انسانی زندگی میں جو کام انسان سب سے زیادہ کرتا ہے شاید وہ سوچ ہے ۔ ہم ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچ رہے ہوتے ہیں ۔ اس سوچ کے اثرات ہماری زندگی پر مرتب ہوتے ہیں ۔ سوچ کی بہت سی اقسام ہوسکتی ہیں لیکن ہم پہلے صرف دو اقسام کو دیکھتے ہیں ۔ ایک وہ سوچ ہے جس سے لوگ عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب بنے اور دوسری طرف وہ سوچ ہے جس سے لوگ ہٹلر اور فرعون بنے ۔ یہ ایدھی اور ڈاکٹر امجد کے بعد ہٹلر اور فرعون کی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اچھائی میں ایک حد تک جا سکتے ہیں لیکن جب برا سوچنے پہ آتے ہیں تو ہم ہٹلر جیسے ظالم اور فرعون جیسے متکبر بن جاتے ہیں ۔اللہ تعالٰی کا بھی حکم ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ بدگمانی سے بچوں لیکن آج کل کے معاشرے میں بدگمانی والی سوچ غالب آرہی ہے اور شدید معاشرتی بگاڑ جنم لے رہا ہے ۔ تعلقات خراب ہو رہے ہیں ۔ لوگ رسمی طور پر میل ملاقات کرتے ہیں اور ایک منافقت کی راوش چل نکلی ہے ۔ ہمیں اس سوچ پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے ۔ہم اپنی نوجوان نسل کو کہاں لے جا رہے ہیں ؟ ہمیں مثبت سوچ کی کاشتکاری کرنی ہے اور جو جڑی بوٹیاں فصل کے لیے نقصان دہ ہیں ان کو جڑ سے ختم کرنا ہے ۔ آپ نے ایک کسان کو دیکھا ہے کبھی وہ زمین کو کس طرح تیار کرتا ہے ؟ کتنی محنت کرتا ہے ؟ پھر جا کر فصل کاشت کرتا ہے ۔ یہی معاملہ سوچ کا بھی ہے ہمیں مثبت سوچ کی فصل کے لیے سخت محنت کرنی ہے ۔ہم جب تک اپنے دل کو ذکر الہٰی سے منور نہیں کریں گے ۔تب تک مثبت سوچ کی پروان ناممکن سی بات ہے ۔ کسی موٹیویشنل اسپیکر کی باتیں سن کر مثبت سوچ پیدا نہیں ہوتی ۔ یہ ایک مسلسل ریاضت ہے ۔ اس وقت پاکستان میں مثبت سوچ کی ضرورت ایسے ہی ہے جیسے جسم کے لیے پانی ضروری ہوتا ہے ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سوچ کی نرسری کہاں لگائی جائے ؟ سب سے پہلے اپنی ذات میں ، پھر اپنے گھر میں ، پھر تعلیمی اداروں میں اور پھر اس کو ریاست کے طول و عرض میں پھیلا دیا جائے تک یہ چمن مثبت سوچ کے پھولوں سے مہک اٹھے ۔ ہم دنیا جہاں کے فلسفہ پر بحث کر لیں لیکن انسانی کامیابی کےلیے اصول مقرر ہیں اور ان پر عمل کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ۔ ہم کب تک بھاگ لیں ان چیزوں سے ۔ کب تک سائنسی علوم سے مدد لیں گے آخر تھک ہار کے اللہ ہی کے در پر جانا ہے اور اسی سے مدد کی درخواست کرنی ہے ۔ کیوں نہ آج سے ہی اپنی سوچوں کو پاک کرنے کی کوشش کریں ۔ زندگی کے سفر کو اچانک ختم ہوجانا ہے اس لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ ہمارا سٹاپ نہ جانے کب آجائے ۔یہ بادشاہت ،یہ حکمرانی بہت بڑی زمہ داری ہے اس کے متعلق سوچ سوچ کر پریشان نہ ہوں اللہ کی حکمت پر بھروسہ رکھیں اور مثبت سوچیں انشاء اللہ وطن عزیز کی تمام محرومیاں ایک دن ضرور ختم ہوں گی لیکن ہمیں خود کو تیار کرنا ہے کہ اب ہم مثبت رہیں گے ۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں مثبت سوچ عطاء فرمائے آمین ثم آمین

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل