روحان دانش
یکم محرم الحرام سے ہی دل اداس سا ہے، یاد ِ اِمام عالی مقام، یادِ جگر گوشۂ بتول وجود پر طاری ہے، آقائے دو جہاں، سرور کائنات نبی کریم ﷺ اپنے گھر پر تشریف فرما ہیں، ٓپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسے حسینؓ ابن علیؓ کے لیے بیٹھے بیٹھے اپنی ٹانگیں پھیلادیں، معصوم حسینؓ ابن علی ؓنانا کے دونوں ہاتھ پکڑے ٹانگوں سے چلتے ہوئے سینے تک آ گئے، نبی آخر الزماں ﷺ یوں گویا ہوئے
یا اللہ! ”میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی محبت رکھ، اور جو اس سے محبت رکھے تو اس سے بھی محبت رکھ، اور جو اس سے بغض رکھ تو اس سے بغض رکھ۔”
یقیناَ حضرت حسین ؓ اپنے رب کی رضا میں راضی ہو گئے۔۔۔لیکن ذرا تصور میں لائیے وہ منظر۔۔۔دیکھ لیجئے اپنے خیال کی آنکھوں سے۔۔۔امام حسین ؓ خود زخموں سے چور۔۔۔ اپنے ننھے اور پیاسے شہزادے کو دونوں ہاتھوں میں لیا ہی تھا کہ اگلے ہی لمحے بد بخت حرملہ بن کاہل کوفی کا تیر۔۔۔ اور وہ خطا بھی نہ ہوا، معصوم عبداللہ ابن حسین ؓکی گردن ایک طرف کو ہو گئی۔۔۔ہماری اولاد چلتے ہوئے بھی گر جائے یا اسے بخار آ جائے توہمارا وجود تک کانپ جاتا ہے، دوا کرتے ہیں، روتے ہیں، دعا کرتے ہیں،۔۔۔یا اللہ! ہمارے بچے کو اچھا کر دے۔
میرا ایک بیٹا حکمت خداوندی سے پیدائش کے چند روز بعد ہی طبعی موت اپنے خالق کی جناب میں حاضر ہو گیا، آج تک اس کی یاد تڑپاتی ہے۔۔۔ اشکوں رلاتی ہے، اور اس خیال سے دل بیٹھ سا جاتا ہے کہ کس طرح جناب امام عالی مقام، سردار جوانان جنت جناب حسینؓ کا ننھا شیر خوار شہزادہ۔۔۔۔ عبداللّٰہ ابن حسین ؓ (علی اصغر) تو ان کے ہاتھوں میں ہی۔۔۔ تڑپ کر ابدی نیند سو گیا۔۔۔!!
کیوں قربان کیا۔۔۔ اس معصوم کو جناب حسینؓ نے۔۔۔؟
بے شک حضرت حسین ؓ اپنے رب کی رضا میں راضی ہو گئے۔۔۔مگر اپنی روح تک میں محسوس ہوتا غم حسین ؓ مجھے خودسے سوال کر تا محسوس ہورہا ہے، کیا محبت ِحسین ؓصرف ان دس دنوں کے لئے ہے، اور وہ بھی زبانی کلامی بس اِظہار محبت تک۔۔۔؟
وہ کردار، وہ روح ِدین۔۔۔ جس کے لئے جناب حسین ؓ نے خود اپنی اور اپنے بھائیوں عباس ؒبن علی ؓ(علمدار), جعفر ؒبن علیؓ،عبد اللہؒ بن علیؓ،عثمانؒ بن علیؓ،عمر ؒبن علیؓ،ابو بکرؒ بن علیؓ، اپنے بیٹوں علی اکبرؒ بن حسینؓ، شیر خوار عبداللہ (علی اصغر) بن حسینؓ اپنے بھتیجوں ابو بکرؒ بن حسنؓ،بشر ؒبن حسنؓ،عبد اللہؒ بن حسنؓ،قاسم ؒبن حسنؓ،عمرؒ بن حسنؓ سمیت 72 جانثاروں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔۔۔وہ کردار اور میرے اعمال سے وہ روح کہاں گئی۔۔۔؟
کیا محبت ِحسین کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سیدنا امامِ حسینؓکی محبت جے دعویدار بن کر جھوٹ بھی بولیں، غیبت کریں، گالم گلوچ کریں، تعصب اور نفرتوں کے بیج بوئیں، ذخیرہ اندوزی کریں، کم تولیں۔ایک دوست نے ویڈیوکلپ شیئر کیا، جس میں ایک باریش ریڑھی بان گاھک کی جانب سے من پسند فروٹ پکڑانے پر شاپنگ بیگ کی آ ڑ لے کر اسی میں ڈالنے کا اشارہ کرتے ہوئے واپس ریڑھی پر رکھتا جا رہا ہے۔اسی طرح میرے استاذ اورپاکستان کے مایہ ناز کالم کارجناب سجاد جہانیہ نے اپنے ایک کالم میں ایک مرغی والے کے کم تولنے کا خود بیتی واقعہ بتایا۔۔۔۔کالم کے آخر میں جناب سجاد جہانیہ نے لکھا اور بے شک سچ لکھا ”۔۔۔ہیرپھیر اور جھوٹ سے تو ہم باز آ نہیں سکتے، سو بے برکتی کی شکایت نہ کیا کریں۔ اور دوسرا اپنی دکانوں کے مذہبی نام اور شرعی حلیے بدل لیں۔ جو حلیہ آپ کو شریعت کی پیروی نہیں سکھاتا، معذرت کے ساتھ وہ شرعی ہرگز نہیں، فقط میک اپ ہے۔”
سو آئیے! محرم الحرام کے اس موقع پر حضرت امام حسین ؓ اور اہل بیت سے اپنی محبتوں کی تجدید کرتے ہوئے یہ عہد بھی کریں کہ پیغام شہادت حسین کو خود بھی سمجھیں گے اور اپنی اولادوں کو بھی اس سے روشناس کریں گے۔ یہی امام حسینؓسے وفا ہے، اور ان سے محبت کا تقاضا بھی۔
مجھے یقین ہے اس طرح ہم کل قیامت کے روز امام عالی مقام حضرت حسین ؓ کے نانا امام الانبیاء اور نبی آخر الزماں ﷺ کے سامنے بھی سرخرو ہوں گے، جنھوں نے فرمایا تھا کہ میں خود کل قیامت کے دن حسینؓ ؓابن علی ؓکا وکیل ہوں گا۔
یا اللہ! تو اپنے اس بندے کو بھی اپنے پیامبر، سرورِ کونین ﷺکے لاڈلے، ان کے شہزادے حضرت امام حسین ؓ سے محبت کرنے والوں میں لکھ لے۔
یا اللہ! میں نوکر امامِ حسینؓ دا۔۔۔ قبول فرما !
یا الہیٰ! میری اس محبت پر، میری محبت کے اس اِقرار پر تو خود میرا گواہ بن جا۔
یا اللہ! تو اس محبت کو مجھ سے، میرے بھائیوں سے، میری اولاد سے، میرے خاندان سے اور سارے مسلمانوں سے قبول فرما لے۔
اے میرے مالک! تو ہمیں،ہماری نسل کو قیامت تک حسنین کریمین سے محبت کرنے والوں میں، ان کے نوکروں میں لکھ لے۔
اور ہمیں اس پر فخر عطا فرما۔
یا اللہ! ہمیں حسینی ؓروشن کردار عطا فرما، حسینی ؓکردار کی سمجھ عطا فرما۔ آمین
آمین یا رب العالمین