109

“سمندر” قدرت کی عظیم نعمت ہے اپنے سمندر کی حفاظت کیجیے/”8 جون” سمندروں کا عالمی دن/تحریر/حافظ غلام صابر

سمندر بنی نوعِ انسان کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ یہ کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی اہمیت سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں۔ سمندری آلودگی کے خاتمے، پانی کی اہمیت، آبی حیات اور دیگر سمندری وسائل و ذخائر کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 8 جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس دن کو منانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیونکہ دن صرف وہی منائے جاتے ہیں کہ جن کے ذریعے نوجوانوں کو کوئی پیغام پہنچانا مقصود ہو۔ سمندروں کا عالمی دن منانے کا مقصد انسانی عمل سے سمندروں پر ہونے والے منفی اثرات کے متعلق عوام کو آگاہ کرنا اور سمندروں کے استحکام کے لیے بین الاقوامی کاوشوں کو مستحکم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ سمندرکے راستے تجارت کو محفوظ تر بنانے کےلیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور اس سے سمندر کے قدرتی ماحول کو ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے طریقوں کے متعلق آگاہی پیدا کرتے ہوئے سمندری حدود کی حفاظت بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔ اس دن عوام میں سمندر کے تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لیے دنیا بھر میں کانفرنسیں، سیمینار، تعلیمی پروگرام، ساحلوں کی صفائی، سمندر سے حاصل ہونے والی لذیذ غذاؤں سے متعلق محافل سمیت دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک کی خوشحالی کا سمندری تجارت سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کی معیشت کے لیےسمندر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ سمندروں کی ذریعے کی جانے والی تجارت دیگر ذرائع کے مقابلے میں زیادہ سہل اور منافع بخش ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بحری تجارت پر خصوصی توجہ دینے والے ممالک ترقی کرتے ہوئے دنیا کے کئی خطوں میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے میں کامیاب رہےہیں۔ سمندروں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے مشہور امریکی بحری کمانڈر الفرڈ تھائر ماہان کا کہنا ہے کہ سمندر مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کریں گےاور سمندروں پر حکمرانی کرنے والا ہی عالمی سیاست میں حکمرانی کرے گا۔
انسان اشرف المخلوقات ہے جو ہر وقت اپنے رب کے چھپائے ہوئے رازوں کو جاننے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ سمندری علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر چالیس فیصد تازہ پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ پچھتر فیصد آکسیجن بھی سمندر ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ قرار دیتے ہیں۔
کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ممالک سے پھینکے جانے والے کیمیائی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثات بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔ ہرسال تقریباً 5 بلین پاؤنڈ کچرا سمندروں میں پھینکا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں سمندروں کو درپیش چیلنجز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے جدید طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دینا کے تین حصوں پر مشتمل پانی کا ذخیرہ ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے اوراس کے لیے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
ماہی گیری کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان ہرسال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک کو فروخت کرتا ہے۔ اس سلسلے میں تقریباً پچاس لاکھ افراد ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ مگر اب آبی آلودگی کی وجہ سے اس میں بھی کمی آرہی ہے۔ سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور سمندری لانچوں سے بہنے والا گندا تیل اور فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ ہے۔ بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی شہروں اور صنعتوں سے خارج ہونے والا گندا پانی، شاپنگ بیگ اور پلاسٹک کی بوتلوں پر مشتمل لاکھوں ٹن کچرا ہر سال سمندر کی نذر کیا جاتا ہے۔ سمندروں کے پانی کی آلودگی سے عالمی سطح پر ہر سال 20 ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سمندروں میں ہونے والے حادثات بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
پاکستانی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں ماہی گیری کو منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔ پاکستانی سمندروں میں غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ ہے وہ ہمارے سمندر اور معیشت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
ساحلی ممالک کا اپنے ساحل کے ساتھ بہت ہی محدودبحری رقبے پر اختیار ہوتا ہے۔ اس رقبے کو”علاقائی سمندر” کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے آگے کے پانی کو”کُھلا سمندر” کہا جاتاہے جو ہر ایک کے لیے کُھلا ہوتاہے اور کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔ اقوامِ متحدہ کے قوانین کے مطابق ہر ریاست اپنے ساحل سے12 سمندری میل کے اندر “علاقائی پانی” پر مکمل اختیار رکھتی ہے۔ لیکن وہ اپنی حدود کے 24 سمندری میل کے اندر ہونے والی کسی بھی قسم کی کسٹم، مالی، امیگریشن اور حفظان صحت کے قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دے سکتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو گرم پانی کے سمندر، اہم ساحلی پٹی اور وسیع “خصوصی اقتصادی زون” سے نوازا ہے۔ جو سمندری حیات اور مادی وسائل سے مالا مال ہے۔ پاکستان میں زیادہ ترسمندری تجارت کراچی کی بندرگاہوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کی ترقی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ پاکستان کے سمندر کو لاحق مختلف خطرات اور چیلنجز سے نمٹتے ہوئے سمندری وسائل کے بھرپور استعمال اور اس کی حفاظت کو فول پروف بنانے کے لیےپاکستان نیوی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔
پاکستان کی اہم ترین بندرگاہ کراچی پورٹ کے بعد پورٹ قاسم بھی کافی عرصے سے پر فعال ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اور جدید بندرگاہ کراچی پورٹ پر سالانہ پچاس ہزار ٹن سے زائد کارگو ہینڈل کیا جاتاہے۔ واضح رہے کہ آج سمندروں کے راستے 80 فیصد عالمی تجارت ہوتی ہےاور ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی تجارت کا70 فیصد سے زائد حصہ بحری تجارت سے وابستہ ہے۔ دنیا میں سمندر کے ساتھ آباد ممالک کی بندرگاہیں جدید خطوط پر استوار کی جارہی ہیں اورجنوبی ایشیا میں چین آٹھ بندرگاہوں کو جدید بنانے کے امور میں ان ممالک سے خصوصی تعاون کر رہا ہے۔
بحری تجارت کےماہرین کے مطابق پاکستان کی بحری معیشت کو مستحکم بنا کر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو کئی گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کے متحرک بحری شعبے کی حکمت عملی میں جامع اصلاحات کرنا ضروری ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں بحری تجارت کو ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل ہے۔ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی فعالیت سے پاکستان کی بحری تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو گا کیونکہ ہماری بحری راہداریوں کو علاقائی ربط کی منفرد اہمیت حاصل ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں