86

شاکر عنقاء۔۔ایک شخصیت ایک تعارف اورآئینہ تصانیف میں/تحریر/فخرالزمان سرحدی(ہری پور)

پیارے قارئین!آج کا کالم ایک ایسے مصنف کے حالات زندگانی اور قلمی سفر پر مشتمل ہے جو اپنی شخصیت اور کارہاۓ نمایاں کی بدولت نہ صرف اپنے حلقہ احباب میں بلکہ علاقائی و ملکی سطح پر بھی ایک عظیم تعارف رکھتے ہیں۔موصوف شاکر عنقاء کے ابتدائی حالات زندگی کی جھلک بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔خاص کر زمانہ طالب علمی ۔۔۔لیکن جی چاہتا ہے کہ موصوف کی زندگی کے کچھ اوراق سے بھی استفادہ کرتے ہوۓ کچھ عرض کروں۔یکم جنوری 1967کو سعید احمد خان کے گھر ڈھوڈھاری بالا کوٹ کے مقام پر پیدا ہونے والے بچے کا نام رفیع احمد خان رکھا گیا۔خاندانی پس منظر کے آئینہ میں ایک منفرد جھلک نظر آتی ہے۔والد محترم سعید احمد خان ایک معزز ہستی کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوۓاور تین بیٹیاں ۔۔ایک بیٹی تو بچپن میں ہی داغ مفارقت دے کر سراۓ فانی سے چلی گئی۔موصوف اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں۔موصوف چونکہ شروع سے ہی ادبی رجحان رکھتے تھے اس لیے اس کا تذکرہ آگے چل کر کروں گا۔حاصل معلومات کی روشنی میں موصوف جس گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں شروع سے ہی علم دوست اور کتاب دوست ہے۔رفیع احمد خان نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول بالا کوٹ سے حاصل کی۔1981میں حصہ مڈل کا امتحان امتیازی خصوصیات سے پاس کیا۔1983میں میٹرک کا امتحان پشاور بورڈ سے پاس کیا۔ایف ۔اے گورنمنٹ کالج بالا کوٹ سےپاس کیا۔نیز بی۔اے اور ایم ۔اے اردو پشاور یونیورسٹی سے پاس کیا۔ان عظیم ہستیوں کا تذکرہ اس کالم مں اس لیے ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے بہترین تعلیم و تربیت کے اعجاز ہنر سے موصوف کی زندگی کی عبارت میں بہترین رنگ آمیزی کی اور اچھا معلم اور بہترین قلم کار بنانے میں کردار ادا کیا۔مختلف اساتذہ کرام جن میں غلام حسین،شیر افضل خان،محمد شبیر خان،قاضی سعید الرحمان،محمد نثار خان،محمد آصف خان،محمد اشرف خان جیسی ہستیوں نے ابتدائی جماعتوں میں تعلیم دی اور سیرت و کردار سازی میں بے مثال کردار ادا کیا۔سلسلہ تو بہت طویل ہے لیکن ہر فرد نے بحیثیت معلم سکول،کالج اور یونیورسٹی سطح تک ایک کردار کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔اب تذکرہ اس بات کا کہ قلمی نام شاکر عنقاء کے حوالے سے۔۔جماعت ہشتم سے ہی لکھنے کا ذوق سخن پیدا ہوا۔اسی کلاس میں تھا کہ بچوں کی کہانیاں لکھنا شروع کر دیں جو روزنامہ نواۓ وقت کے بچوں کے صفحات پھول اور کلیاں کی زینت بنتی رہیں۔بتدائی تحریروں میں شاکر تخلص استعمال کرتے تھے بعد میں عنقاء تخلص لکھتے رہے۔بعد میں دونوں یکجا کرتے ہوۓ شاکر عنقاء لکھنے لگے۔بات طویل ہو گئی۔قلمی سفر بہت خوبصورت اور دلچسپ ہے۔محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کی تو بحیثیت معلم قوم کے بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ قلمی سفر بھی جاری رکھا۔مشہورناول دکھ کی داستان رہبر اور دوسرا ناول قاتل کون ہے؟نے موصوف کی شہرت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا ۔ہفت روزہ جائزہ مانسہرہ سے شائع ہونے والے میگزین میں لکھتے رہے ،بالا کوٹ سے شائع ہونے والے ماہنامہ نواۓ شوق میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے۔آپ کی ہمہ گیر ہستی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ معروف تصنیف جو 2022میں ”تذکرہ شہداۓ بالا کوٹ اور بالا کوٹ میں مزارات تاریخ کے آئینے میں“ایک منفرد اسلوب نگارش سے سامنے آئی ہے جس سے مصنف کی شہرت اور قدرومنزلت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ایک اور ناول دل پھینک رنگیلے بھی لکھ کر ادبی دنیا میں ایک اضافہ کر دیا ہے۔تذکرہ مصنفین ہزارہ نامی کتاب میں شاکر عنقاء کی قلمی خدمات کا تذکرہ سنہری الفاظ میں ملتا ہے۔ایک جائزہ کے مطابق یہودی روایات پر مبنی تاریخ اساطیر الاولین ،سواتی قوم کی مختصر تاریخ،شجرہ ہاۓ نسب سواتی سرخیلی بالا کوٹ،قوم کو امام چاہیے،اقوال کی کتاب حرف حرف موتی،چند افسانے اور چند غزلیات قلمی سرمایہ ہیں جن سے معروف ہستی بالا کوٹ محترم شاکر عنقاء کی ادب و سخن کی دنیا میں ایک منفرد مقام ہے۔ادبی انجمنوں سے وابستگی بھی دلچسپ رہی ہے۔حلقہ یاراں غالب بالاکوٹ،ادبی سوسائٹی بالا کوٹ قائم ہوئیں لیکن زیادہ دیر قائم نہ رہ سکیں اب ادبستان بالا کوٹ کے نام سے کام ہو رہا ہے۔سعید الرحمان سعید جیسی ہستیوں کا تعاون حاصل ہے۔خدا کرے یہ چراغ علم و ادب جلتا رہے اور روشنی کا تسلسل جاری رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں