- واقعہ کربلا کو آج سے تقریباً 1379 سال گذر چکے ہیں مگر یہ ایک ایسا المناک اور دل فگار(غمزدہ) سانحہ ہے کہ پورے ملت اسلامیہ کے دل سے محو (زائل) نہ ہو سکا۔ یہ واقعہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے وابستہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسے، حضرت علی کّرم اللہ وجہہ‘ اور بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے لخت جگر تھے۔ اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ واقعہ اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہواہے۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے اس عظیم واقعہ پر بلا شک و شبہہ اور بلا مبالغہ دنیا کے کسی بھی دیگر حادثہ پر نسلِ انسان کے اس قدرآنسو نہ بہے ہونگے، بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک سے جس قدر خون دشتِ کربلا میں بہا تھا اس کے بدلے پوری ملتِ اسلامیہ ایک ایک قطرہ کے عوض اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور لگاتار بہا رہی ہے اور بہاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے واقعہ کربلا کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاویدہ بنا دیا تاکہ انسان اور خصوصاً ایمان والے اس سے عبرت حاصل کرتے رہیں۔*حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت:*حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارکہ 5 شعبان 04 ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کے کان میں آذان دی ، منہ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعا فرمائی پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ’’ سبط رسول ‘‘ و ریحانئہ رسول ہے۔حدیث شریف میں ہے۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر و شبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا۔ (صواعق محرقہ، صفحہ 118) اس لئے حسنین کریمین کو شبیر اور شبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔سریانی زبان میں شبیر و شبر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ اِسْمَانِ مَنْ اَھْلِِ الْجَنَّۃ ترجمہ حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں.(صواعق محرقہ، صفحہ 1186) ابن الا عرابی حضرت مفضل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نام مخفی (پوشیدہ) رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔( اشرف المئوید، صفحہ 70)*آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل:* حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت حدیثیں وارد ہوئی ہیں.ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت یعلیٰ بن مرہّ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حُسَیْنُ مِنِّی وَ اَنَا مِن َالْحُسَیْن حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو حسین رضی اللہ عنہ سے انتہائی قرب ہے۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں. حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر ہے. حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے دوستی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دوستی ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے دشمنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دشمنی ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے لڑائی کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑائی کرنا ہے۔حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں اَحَبَّ اللّٰہُ مَنْ اَحَبَّ حُسَیْنَا جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت کی (مشکوٰۃ صفحہ 571)اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرنا ہے اور حضور صلی اللہ و سلم سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ہے۔( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ صفحہ 605) حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھے۔ (نور الابصار صفحہ 114) اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور حضور صلی علیہ و سلم کی گود میں بیٹھ گئے اوراپنی انگلیاں داڑھی مبارک میں داخل کردیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا منہ کھول کر بوسہ لیا اور فرمایا۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُحِبُّہُ فَاَحِبَّہُ وَ اَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ‘ ’’ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اُس سے بھی فرما جو اس سے محبت کرے(نور الابصار صفحہ 114)اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ حضور آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف دنیا والوں ہی سے نہیں چاہا کہ وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کریں بلکہ خدا تعالیٰ سے بھی عرض کیا کہ تو بھی اس سے محبت فرما۔ اور بلکہ یہ بھی عرض کیا کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت فرما۔*معرکہ حق وباطل اور امام حسین رضی اللہ عنہ:*امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت سے معرکہ حق و باطل جو کربلا میں رونما ہوا اس نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد 56ھ میں یزید ولی عہد مقرر ہوا اس کے خلیفہ بنتے ہی طوائف الملوکی شروع ہوگئی اور اسلامی خلافت کے بجائے بادشاہیت و آمریت نے پنجہ گاڑنا شروع کر دیا۔ تو افضل الجہاد کی نظیر پیش کرتے ہوئے کہ ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے اسکی عملی تصویر بن کر امام حسین رضی اللہ عنہ دین اسلام کی سر بلندی کی خاطر اُٹھ کھڑے ہوئے کہ دین حق دین اسلام اس طریقہ کا داعی نہیں یہ اسلامی روح کے خلاف ہے. اور یہ پیغام دیا کہ مومن حکومت و سلطنت ظلم و جبر اور طاقت و قوت کے آگے ہتھیار نہیں ڈال سکتا ہے اور یزیدگی امارت و بیعت کا انکار کرتے ہوئے اس کی اطاعت قبول نہ فرمائی اس کی بیعت کو ٹھکرا دیا۔ اور یہ اعلان کر دیا کہ مرد حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیںآپ کو یزیدی لشکر کے خطرناک عزائم کا انکشاف ہوا تو حُرمت کعبہ کی خاطر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا اسی درمیان کوفیوں کے ہزاروں عقیدت بھرے خطوط ملے مگر آپ ان پر کیسے بھروسہ کرتے چونکہ ان ہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کیاتھا۔ اس لئے تحقیق کے خاطر اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا انکے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار لوگوں نے ( ایک روایت میں 27000 لوگ) بیعت کئی اس کو دیکھ کر حضرت مسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آنے کے لئے اجازت (خط لکھ دیا) دی تو آپ کوفہ کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ و حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ نے آپ کو کوفہ جانے سے منع فرمایا لیکن آپ نے دین حق کی خاطر جان کی قربانی کیلئے بھی ذرا سی لرزش نہ دیکھائی، یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل کے لئے زمین تنگ کر دی اور انہیں بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو ملی یہ ایک اندوہناک خبر تھی آپ کو زبردست صدمہ پہنچا واپسی پر نظر ثانی کیا بھی جا سکتا تھا۔ مگر حضرت مسلم ان کے خیش و اقارب جو وہاں موجود تھے انہیں یہ گوارا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خود ہی اپنے قافلہ کے لوگوں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ جسے واپس جانا ہے وہ چلا جائے۔ یہ سن کر صرف دو حضرات چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ حربن یزید نے ایک لشکر جرار کے ساتھ آپ کو محصور کر لیا تاکہ والیئ عراق عبداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔آپ نے نماز ادا فرمائی بعد نماز حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ کے ذریعہ حر اور اسکے ساتھیوں (فوج) کے سامنے پوری بات رکھی۔ خطوط اور قاصدوں کا حوالہ دیا۔ حر حیران ضرور ہوا مگر اس نے خطوط کے متعلق لا علمی ظاہر کی اور اس نے آپ کے قافلہ کو روک لیا۔ یہاں بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ دیا جو تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے۔(ترجمہ) اے لوگو ! رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو کوئی بھی ایسے حاکم کو دیکھے کہ ظلم کرتا ہے. خدا کے حدود کو توڑتا ہے۔ سنتِ نبوی کی مخالفت کرتاہے اور سر کشی سے حکومت کرتا ہے اور اسے دیکھنے پر بھی کوئی مخالفت نہیں کرتا ہے اور نہ اسے روکتا ہے تو ایسے آدمی کا اچھا ٹھکانہ نہیں ہے۔ دیکھو ! یہ لوگ شیطان کے پیرو کار ہیں۔ رحمٰن سے بے سروکار ہیں حدود الٰہی معطل ہے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرایاجارہا ہے۔ میں ان کی سر کشی کو حق اور عدل سے بدل دینا چاہتا ہوں اور اس کے لئے میں سب سے زیادہ حقدار بھی ہوں.اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو تمہارے لئے ہدایت ہے ورنہ عہد شکنی عظیم گناہ ہے۔ میں حسین ہوں. ابن علی، ابن فاطمہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جگر گوشہ مجھے اپنا قائد بنائو مجھ سے منہ نہ موڑو، میرا راستہ نہ چھوڑو، یہ صراطِ مستقیم کا راستہ ہے اس حقیقت افروز خطبہ کا لوگوں پر کافی اثر ہوا لیکن لالچ اور خوف کی و جہ سے کچھ لوگ چپ رہے۔ ۹ محرم الحرام کی رات کا وقت تھا آپ رات بھر عبادت میں مشغول رہے صبح دس محرم کی تاریخ آگئی دونوں اطراف میں صف آرائی ہو رہی تھی۔ فجر نماز کے بعد عمرو بن سعد اپنی فوج لے کر نکلا، ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے احباب کے ساتھ تیار تھے۔ آپ کے ساتھ 72 نفوس قدسیہ جس میں بچے بوڑھے خواتین تھی شامل تھیں دوسری جانب 90 ہزار کا لشکر جرار تمام حرب و ہتھیار سے لیس تھے۔ آپ نے جس جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جس طرف رخ کرتے یزیدی فوج بھیڑیوں کی مانند بھاگ کھڑی ہوتی معاملہ بہت طویل ہوگیا۔ معصوم اورشیر خوار بچے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے لگے، خیمے جلا دیئے گئے، بھوکے پیاسے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میدان کربلا میں صبر کا پہاڑ بن کر جمے رہے، یزیدی دور سے تیر برساتے رہے اور پھر ایک مرحلہ آیا کہ بدبخت شمر ذی الجوشن جب قریب آیا تو آپ پہچان گئے کہ یہی سفید داغ والا وہی بدبخت ہے جس کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ آپنے اہل بیت کے خون سے اس کے منہ کو رنگتا دیکھتا ہوں.اور وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی شمرلعین کے لئے بدبختی ہمیشہ کے لئے مقدر بن گئی ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ میں گئے اورشمر کی تلوار نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گردن مبارک کو تن سے جدا کر دیا وہ یومِ عاشورہ جمعہ کا دن تھا ماہِ محرم الحرام 61 ھ میں یہ واقعہ پیش آ ٓٓیا اس وقت امام حسین کی عمر 55 سال کے قریب تھی۔*پیغامِ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ :* سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے اول یہ کہ ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہو۔ دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کی ویسے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ کرے اور فسق و فجور والا کام نہ کرے اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دے نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت حسینیت ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہادت امتِ مسلمہ کے لئے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی طرز پر قائم رکھے اسلامی زندگی اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کیلئے صداقت حقانیت جہد مسلسل اور عمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی سے سرشار ہو. اقتدار کی طاقت جان تو لے سکتی ہے ایمان نہیں۔ اگر ایمانی طاقت کارفرما ہو تو اسکے عزم و استقلال کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا.لندن کے مشہور مفکر ’’ لارڈ ہیڈلے ‘‘ کے بقول ’’ اگر حسین میں سچا اسلامی جذبہ کارفرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے اخری لمحات میں رحم و کرم، صبر و استقلال اور ہمت و جوانمردی ہرگز عمل میں آہی نہیں سکتی تھی جو آج صفحہ ہستی پر ثبت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت اما حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے ہمیں جو سبق اورپیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے کیونکہ پنڈت جواہر لا ل نہرو کے بقول ’’ حسین کی قربانی ہر قوم کے لئے مشعلِ راہ و ہدایت ہے۔ ‘‘ اور جیسا کہ مولانا محمد علی جوہر نے شہادت حسین پہ کہا ہے کہقتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعداور کسی شاعر نے بہت پیاری بات کہی ہے:نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ وہ ظلم ابن زیاد کا جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا اور ہندوستان میں اسلام کی روشنی لانے پھیلانے والے صوفی چشتی بزرگ خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں.شاہ است حسین ؓ بادشاہ یت حسیندیں است حسین دیں پناہ است حسینسر داد نہ داد دست در دست یزید حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسین اللہ ہم لوگوں کو شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ سے سبق لینے اور حق پر چلنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمی
