حافظ بلال بشیر
قرآن و سنت میں شہید کے مقام و مرتبے کے حوالے سے جو ارشادات ملتے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں شہید کی عظمت اور شہادت کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ شہید کے مقام اور شہادت کی عظمت کے حوالے سے امام الانبیاءﷺ کا یہ ارشاد سند کادرجہ رکھتا ہے۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی جنت میں داخل ہوتا ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور اسے دنیاکی ہر چیز دے دی جائے، مگر شہید (اس کا معاملہ یہ ہے)کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ واپس لوٹ جائے اور دس مرتبہ قتل کیا جائے۔ (راہِ خدا میں باربار شہید کیا جائے) (صحیح بخاری، صحیح مسلم، بیہقی) شہید اور شہادت کا تصور اور فلسفہ یہ ہے کہ شہید جب جام شہادت نوش کرتا ہے تو اس کی روح کو اْسی وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر کر دیا جاتا ہے اور یہ کہ شہید اپنی پیاری اور نہایت قیمتی جان کا نذرانہ پیش کر کے اللہ تعالیٰ کے دین کے فروغ اپنی قوم اور اپنے ملک و ملت کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عالم برزخ، یوم محشر اور جنت میں اپنے بندوں کو جو نعمتیں،سعادتیں اور برکتیں و انعام و اکرم دینے کا وعدہ فرمایاہے شہادت کی عظیم موت کے دروازے سے گزرتے ہی شہید اللہ تعالیٰ کے اْن سارے وعدوں کو عملاً پا لیتا ہے۔ شہادت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
حضرت امام حسین ؓ کی شہادت آپؓ کے مقام شہادت اور آپؓ کے زمانہ شہادت کے متعلق نبی کریم نے صحابہ کرامؓ کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔ جس کا ذکر حدیث پاک میں آتا ہے۔ قمری سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے اور اختتام ماہ ذوالحج پر ہوتا ہے۔ دس محرم الحرام کو حضرت امام حسین ؓ کی شہادت و قربانی اور دس ذی الحج کو حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کی یاد گار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آفاقی مذہب اسلام ابتدا سے لے کر انتہا تک قربانیوں کا نام ہے گویا ایک مسلمان کی تمام زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہے۔ سن60ہجری میں جب یزید تخت پر بیٹھا تو لادینیت، ناانصافی، عہد شکنی، ظلم و جبر اور فسق و فجور کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روح کے منافی فسق و فجور سے آراستہ فاسقانہ ثقافت یزید کے دور اور اس کے دربار میں پروان چڑھنے لگی۔ تاریخ کی بے شمار کتب اس کی گواہ ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ خلافت کی بساط لپیٹ دی گئی اور ملوکیت کی بنیادیں رکھی جانے لگیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لازم ہوگیا، لہٰذا اس نازک وقت اور سنگین دور میں یہ عظیم سعادت سیدنا حسینؓ کا مقدر ٹھہری۔ آپؓ ایمانی جذبے سے سرشارہوکر کھڑے ہوئے اور یزید کے باطل اقدامات کے خلاف آہنی دیوار ثابت ہوئے اور برائی کے سدِّباب کے لئے آپؓ نے ہر ممکن کوشش کی۔ امام حسینؓ نے تمام خطرات کے باوجود عزیمت کی راہ اختیار کی۔ آپؓ نے نہ صرف اپنی ذات اقدس بلکہ اپنے پورے گلشن کو اسلام کی سربلندی اور امت کے وسیع تر مفاد پر قربان کردیا۔اور یوں 10؍محرم الحرام یوم عاشور بروز جمعہ 61ہجری میں وہ دل دوز،دل خراش سانحہ پیش آیا ،جس میں امام مظلوم سیدنا حضرت امام حسینؓ اپنے فرزندوں، بھتیجوں اور اپنے دیگر عزیزوں اور جاں نثاروں کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے مقام کربلا میں یزیدی لشکر سے مردانہ وار لڑتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے۔
سانحہ کربلا منزل نہیں منزل کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے وہ منزل جو عظمتِ انسانی کا درس دیتی ہے اور جس کی وجہ سے حق و باطل کے درمیان اس فرق کی نشاندہی ہوتی ہے، جو کائنات میں ازل سے ابد تک انسانیت کے لئے رکھ دیا گیا ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی ذاتِ اقدس درحقیقت وہ استعارہ ہے جو رہتی دنیا تک باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی مثال پیش کرتا رہے گا، تاریخ میں ایسے بہت کم واقعات ملتے ہیں جہاں انسان کے پاس جان بچانے کا راستہ بھی موجود ہو مگر وہ اپنے اصول، نظریئے اور سچ کی خاطر وہ راستہ اختیار نہ کرے بلکہ اپنے خاندان سمیت جان دے کر حق و سچائی کے راستے میں ایک ایسی لازوال شمع جلا دے، جو تا ابد انسانوں کے لئے مشعلِ راہ بن جائے۔ کربلا اک ایسا آفتاب ہے جس کی روشنی کبھی مانند نہیں پڑے گی۔ جس کے اُجالے ہمیشہ عالمِ انسانی کو یہ احساس دلاتے رہیں گے کہ چند روزہ زندگی یا کسی معمولی سے مفاد کے لئے باطل کی اطاعت قبول کر لینا ایک ایساسانحہ ہے جو انسان کی انفرادی اور معاشرے کی اجتماعی زندگی کو ذلت و زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں اتار دیتا ہے۔ یزید کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ امام حسینؓ نے اس لیے کیا تھا کیوں کہ
امام عالی مقامؓ اس وقت تاریخ کی آنے والی صدیوں پر کا اندازہ رکھے ہوئے تھے۔ انہیں اسلام کو بچانا تھا، اپنے نانا کے دین کی حقانیت کو زندہ رکھنا تھا۔ سو یہ فیصلہ وہ کر گزرے، یزید اپنی طاقت کے نشے میں یہ بھول گیا کہ جنگ حق و باطل کی ہے۔ باطل اگر اپنی طاقت یا مادی برتری کے زور پر وقتی غلبہ حاصل کر بھی لے تو حق کی خاطر جانیں دینے والے اسے حرف غلط کی طرح مٹا دیتے ہیں۔
آج ہم قومی اور ملی سطح پر انتشار و نفاق کا شکار ہیں۔انہیں ختم کرنے کیلئے واقعہ کربلا سے سیکھنے، درس اور سبق لینے کی ضرورت ہے ۔آج ہمیں متحد ہونے اور ایثار کے جذبے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہم دشمنان ملک و ملت کے ناپاک عزائم کو شکست دے سکیں اور اسی میں ہماری بقا ہے۔ عاشورہ کا دن ہمیں اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جو نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے دین کی حفاظت و حرمت کے لیے معرکہ کربلا میں پیش کی، واقعہ کربلا ہمیں اعلیٰ مقاصد کے حصول کی خاطر ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے، استقامت حق کا حصول ہی وہ مشن ہے جس کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا۔ 10 محرم الحرام کا دن ہمیں نواسہ رسولؐ اور جگر گوشہ بتولؓ کے عظیم افکار و اعمال کی یاد دلاتا ہے، حق و باطل کی لڑائی اس دور میں بھی جاری ہے۔ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی لازوال قربانی سے یہ ثابت کیا کہ باطل جب بھی حق سے ٹکرایا ہے نیست و نابود ہوا ہے ثابت قدمی اور استقامت کی یہی مثال ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آج چودہ سو برس گزرنے کے باوجود سیدنا حضرت امام حسینؓ کا پیغام اور فلسفہ حق و صداقت دین اسلام کی سربلندی کا روشن نشان ہے،
اس لئے کہ ”قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہےاسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد“
بلا شبہ شہدائے کربلا کے سالار سیدنا حضرت حسینؓ کی ذاتِ گرامی جرأت وشجاعت اور حق وصداقت کا وہ بلند مینار ہے، جس سے دین کے متوالے ہمیشہ حق کی راہ پر حق و صداقت کا پرچم بلند کرتے رہیں گے۔ وطن عزیز کے حالات کو دیکھتے ہوئے آج ہمیں متحد و منظم ہونے اور ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دینے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہم دشمنان ملک و ملت کے ناپاک عزائم کو شکست دے سکیں۔ اور آپس کے باہمی اختلافات ختم کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک عملی اسلامی فلاحی ریاست بنا سکیں۔