انٹرویو حکیم شاکر فاروقی 68

طاقت ور ترین قوم کا انجام/ قصص القرآن3/ از قلم: حکیم شاکر فاروقی

Hakeem Shakir Farooqi

(قصص القرآن 3)طاقتور ترین قوم کا انجام
دو ہزار سال قبل مسیح کی بات ہے، احقاف کے مقام پر ایک قوم آباد تھی۔ (یہ عمان سے یمن تک اور نجد سے حضرموت تک کا علاقہ ہے، جس کا بیشتر حصہ اب ریگستان اور کانٹے دار جھاڑیوں میں بدل گیا ہے۔) اس قوم کو عاد اولی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ نسلاً عرب اور طاقت ور قوم تھی۔ سطوت و جرات اور جسمانی قوت و صولت میں ان کا ثانی نہیں تھا۔ ان کے قد 18 سے 120 فٹ تک ہوتے تھے جبکہ سر گنبد کی طرح بڑے اور آنکھیں کسی غار کی مانند چوڑی تھیں۔ یہ دو انگلیوں سے درخت اکھاڑ لیتے تھے۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ ان کے گھر کا دروازہ عام پچاس بندے مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ ان کے تیرہ قبائل تھے جن میں سب سے معزز’’خلود‘‘ تھا۔
یہ قوم جس قدر طاقت ور، پرشکوہ اور مہیب تھی، اسی قدر توہم پرست، مشرک اور خالق حقیقی سے دور تھی۔ انہوں نے تین بت’’صدا، صمود اور ہتار‘‘ اپنے معبد میں رکھے ہوئے تھے، جن کے سامنے ماتھا ٹیکتے اور ان کے نام کی نذر و نیاز چڑھاتے۔ برے اوقات میں ان سے مشکل کشائی چاہتے اور من کی مراد پانے کے لیے انہیں راضی کرنے کی کوشش کرتے۔ غرض ان کی روحانی حالت انتہائی ابتر تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے قبیلہ خلود سے سیدنا ہود بن عبداللہ کا انتخاب کیا، جن کی والدہ محترمہ کا نام’’ مکعبہ‘‘ یا’’مرجانہ‘‘ بتایا جاتا ہے۔ تورات انہیں ’’عابر‘‘ یا ’’عبیر‘‘ کہتی ہے۔
انہوں نے ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تو ساری قوم خلاف ہو گئی۔ انہیں گستاخی بھرے القاب سے پکارنے لگے۔ انہیں اس بات پر حیرت تھی کہ انہی جیسا گوشت پوست کا انسان، جو انہی میں رہتا ہے، کھاتا پیتا ہے، کیسے اللہ تعالیٰ کا پیغمبر ہو سکتا ہے؟ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود، چند ایک کے سوا کسی نے بھی ان کی آواز پر لبیک نہیں کہا۔ الٹا کہنے لگے کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ہمارے اوپر عذاب لے آؤ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھانے کے لیے خشک سالی کا عذاب بھیجا، تین سال تک بارشیں بند رہیں۔ فصلیں اجڑ گئیں، کھیتوں میں دھول اڑنے لگی۔ ساری قوم پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسنے لگی۔ بالآخر چند سرداروں کے مشورے سے ستر آدمیوں کا وفد مکہ مکرمہ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جن میں قیل، یقیم، عتیل، حیثمہ اور مرثد قابل ذکر ہیں۔
یہ وفد مکہ مکرمہ کے ایک سردار معاویہ بن بکر کے ہاں ٹھہرا۔ معاویہ نے مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا۔ پورا ایک مہینہ ان کی ضیافت کی گئی۔ لیکن یہ لوگ جس مقصد کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے یعنی رب العزت کے سامنے دعا مانگنے تاکہ خشک سالی ختم ہو جائے، بھول گئے۔ اس کی بجائے لہو و لعب اور شراب نوشی میں مشغول ہو گئے۔معاویہ کو جب حقیقت حال کا علم ہوا، اس نے اپنی چند لونڈیوں کو اشعار سکھا کر ان کی خدمت میں بھیجا کہ تمہاری قوم بھوک پیاس سے مر رہی ہے اور تم لوگ یہاں گُل چھرے اڑا رہے ہو۔ تب انہیں ہوش آیا اور کعبہ شریفہ میں حاضری دی۔ سب نے اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑگڑا کر آہ و زاری کی۔
مرثد نے کہا ‘‘اے اللہ! اگر ہود صحیح راستے پر ہیں تو مجھے اس پر چلا اور بارش کا نزول فرما۔‘‘ تھوڑی دیر بعد اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے بادل بھیجے یعنی سفید، سیاہ اور سرخ، اور ان کے دل میں القا کیا کہ جو چاہو پسند کر لو۔
قیل نے کہا ’’ہمیں سیاہ پسند ہے۔‘‘
چنانچہ سیاہ بادل جلدی سے قوم کی جانب بڑھا۔ وہ سمجھے سیاہ بادل ہمیشہ بارش لاتا ہے چنانچہ خوشی سے باہر نکل آئے۔ ایک بوڑھی عورت جس کا نام مہدر تھا، دوڑتی ہوئی آئی اور کہنے لگی، جسے تم بارش سمجھ رہے ہو وہ درحقیقت عذاب ہے،میں نے خود اس سے شرارے نکلتے دیکھے ہیں اور یہ بھی دیکھا کہ کئی لوگ اسے کھینچتے ہوئے لا رہے ہیں۔
پھر یہی ہوا۔ آٹھ دن اور سات راتیں مسلسل یہ طوفان آندھی کی مانند چلا اور ہر چیز تہس نہس کر کے رکھ دی۔ ان کے جانور، مکانوں کی چھتیس اور وہ خود اٹھا اٹھا کر پٹخ دیے گئے۔دوسری جانب مکہ سے لوٹنے والے لوگوں کو اس عذاب کی خبر مل گئی، مرثد مسلمان ہو چکا تھا اس لیے بچ گیا۔
قیل نے کہا ’’اگر میری قوم تباہ ہو گئی ہے تو مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ‘‘چنانچہ وہ وہیں مر گیا ۔
ایک نے کہا ’’مجھے سات گِدھوں Vultures (ایک پرندہ جو مردار کھاتا ہے اور اس کی عمر 80 سال تک ہوتی ہے۔) جتنی زندگی عطا ہو‘‘، اسے پانچ سو ساٹھ سال زندگی ملی۔
یہ واقعہ اپنے اندر بہت سی حکمتیں سموئے ہوئے ہے:
٭…اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے کفار کی گستاخیوں پر دل گیر نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر ان کا یقین مزید بڑھ جاتا ہے۔
٭… حق جتنا واضح ہو جائے، باپ دادا کے راستوں کو معتبر سمجھنے والے کبھی نہیں مانتے، وہ حق کو روز روشن کی طرح عیاں دیکھ کر بھی باطل راستے پر چلنا بہادری سمجھتے ہیں۔
٭… جسمانی قوت و طاقت جیسی بھی ہو، اللہ تعالیٰ سے رشتہ مضبوط ہے تو کام کی ہے ورنہ بے کار۔
٭… قدیم کفار جیسے بھی تھے، دور حاضر کے ملحدین سے اس بات میں ممتاز تھے کہ وہ اللہ کی ذات کو مانتے اور حرف آخر سمجھتے تھے۔
٭…٭…٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں