138

شب قدر کی نشانیاں/تحریر/ محمد عزیر گل

اللہ تبارک و تعالٰی نے پوری کائنات میں ہر چیز میں فرق رکھا ہے ، کسی میں بھی برابری نہیں ہے ، یعنی جانور ہیں تو اس کی مختلف اقسام ہیں ، اسی طرح سے انسان ہیں ، تو اس میں میں کچھ امیر اور کچھ غریب ہیں ، کسی کو عزت ، طاقت اور شہرت سے نوازا ہے تو کسی کو غربت ، گمنامی میں ساری زندگی گزار دی ، اسی طرح سے انسانوں کے اعمال کو دیکھ لیں تو اس میں بھی برابری نہیں ہے ، اسی طرح سے پورے کرہ ارض میں کوئی اللہ کی محبوب جگہ ہے تو کوئی مبغوض ترین ، اس کے علاوہ ایام میں بھی جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے ، اسی طرح سے اللہ تبارک وتعالی نے راتوں کو بھی تقسیم کیا ہے اور ان میں سب سے زیادہ پانچ راتوں کو مقام حاصل ہوا ہے ،جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے کہ نو ذی الحجہ یعنی عرفہ کی رات کو خاص مقام حاصل ہے ، اس کے علاوہ عیدین کی راتیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے ، اس کے علاوہ شب برات کو بھی غیر معمولی مقام حاصل ہے ، انہی مقام والی راتوں میں لیلۃ القدر بھی ہے ، جسے بہت بڑا مقام حاصل ہے ۔
لیلۃ القدر کی اہمیت و قدر کا اندازہ صرف اسی بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ خود رب کائنات نےاس کا تذکرہ قرآن مجید میں تقریبا تین مرتبہ فرمایا ہے ،اور آخری پارے میں ایک پوری سورت کو القدرکے نام کے ساتھ منسوب کیا اور اس رات کی عظمت و مرتبہ کے بارے میں فرمایا: بے شک ہم نے اس (قرآن )کو شب قدر میں نازل کیا ہے ۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے ؟۔شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے ۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں۔ وہ رات سراپا سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک ۔(القدر )اس سورت میں اللہ تبارک و تعالی اس رات کو ایک ہزار مہینوں سے بڑھ کر فرما رہے ہیں ، اور اس ایک ہزار مہینے کے بارے میں بعض مفسرین کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ ان مہینوں کی تعداد سے مراد ہزار مہینہ ہی نہیں ، بلکہ یہ لا محدوداجر وثواب کے لیے کہا گیا ہے ، وہ بے حساب کتنا ہوگا ، وہ اللہ کی رحمت و بخشش پر موقوف ہوگا ۔
اس رات کے بارے میں احادیث میں موجود ہے کہ یہ رات محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کو خاص تحفے میں دی گئی تھی ، اس سے پہلے کسی بھی امت کو اس رات کی طرح عظمت والی رات کی فضیلت حاصل نہ تھی ، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان مبارک ہے :اللہ رب العزت نے میری امت کو شب قدر عطا فرمائی اور اسے پہلے کسی(امت) کو یہ عطا نہیں فرمائی ۔(جامع الاحادیث ) اور اس رات کے حصول میں جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنی امت سے محبت اور ان کی فکر مند ی شامل ہے ، جیسا کہ موطا امام مالک رحمہ اللہ کی حدیث مبارکہ ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ان سے پہلے لوگوں کی عمریں دکھائی گئیں،یا ان میں سے جو اللہ نے چاہاتو گویا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کی عمروں کو بہت کم محسوس کیا کہ وہ عمل میں وہاں تک نہیں پہنچ سکے گی، جہاں تک دوسرے لوگ اپنی طویل عمر کی وجہ سے پہنچے، لہذا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شبِ قدر عنایت فرمائی جو ہزار مہینوں سے (عبادت کے اعتبار سے) بہتر ہے۔
جہاں اس رات کی اتنی عظمت ہے تو اس کے حصول کے لیے اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کو جستجو کرنے کاحکم فرمایا کہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی ہوگی ، اور اس سے لاعلم رکھنے کی ایک وجہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم باہر تشریف لائے اور یہ چاہ رہے تھے کہ اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شب قدر کے بارے میں بتائیں، لیکن (مسلمانوں میں سے) دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اس ارادہ سے نکلا تھا کہ تمھیں شبِ قدر کے بارے میں اطلاع دوں تو دو آدمی آپس میں لڑ رہے تھےلہذا مجھ سے اٹھا لی گئی۔ پس تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو(شعب الایمان) یہاں صرف اس بات کی تصدیق ہے کہ مبارک رات رمضان المبارک کا حصہ ہے ، رمضان کے کس عشرے میں کونسی تاریخ ہوگی اس کو امت سے مخفی رکھا گیا ہے ، اس لیےتاریخ کے حوالے سے احادیث مبارکہ میں مختلف اقوال ملتے ہیں ، ایک حدیث مبارکہ میں اس کے حوالے سے کچھ نشانیاں بیان کی گئی ہے ،حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے شبِ قدر کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: وہ رمضان کے آخری عشرہ میں ہے، وہ کسی طاق رات میں ہوتی ہے، اکیسویں رات، یا تیئسویں رات یا پچیسویں رات یا ستائیسویں رات، یا انتیسویں رات یا پھر رمضان کی آخری رات میں ، جس نے ایمان واخلاص کے ساتھ، اس رات قیام کیا اس کے سابقہ گناہوں کی مغفرت کردی جائے گی اور اس کی علامات میں سے یہ ہے کہ یہ رات انتہائی راحت بخش، صاف، پرسکون اور خاموش ہوتی ہے، نہ زیادہ گرم ہوتی ہے نہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہے، اس میں چاند روشن ہوتا ہے۔ اس رات میں صبح تک کسی ستارے کے لیے ٹوٹنے کی اجازت نہیں ہوتی اور اس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ اس کی صبح کو سورج طلوع ہوتا ہے اور اس کی شعائیں نہیں ہوتیں، وہ بالکل برابر ہوتا ہے گویا کہ وہ چودھویں رات کا چاند ہے اور اللہ تعالی نے شیطان پر حرام قرار دیا ہےاس دن وہ اس کے ساتھ نکلے۔(الدر المنثور)
لہذا رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اپنے اعمال میں اضافہ کرنا چاہیے ، اس میں نماز ، اور دعا کا اہتمام کرنا چاہیے ، اور ایسی رات میں کون سی دعا مانگنی چاہیے ، اس حوالے سے امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ بتلایے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ (فلاں رات) شبِ قدرہے تو میں اپنے رب سے کیا مانگوں اور کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (یہ) دعا مانگو! اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی (شعب الایمان) ترجمہ: ” اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور آپ معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں؛ لہذا مجھے معاف کردیجیے۔ بحیثیت ایک مسلمان کے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عظیم نعمت سے فائدہ حاصل کرئے ، کیونکہ نعمت کا ایک اصول ہے کہ اس سے صرف وہی فائدہ حاصل کرسکتا ہے جو اس کی قدر کرے ،لہذا اس بہترین مہینے کی برکات سے فائدہ اٹھا کر خوش نصیب لوگوں میں شامل ہونےکی کوشش کی جائے اور جس نے اس میں سستی اور کوتاہی کی تو اس کے لیے بہت سخت وعید ہے ، اس لیے کوشش کریں کہ رمضان کی آخری راتوں میں اپنے معمولات میں ، نماز ، تلاوت اور دعا شامل کریں ، اور اس کو بازار اور دوسری غفلت کی چیزوں میں ضائع نہ کریں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں