105

صحابہ کے تقدس کے وکیلوں کو مبارک ہو/شاعری/ارقم شہیر عباسی

ناموسِ صحابہ بل کی منظوری کے مسرت بھرے موقع پر اس بل کے پس پردہ خدمات، شخصیات، سفری احوال کا تذکرہ مجھ گناہگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں!

صحابہ کے تقدس کے وکیلوں کو مبارک ہو
پس زنداں رہے جو ان اسیروں کو مبارک ہو
جو قرباں ہو چکے ان سب شہیدوں کو مبارک ہو
مبارک ہو سبھی زندہ ضمیروں کو مبارک ہو

شہیدوں کے لہو کی سرخ دھاریں بول اٹھی ہیں
ابابیلوں کے کنکر کی قطاریں بول اٹھی ہیں
خزاں کے منہ پہ رکھے پیر بہاریں بول اٹھی ہیں
سیاہی نوچ کر دیکھو ضیائیں بول اٹھی ہیں

یہ فطرت ہے خوشی میں یاد اپنوں کی تو آنی ہے
کسی نے آل واری ہے کسی کی گئی جوانی ہے
کہیں جھنگ کا لہو ہے تو کہیں ہیں حیدری اعظم
وہ شاہ جی اورملک صاحب کی اپنی اک کہانی ہے

بھلا یہ عزم وہمت کا سفر اتنا ہی آساں تھا؟
کبھی لاشے، کبھی گولی کبھی تاریک زنداں تھا
نا کوئی ہم مؤقف تھا نا کوئی ہم سفر اپنا
اکیلے بے سہارا تھے بس اک رب ہی نگہباں تھا

منزل دیکھنے کے اشتیاق میں مرے جتنے
کبھی نا بھول پائے ہم وہ بجھتی آنکھ کے سپنے
بتا سامع بتاؤں کیا میں منظر اس زمانے کے
کبھی اغیار کے طعنے کبھی محو ستم اپنے

دیوانے تھے ہی اب ہم تو بتاؤ تم ہی کیا کرتے؟
نا دیتے جان تو کیا ہاتھ پر ہم ہاتھ ہی دھرتے؟
صعوبت کا بہانہ رکھ کے گر ہم چپ بھی ہو جاتے
بتاؤ کس منہ سے پھر ہم دم عشق کا بھرتے؟

بالآخر پھر تہیہ کر لیا کہ عشق کرنا ہے
جو آئیں امتحاں ان سب سے اب ہم نے گزرنا ہے
اگر جینا ہے تو عشاق کا رکھ کر بھرم جی لیں
نہیں تو راہ الفت میں فخر سے ہم نے مرنا ہے

زرا پوچھو زمانے سے کہ پھر کس طور ہم اٹھے
اٹھے ہوں گے کئی طوفاں مگر اس طور کم اٹھے
کوئی بھی چوٹ ذہن ودل پہ آ کرکےلگی جب جب
تو نعرہ محبت لے کے پھر سارے زخم اٹھے

متاع راہ میں ہم نے دعائیں لیں وفائیں لیں
ہمارا طرز دیکھا تو زمانے نے بلائیں لیں
سبھی نے کاتب تقدیر سے راحت کی چاہ مان
مگر اصحاب جرات نے دلیری سے سزائیں لیں

زمانے کے شب ودن کا تغیر روز تکتا تھا
اندازے سبھی اپنے وہ اک جانب کو رکھتا تھا
کبھی دیوانگی کو دیکھتا تو زور سے ہنستا
تہی دامن ہمیں دیکھے کبھی وہ بھی سسکتا تھا

نا پوچھو یار کیسے اور کہاں سے ہم یہاں پہنچے
زمیں کے ایک کونے سے چلے اور آسماں پہنچے
یہ مقصد تھا کہ چاہے زخم اتنے اور آ جائیں
مگر اک بار تو ایوان میں اپنی اذاں پہنچے

خدائے لم یزل تیرا شکر تیری رضاء پائی
دیوانہ وار جو مانگی وہ مقبول دعا پائی
ابوبکر وعمر کے رب فقط تیری عطاء ہی ہے
جو آج دشمن اصحاب نے ایسی سزا پائی

خلوص عاشقاں ہی ہے جو ایسی آج ہمت کی
سبھی نے یک زباں ہو کر زبان بد پہ لعنت کی
بھلا اس سے قبل ایوان نے بھی تھی مذمت کی؟
یہ سب برکات ہیں میرے شہیدوں کی کرامت کی

مسرت ہی مسرت ہے، وجد سا ہم پہ طاری ہے
ارقم ہر زباں پر بس شکر کا ورد جاری ہے
فغاں کالوں کی کہتی ہے یہ واقعی ضرب کاری ہے
کہ اب کے بعد سے ان کو یہاں رہنا بھی بھاری ہے

مرے مرشد کا کہنا تھا تحفظ کرکے دم لیں گے
جوالجھےگا صحابہ سے توبدلہ اس سے ہم لیں گے
صحابہ دشمنوں کے واسطے جو رب نے فرمایا
دیوانے دیکھنا قانون میں بھی کر رقم لیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں