82

شادی کو مشکل مت بناٸیے/تحریر/رفیع صحراٸی


ہم بھی کیا لوگ ہیں۔ نمودونماٸش کو فرض سمجھ لیا ہے اور فراٸض کو بالاۓ طاق رکھ دیا ہے۔ بھارت کی آل انڈیا کانگرس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کو جنگ سے نہیں ثقافتی مار سے ماریں گے۔ ان کا کہا سچ ثابت ہو رہا ہے۔ ہمارے گھروں کے اندر ڈراٸنگ رومز، کچن اور بیڈ رومز تک میں بھارتی کلچر نے رساٸی حاصل کر لی ہے۔ ہم کبھی کیبل نیٹ ورک پر انڈین فلموں کا اور ٹی وی ڈراموں کا رونا رویا کرتے تھے مگر سوشل میڈیا نے تو کیبل نیٹ ورک اور ڈش کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف ہمارا ٹین ایج سے لے کر ادھیڑ عمر تک کا مرد بلکہ خواتین بھی ہندوانہ اور ہندوستانی رسوم و رواج سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں بلکہ مختلف تہواروں اور خاص طور پر شادی بیاہ کے مواقع پر پورے اہتمام سے ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نمود و نماٸش اور رسوم میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی شعوری کوشش بھی کی جاتی ہے۔ نتیجتاً جو لوگ افورڈ کرتے ہیں وہ بہت سا سرمایہ برباد کر بیٹھتے ہیں اور جو افورڈ نہیں کرتے وہ دوسروں کی اندھادھند تقلید میں برباد اور مقروض ہو جاتے ہیں۔
شادی ایک فرض ہے۔ اسے فرض سمجھ کر ہی ادا کیا جاۓ تو بہتر ہے۔ اسلام میں شادی کو بہت آسان بنایا گیا ہے مگر ہم نے جب اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی تو شادی کے سادہ اور آسان عمل کو اپنے اور دوسروں کے لٸے مشکل بنا دیا۔ شادی میں دلہن والوں کی طرف سے لڑکی کے نکاح کے بعد باراتیوں کی مشروب اور سادہ کھانے سے تواضع کرنا ہی کافی ہوتا ہے۔ کھانا نہ بھی کھلایا جاۓ تو اس میں حرج والی کوٸی بات نہیں۔ صرف مشروب سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ بارات بھی چند قریبی لوگوں پر مشتمل ہونی چاہٸے۔ دولہا ولیمے کی صورت میں چند عزیزوں اور دوستوں کو کھانا کھلا دے اور بس۔ شادی کا فریضہ ادا ہو گیا۔
لیکن ہوتا اس کے بالکل ہی بر عکس ہے۔ پہلے تو لڑکی ڈھونڈنے کے لٸے پورا صوبہ پھریں گے۔ لڑکے کی نادیدہ اور ناموجود خوبیوں کا تذکرہ کیا جاۓ گا۔ ایک سے بڑھ کر ایک لڑکی کی تلاش میں گھر گھر چکر لگاۓ جاٸیں گے اور لڑکی والوں کے گھر میں دعوتیں اڑاٸی جاٸیں گی۔ لڑکی کو دیکھنے اور ”جانچنے“ کی باری بعد میں آۓ گی۔ سب سے پہلے تو ”ٹیبل معاٸنہ“ کر کے گھر والوں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاۓ گا کہ کس قدر جہیز ملنے کی توقع ہے۔ اگر پہلے مرحلے میں میزبان ”پاس“ ہو گٸے تو اگلے مرحلے میں سلیقہ شعاری کو چیک کرنے کی بجاۓ یہ دیکھا جاۓ گا کہ گھر اور کمروں کی سجاوٹ میں کس قدر قیمتی سامان کا استعمال کیا گیا ہے۔ اگر لڑکی سرکاری ملازم ہے تو پھر اس کو اضافی نمبر بھی مل جاتے ہیں کہ سسرال کے گھر کا معاشی بوجھ بھی مستقبل آسانی سے اٹھا سکے گی۔ پھر لڑکی کو دیکھنے کی باری آۓ گی۔ آنکھوں کی چھریاں تیز کر کے لڑکی کو قصاٸی کی نظر سے دیکھا ، پرکھا اور تولا جاۓ گا۔ اس کے بعد اپنے معیارات کی فہرست کو ذہن میں تازہ کر کے ایک ایک پواٸنٹ چیک کیا جاۓ گا۔ پھر بے شرمی کے ساتھ پوچھ لیا جاۓ گا کہ جہیز میں لڑکی کو کیا کچھ دیا جاۓ گا۔ اپنی ڈیمانڈ کی فہرست سے جہیز کی فہرست کا تقابل کیا جاۓ گا اور آخر میں یہ کہہ کر کہ سوچ کر آپ کو بتا دیں گے، لڑکی والوں کو انتظار اور امید و بیم کی کیفیت میں مبتلا کر کے اگلی لڑکی دیکھنے کی تیاری شروع کر دی جاۓ گی۔ اکثر لوگوں نے وطیرہ بنا لیا ہوتا ہے کہ اچھا اور بہترین کھانا کھانے کے لٸے ”لڑکی کی تلاش“ میں نکل پڑتے ہیں۔
لڑکیوں کے والدین کھانے کھلا کھلا کر اور تواضع کر کر کے کنگال ہو جاتے ہیں ۔انہیں یہ فکر کھاۓ جاتی ہے کہ بیٹیوں کی عمریں بڑھ رہی ہیں اس لٸے وہ تواضع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر لوگوں نے رشتے کی تلاش کو مشغلہ بنایا ہوا ہے۔ اکثر بچیاں ان پیششہ ور رشتہ ڈھونڈنے والوں کی خاطریں کر کر کے مایوس اور احساسٍ کمتری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کتنی ہی بیٹیاں جہیز کی ڈیمانڈ پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے بالوں میں چاندی کی تاریں لٸے والدین کی دہلیز پر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔
اب آ جاتے ہیں شادی کی رسومات کی طرف۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، شادی کے لٸے دو ہی شراٸط ہیں، نکاح اور ولیمہ۔ مگر ہم نے پرتعیش تقریبات اور پیچیدہ رسومات میں شادی کے بندھن کو بری طرح جکڑ دیا ہے۔ منگنی پر سونے اور ہیرے کی انگوٹھی دونوں جانب سے۔ لڑکی کے ہاتھ پر رقم رکھنا. اس کے بعد مہمان حسبٍ توفیق اور دستور دولہا دلہن کو نقدی کی صورت میں سلامی دیتے ہیں۔ پر تعیش کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بیوٹی پارلر سے تیار شدہ دلہن کو مہنگا ترین لباس پہنایا جاتا ہے جو خاص اسی موقعے کے لیا تیار کروایا جاتا ہے۔ مہمان خواتین بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لٸے قیمتی ملبوسات پہنتی اور پارلر سے تیار ہوتی ہیں۔
مہندی کا فنکشن تو آج کل شادی کے فنکشنز میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ چمکیلے اور بھڑکیلے لباس، انڈین گانوں پر ساری رات رقص، ایک عجیب سی جنونی کیفیت کا ماحول بن جاتا ہے۔ اس فنکشن پر دل کھول کر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔
شادی کے روز صورتٍ حال اس سے بھی آگے چلی جاتی ہے۔ بارات کے ساتھ لگژری گاڑیوں کی لمبی قطار در اصل حیثیت سے بڑھ کر حیثیت دکھانے کی رنگ بازی ہوتی ہے۔ سینکڑوں باراتی ساتھ لے جا کر دلہن کے باپ پر ناواجب بوجھ ڈالا جاتا ہے۔حالانکہ اگر اس قدر اکٹھ کرنا ضروری بھی ہے تو ان لوگوں کو ولیمے پر بلا لیا جاۓ۔ دلہن کے والد کا کیا گناہ ہے کہ اس پر سینکڑوں لوگوں کی مہمان نوازی کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔
اپنی ناک بچانے کے لٸے دلہن والوں کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر کم از کم چار پانچ قسم کے کھانوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی اسے خدشہ ہی رہتا ہے کہ مہمانوں کی خاطر میں کمی نہ رہ جاۓ۔ جبکہ اپنی چادر سے زیادہ پاٶں وہ جہیز دیتے وقت ہی پھیلا چکا ہوتا ہے۔
اگلے دن ولیمے میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ مہمان خواتین زرق برق لباس اور خوب تیاری کے ساتھ آتی ہیں۔ خواتین کی جانب سے خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے کہ کسی تقریب میں ایک دفعہ پہنا ہوا لباس دوسری تقریب میں نہ پہنا جاۓ ورنہ سبکی ہو گی۔
ولیمے میں بھی چار پانچ کھانے پیش کٸے جاتے ہیں۔ اس دوران مہمانوں کی طرف سے دلہن اور دلہا والوں کے کھانوں کا تقابلی جاٸزہ بھی لیا جاتا ہے۔
شادی کے بعد جب دلہن اور دلہا کے گھر والے حساب لگانے بیٹھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ناک بچاتے بچاتے کمر کا کڑاکا نکل گیا ہے۔ متمول لوگوں کی شادیوں کی نقالی میں اپنا دیوالیہ نکل گیا ہے اور اب کٸی سال تک بچت کر کے اور اپنی ضروریات کی قربانی دے کر شادی پر لیا گیا قرض لوٹانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی اگلے بیٹے یا بیٹی کی شادی کے بارے میں سوچا جا سکے گا۔ شادی میں شریک ہونے والے رشتہ دار الگ پریشان ہوتے ہیں کہ شادی کی رسومات میں شرکت کر کے ان کا بجٹ بھی اپ سیٹ ہو چکا ہوتا ہے۔
اسلام نے شادی کو کس قدر آسان اور قابلٍ عمل بنا دیا ہے۔ نہ دلہا پر بےجا بوجھ اور نہ دلہن والوں پر لگژری جہیز کی قید۔ اگر ہم اپنی اصل کو پہچان کر چلیں اور غیروں کی تقلید نہ کریں تو زندگی کتنی سہل اور آسودہ ہو جاۓ۔
آٸیے! عہد کریں کہ شادی کو اسلامی طریقے کے مطابق سادہ اور آسان بناٸیں گے تاکہ بے جا اصراف سے بھی بچ جاٸیں اور کوٸی بیٹی والدین کی دہلیز پر بن بیاہی بھی نہ بیٹھی رہ جاۓ۔
اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو۔
سنگٍ مر مر پہ چلو گے تو پھسل جاٶ گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں