156

شیخ محمد منظور۔۔۔۔۔۔ایک علمی و ادبی شخصیت /تحریر/عبدالروف ملک (کمالیہ) 

دوستی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا رشتہ ہے جس کے بغیر زندگی بے رنگ اور بے مزا ہوتی ہے اچھے دوست زندگی کا انمول سرمایہ ہوتے ہیں جو بڑھاپے میں بھی زندگی جینے کا شوق پیدا کردیتے ہیں۔ شیخ محمد منظور صاحب کا شمار ہمارے انتہائی بےتکلف دوستوں میں ہوتا ہے جو من کے موجی اور طبیعت کے حاتم ہیں قدرتی حسن کے مداح اور سیاحت کے شوقین ہیں ہنس مکھ اور بچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آنے والے طبعاً ورسٹائل قسم کے بندے ہیں صوفیوں کی محفل میں درویش اور دوستوں کی محفل میں اتنے بےتکلف کہ شیطان بھی ان سے شرمانے لگتا ہے محترم شیخ منظور صاحب 8 مئی 1964 کو جنوبی پنجاب کے ایک قصبے “قطب پور” میں پیدا ہوئے اسی لیے انکی ہر بات قطب پور سے شروع ہوکر قطب پور پہ ہی ختم ہوتی ہے بطور وفاداری قطب پور کو ایک سٹیٹ ثابت کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلیے مدینۃ الاولیاء ملتان میں تشریف لے گئے۔ جونہی انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی گھروالوں کو انکے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر ہوئی گھر میں شادی کی بات سن کر محترم کے دل میں لڈو اور خوابوں میں پٹاخے پھوٹنے لگے تھوڑی بھاگ دوڑ کی تو خالقِ کائنات نے ان کیلیے جس رفیقہ حیات کو تخلیق کیا تھا وہ کمالیہ کی ایک مہارانی تھی بالآخر محترم 14 جولائی 1985 کو شادی کے پروقار بندھن میں بندھ گئے. کمالیہ کی مہارانی نے فوراََ انکے پاؤں میں بیڑیاں ڈالیں اور انکو تاحین حیات اپنے مائیکے یعنی کمالیہ میں بلا لیا اور محترم اسی علاقے کے ہوگئے اور یہی شہر انکی پہچان بن گیا۔ محترم نے 10 مارچ 1983 سے محکمہ تعلیم میں بطورِ معلم اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کیا اور 31 جولائی 2023 کو ریٹائرڈ ہوگئے۔ آپ اپنے تدریسی فن میں ماہر اور بہترین رزلٹس کے حامل ہیں پوری سروس میں ایمانداری، وقت کی پابندی طلبا کے ساتھ حسن سلوک دوسروں کی عزت و احترام انکی سروس کا طرہ امتیاز ہے۔ محترم منظور صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں اچھے برے وقت میں دوستوں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے ہوتے ہیں محترم خوش مزاج اور فطرتاً مولوی ٹائپ بندے ہیں مزاج کے تیز اور ذرا بڑبولے ہیں اور مزید یہ کہ قدرت نے انکو ہائی والیم ساؤنڈ کی خوبی سے نوازا ہے کلاس میں جب پڑھا رہے ہوتے تو یوں محسوس ہوتا کہ کسی سے جھگڑ رہے ہیں کئی بار انکے آس پاس والی کلاسز کے اساتذہ انکے سامنے ہاتھ جوڑتے دیکھے گئے ہیں کہ بھئی یا تو آپ کلاس کا دروازہ بند کرلیں یا پھر چند منٹ خاموش رہ کر ہمیں بھی سبق پڑھانے کا موقع عنایت فرمادیں۔ محترم منظور صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے برجستگی، حاضر دماغی جنرل نالج اور اسلامی معلومات میں اپنی مثال آپ ہیں مزاجاََ جلیبی کی طرح سیدھے اور دردِ دل رکھنے والے بندے ہیں ریٹائرمنٹ کی عمر میں بھی صحت جیسی دولت سے مالا مال ہیں انتہائی چاق و چوبند اور پھرتیلے ہیں چلتے ہوئے پنجوں کے بل چلتے ہیں یعنی پاؤں کی ایڑھیاں زمین پہ نہیں لگاتے چلتے ہوئے “میں پبّاں بھار نچ دی پھراں” کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کھانے پینے کے حد درجہ شوقین اور چائے کے “عملی” اور باعمل بندے ہیں اپنے سامنے چائے کا کپ یا پانی کا گلاس رکھ کے جب بولتے ہیں تو پانی یا چائے کی سطح آہستہ آہستہ بلند ہونے لگتی ہے انکی اس کرامت کے راز سے صرف انکے ہم نوالہ و ہم پیالہ احباب ہی واقف ہیں۔ کھانے پینے کے حوالے سے انکا ایک مقولہ بہت مشہور ہے فرماتے ہیں “کھاتے کھاتے مرنا ہے اور مرتے مرتے کھانا ہے” انکا چائے کے ساتھ عشق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے مئی جون کی چلچلاتی دھوپ ہو یا ساون بھادوں کا حبس زدہ موسم چائے کے ساتھ انکی دوستی کبھی کم نہیں ہوئی۔ محترم کی خوبیوں کا احاطہ کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے انکی خوبیوں پر پوری کی پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے ہماری دعا ہے کہ اللہ پاک انکو ہمیشہ سلامت رکھے اور انکا سایہ شفقت انکے اہل و عیال پہ سلامت تا قیامت رکھے آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں