلاب آگیا ہر طرف کے بیاباں شاداب ہوگئے ۔۔۔۔
اور بعد میں ابو طالب نے کہا تھا کہ
“وہ خوبصورت ھیں ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا ھے
یتیموں کے ماوی اور بیواوں کے محافظ ھیں”
عمران نام اور کنیت ابو طالب تھی
ابو طالب نے آپ سے بےحد محبت کی اور خیال رکھا۔۔۔۔۔
یہاں تک کے اپنی فراست کی تمام تدبیریں محمد بن عبداللہ کے تحفظ اور حفاظت میں استمال کر ڈالی!
عبداللہ بن عبدالمطلب ابو طالب بن عبدالمطلب کے سگے بھائی تھے
اس واسطے بھی محمد بن عبداللہ کا لگاو اور محبت ابوطالب سے زیادہ تھا
12 یا 14 سال کی عمر میں آپ نے ابو طالب اور حارث کے ساتھ شام کا سفر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوطالب تجارت کی غرض سے شام کے سفر کی تیاری میں تھے ،سفر اور دور کے سفر کو دیکھتے ہوئے ابو طالب نے محمد بن عبداللہ کو مکہ میں ہی رہنے کا کہا
لیکن محمد بن عبداللہ ابو طالب سے لپٹ گئے اور ساتھ لے جانے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ابو طالب کے ساتھ مکہ سے یثرب ،تیماء اور دومتہ الجندل سے ہوتے ہوئے بصری پہنچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہاں ایک پرانا چرچ تھا جس کے آثار آج بھی موجود ھیں اس چرچ کا راہب بحیرا کہلاتا تھا اور اسکا نام برجیس تھا۔۔۔۔۔
قریش کا طریقہ تھا کہ وہ بصری پہنچ کر اس چرچ کے سامنے درخت کے سائے میں پڑاو کرتے اور سامان تجارت خرید و فروخت کے لیئے تیار کرتے
ایسا کئی بار ہو چکا تھا لیکن کبھی راہب انکے پاس نہ آیا تھا اور نہ کبھی ان سے کوئی بات کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اب کے بار جب قافلہ رکا تو راہب نے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پاس چلا آیا محمد بن عبداللہ کو دیکھا دعوت کی پیش کش کی۔۔۔۔۔
دعوت کھانے جب قریش گئے تو محمد بن عبداللہ کو اونٹوں کے پاس چھوڑ گئے
راہب نے محمد بن عبداللہ کا پوچھا تو بتایا گیا ہم اپنی مجلسوں میں بچوں کو نہیں لاتے۔۔۔۔۔۔
برجیس نے کہا نہیں اس بچے کو لاو
محمد بن عبداللہ کو لایا گیا
برجیس نے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا
کتاب میں جو پڑھ رکھا تھا اسے معلوم کرنے کے لیئے محمد بن عبداللہ کو لات اور عزی کے نام کی قسم دے کر کچھ پوچھنا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔
تو محمد بن عبداللہ نے ان معبود باطلہ سے کراحت ظاہر کی ۔۔۔۔
پھر اسنے سینہ کے پیچھے کمر میں کچھ تلاشنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پیشگوئی کی۔۔
“آپ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور یہ کہ آپ دونوں جہانوں کے سردار ھیں اور اللہ آپ کو رحمت العالمین بنا کر بھیجے گا”
زبیر بن عبدالمطلب محمد بن عبداللہ کے چچا بھی شریک تجارت تھے۔۔۔۔۔۔
بی بی آمنہ نے عبداللہ کا ترکہ زبیر بن عبدالطلب کے ساتھ کاروبار میں لگا دیا تھا
محمد بن عبداللہ نے دس سال کی عمر میں چچا زبیر کے ساتھ یمن کا سفر بھی کر رکھا تھا
اور اس سفر میں چچا عباس بن عبدالطلب بھی تھے جو یمن سے عطر لا کر ایام حج میں فروخت کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد بن عبداللہ۔۔۔
کے کفیل چچا تھے یا چچاوں کے لیئے باعث برکت محمد بن عبداللہ تھے اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد بن عبداللہ
کی شخصیت جناب ابو طالب اور آل عبدالمطلب کے لیئے بڑی با برکت ثابت ہوئی
آپ کی چچی
ابو طالب کی بیوی فاطمہ بنت اسد آپکے کردار کی گواہ تھیں
مکہ میں ہی آپ کی دعوت کو قبول کیا مدینہ کے لیئے ہجرت کی اور اپنے گھر میں اپنی نگرانی میں اپنے بچوں سے پہلے آپ کو ہر موقع اور جگہ اہمیت دی۔۔۔۔۔۔۔۔
حلیمہ سعدیہ ہی نہیں فاطمہ بنت اسد نے برکتیں اور اپکی منفرد دل آویز شخصیت اور کردار کا مشاہدہ کیا ۔۔۔۔۔
اور برکتوں کو سمیٹا
دودھ سے کھانا تک سب سے پہلے آپ کو دیا جاتا اور پھر سب کھاتے پیتے وہ ایک پیالہ اور چند روٹیاں سب کے لیئے کافی رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے تو لڑ پڑتے ھیں
فاطمہ بنت اسد کی گوہیاں موجود ھیں
آپ نے کبھی کچھ مانگا نہ
مل گیا تو کھا لیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو بھیڑ بکری کا دودھ پی لیا
زیادہ بھوک لگی تو جڑی بوٹیوں کو ڈھونڈ کر نگل لیا۔۔۔

اطمانانیت کا یہ عالم تھا کہ
رات سونے بعد صبح اٹھتے تو چہرے پر تازگی
نظر جما دینے والی رونق اور آب و تاب ہوتی
آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاف اور نکھری
جیسے متاع کوثر و زمہ زمہ کے پیمانے ہوں!!!!
اللہ ہی جانے
کس کا کون کفیل تھا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں