84

سیاست مفادات کی جنگ بن چکی ہے /تحریر/ رفیع صحرائی

۔خیر سے عمران خان کے معتمدِ خاص فرخ حبیب بھی پریس کانفرنس کر کے ”نہاٸے دھوٸے“ گھوڑے بن گٸے ہیں۔ ان سے قبل عمران خان کی ناک کے دو بال عثمان ڈار اور صداقت علی عباسی بھی یہ سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ سنا ہے ”اصلی تے نسلی“ ہونے کے دعویدار شیخ رشید بھی خود کو ”نقلی“ ثابت کرنے والے ہیں۔ فرخ حبیب تو مردوں کے فردوس عاشق اعوان ثابت ہوٸے ہیں۔ جس طرح فردوس آپا ہر نٸی پارٹی کو جواٸن کرنے کے بعد اپنی سابقہ سیاسی پارٹی کے لیڈران کے بخیے ادھیڑتی آٸی ہیں اسی طرح فرخ حبیب نے عمران خان پر ایسی چارج شیٹ عاٸد کر دی ہے کہ ان کے وعدہ معاف گواہ بننے میں کوٸی کثر نہیں رہ گٸی۔ عمران خان یقیناً مردم شناس نہیں ہیں جو ایسے براٸلر ٹاٸپ لوگوں کو ساتھ لے کر نیا پاکستان بنانے کو نکلے تھے جو مخالف ہوا کا ایک تھپیڑا بھی برداشت نہ کرسکے۔ عمران خان پر جاننثار کرنے والے اور انہیں ریڈ لاٸن قرار دینے والے اپنی جانیں بچا کر گرین لاٸن پر جا کھڑے ہوٸے۔ کل انہیں عمران خان نجات دہندہ نظر آتا تھا، آج وہی عمران خان ان کی نظر میں سب سے بڑا قومی مجرم ہے۔ شاید پے در پے بے وفاٸی کے صدمے عمران خان کواس لٸے سہنے پڑ رہے ہیں کہ اس نے خود بھی کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ اپنے ہر محسن کے ساتھ اس نے بے وفاٸی کر کے اسے ٹشو پیپر کی طرح پھینکا ہے۔ یہاں تک کہ 9 مٸی کو اس کی خاطر نکلنے والے ورکرز جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آٸے تو اس نے ان سے بھی لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ سیاست کبھی بہت صاف ستھرا کھیل ہوا کرتا تھا۔ اور یہ کھیل کھیلنے والے کھلاڑی بڑے بردبار، متین، سمجھدار، حوصلہ مند، سنجیدہ اور نظم و ضبط کے قاٸل ہوتے تھے۔ سیاست دان اپنے وقار کا ہمیشہ لحاظ اور پاس رکھا کرتے تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی۔ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا ان کا وطیرہ ہوا کرتا تھا۔ واقعی وہ لوگ سیاست کو عبادت کا درجہ دیا کرتے تھے۔ نوابزادہ نصراللّٰہ خان، عبدالولی خان، محمد خان جونیجو، میاں محمد یاسین وٹو، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد سمیت درجنوں ایسے نام گنواٸے جا سکتے ہیں جو سیاست کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی تبدیلی آ گٸی۔ سیاست تیز رفتار بھی ہو گٸی اور محض شرفا ٕ کا کھیل بھی نہ رہی۔ پیسے نے سیاست کو تباہ کر دیا۔ جس طرح مختلف محکموں میں رشوت دے کر ملازمت حاصل کی جاتی ہے اور پھر رشوت لے لے کر اپنی آمدنی کٸی گنا بڑھاٸی جاتی ہے یہی چلن سیاست میں بھی آ گیا۔ سیاستدانوں نے پارٹی ڈونیشن اور انتخابی اخراجات کی مد میں بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔ جیت کی صورت میں خرچ کیا گیا پیسہ بیس پچیس گنا منافع کے ساتھ حاصل کیا جانے لگا۔ ترقیاتی منصوبوں کے لٸے منظور کرواٸے گٸے فنڈز کا دس فیصد کمیشن ممبر اسمبلی کے لٸے حلال قرار دے دیا گیا۔ گویا دس کروڑ کے منصوبے میں سے ایک کروڑ اپنی جیب میں ڈالو۔ نہ کوٸی پوچھ گچھ نہ کسی انکواٸری کا ڈر۔ بالکل حق حلال کی جاٸز کماٸی آپ کی جیب میں۔ کچھ تیز اور کماٸی ہی کی نیت سے سیاست میں آنے والے حضرات اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لٸے جاری کرواٸے گٸے فنڈز کے ٹھیکے بھی خود ہی لینے لگے۔ اس کام کے لٸے انہوں نے فرنٹ مین رکھ لٸے اور یوں دس کروڑ میں سے کم از کم پانچ کروڑ کھرا کیا جانے لگا۔ وزرا ٕ اپنے محکموں میں لوٹ مار مچانے لگے۔ وزراٸے اعلیٰ اور وزراٸے اعظم نے بہتی گنگا میں سب سے زیادہ ہاتھ دھونے شروع کر دیٸے۔ سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والے خال خال رہ گٸے اور کاروباری نیت سے سیاست کرنے والے چھا گٸے جنہوں نے سیاست کو غلاظت میں بدل کر رکھ دیا۔ پہلے سیاست کو خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ انتقام لینے کا ذریعہ بن گٸی۔ سیاسی اختلافات ذاتی مخالفت میں بدلتے گٸے۔ سیاست کھیل کے سٹیٹس سے نکل کر جنگ کے درجے میں داخل ہو گٸی۔ مقابلے میں الیکشن لڑنے کے ”جرم“ میں سیاست دان قتل بھی ہونے لگے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی انہیں دھکیلا گیا۔ سیاست میں جیت اور جیت کے بعد اقتدار ہی منزل کا حصول ہوتا ہے مگر اس منزل کے حصول کے لٸے جاٸز ذراٸع کا حصول ہی کافی نہ سمجھا گیا۔ ہر طرح کی دھونس، دھاندلی اور ہر ناجاٸز حربہ استعمال کرنا اس کھیل میں جاٸز قرار پایا۔ ہم اقتدار کی جنگ جیتنے کی خاطر اور دوسرے کے مینڈیٹ کو نہ ماننے کی ضد میں اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے لیکن ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کی روایت بڑھتی ہی چلی گٸی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ انتخابات کے موقع پر ہر امیدوار اپنی اچھاٸیاں عوام کو بتایا کرتا تھا۔ اپنی شرافت، وطن دوستی اور عوامی بھلاٸی کے کاموں کے ثبوت اپنے ووٹرز کے سامنے رکھتا تھا۔ مخالف امیدوار سے اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتا تھا کہ جسے چاہے منتخب کریں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اپنی اچھاٸی اکثر امیدوار کیش نہیں کراتے، شاید ان کے پاس بتانے کو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ آج کل اپنے مخالف کی براٸیاں اور کمزوریاں کیش کرواٸی جاتی ہیں۔ جھوٹے الزامات لگاٸے جاتے ہیں اور ان الزامات کو اس تواتر سے دوہرایا جاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگیں۔ میڈیا اور پراپیگنڈے کا دور ہے۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک رساٸی آسان ہو گٸی ہے لہٰذا اس قدر تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سننے والے کو سچ لگنے لگتا ہے۔ جنابِ ظفر اقبال نے کیا خوب صورت شعر لکھا ہے۔جھوٹ بولا ہے تو قاٸم بھی رہو اس پر ظفرآدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہٸے۔ہمارے سیاست دان بھی صاحبِ کردار ہونے کے اس فارمولے پر سوفیصد پوارا اترتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو بدترین ثابت کرنے کے لٸے ہر الزام لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عوام بھی قاٸل ہو جاتے ہیں۔ اب تو ویڈیو اور آڈیوز ریلیز کرنے کا رواج بھی چل نکلا ہے۔ مخالفین کی کردار کشی کی یہ گھناٶنی رسم فروغ پا رہی ہے۔ کھیل صرف مفادات کا ہے۔ بے وقوف عوام کو اپنی جنگ کا ایندھن بنا کر بیدردی سے اس میں جھونکا جا رہا ہے۔ عوام بھی جان بوجھ کر بے وقوف بنے ہوٸے ہیں۔کبھی کسی نے اپنے لیڈروں سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ راہزن اب راہبر کیسے ہو گٸے؟۔ لٹیرے اب بھاٸی کیوں بن گٸے ہیں۔؟ سیاست میں چھوٹے چھوٹے گروپ ”پاسک دی وٹّی“ بن کر بلیک میلنگ اور لوٹ مار میں اپنے جُثّے سے بھی زیادہ حصہ لے کر پارلیمانی سیاست کو داغدار کر رہے ہیں۔پہلے کسی پارٹی کو چھوڑنے والے بڑی سادگی سے کہہ دیا کرتے تھے کہآپ اچھے، رقیب بھی اچھےمیں برا تھا مری گزر نہ ہوٸیمگر اب نیا ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ عمران خان کے ہر فیصلے میں ہر فعل میں اس کا ساتھ دینے والے برے حالات میں انہیں تنہا ہی نہیں چھوڑ رہے بلکہ ان پر الزامات کی بارش بھی کر رہے ہیں۔ واقعی سیاست اب عبادت نہیں رہی، غلاظت بن گٸی ہے۔ یہ پارلیمانی سسٹم فیل ہو کر بدبودار ہو چکا ہے۔ سسٹم کی تبدیلی وقت کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں