105

طلاق/تحریر/انیسہ عائش

“حدہوگئی یعنی کہ ایک عدد گھر والی لانے کے باوجود گھر کے کام ہمی سے کروائے جا رہے ہیں۔”
کچن میں موجود ہاتھ میں چھری تھامے سبزیوں سے نبرد آزما حذیفہ کی دہائیاں جاری تھیں ۔”میں آج سے
کچن کے امور کو طلاق دیتا ہوں۔ میں اب کبھی کچن کے کام نہیں کروں گا۔” اس نے کینٹ سے کچھ تلاشتی
رابعہ کی جانب دیکھا کوئی رد عمل نہ پا کر اسے مایوسی ہوئی” کچھ سنا تم نے اے کچن ! میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، طلاق۔۔۔۔۔۔۔۔.” اس نے بظاہر کچن کو پکارا مگر حقیقتا با آواز بلند اسے سنایا۔اسکے یہ الفاظ کچن کے سامنے سے گزرتی ام ہانی کے کانوں میں پڑے تو وہ لرز کر رہ گئی اور دہلتے دل کے ساتھ یہ خبرسنانے نیچے کا رخ کیا۔ رابعہ کی مطلوبہ چیز مل گئ تھی اسے چھری رکھ کر ہاتھ جھاڑتےکھڑا ہوتا دیکھ مسکرا کر بولی :۔ “کہاں چل دیئے جناب! طلاق کی عدت بھی ہوتی ہے سو آج کا کام تو نمٹاناہی پڑے گا۔” اسکے لہجے میں چھپی شرارت پہچان کر وہ جھنجھلا کر رہ گیا۔ اس کی چال اسی پر الٹی پڑگئی تھی۔وہ تو رابعہ کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھا الٹاررابعہ کو ہی اسے تنگ کرنے کا موقعہ مل گیا۔

    *

” بھابھی کیا میکے جا رہی ہیں؟ میں نے تیاری کرتے دیکھا ہے انہیں۔” عروہ اپنی رو میں بولتی اندر داخل ہوئی تو حاضرین کمرہ کے تاثرات نے اسے چونکا دیا ۔ ام ہانی دونوں ہاتھ منہ پر رکھے سسک رہی تھی جبکہ امی پر سکتہ طاری تھا اور دادی جان زبان کے جوہر دکھانے میں مصروف تھیں۔ اس نے باری باری تینوں نفوس کو دیکھا پھر کچھ نہ سمجھ آنے پر دادی کے الفاظ پر دھیان جمایا ” ا ے بی ! خاندان بھر نے باتیں بنائیں خوب رو کا پر ہماری بہو پر تو منے میاں کا سہرا سجانے کا بھوت سوار تھا۔ آج تک خاندان میں کسی کے اتنی سی عمر میں شادی نہیں ہوئ۔ میں نے بھی بہیترا کہا کہ شادی کوئی گڈا گڈی کا کھیل نہیں ہے پر بہو رانی پرتو ایک ہی دھن سوا ر تھی کہ شریعت کے مطابق عاقل بالغ ہو گیا ہے۔اور شریعت جلد نکاح کا حکم دیتی ہے ، اے میں پوچھتی ہوں کہاں گئی اب عاقل با لغ کی عقل ۔ ہک ہا ۔۔۔خاندان میں آج تک کسی نے ایسا کام نہیں کیا،کتنی تھو تھو ہو گی ہماری۔ ایسا قبیح کام کے عرش بھی کانپ جائے، کس کسک زباں پکڑیں گے، سب کہیں گے ایسا تو ہونا ہی تھا ” دادی اماں کی دہائیاں عروج پر تھیں ۔ اور صبیحہ بیگم کے ذہن میں ماضی کی فلم سی چل رہی تھی جسں میں
آپا ئیں، بھائی، نندیں انہیں دلائل دیتے نظر آرہے تھے۔” یہ ذمہ داری والا کام ہے۔حذیفہ ابھی چھوٹا ہے۔ شادی تو سمجھداری کی عمر میں کرنی چاہئے۔ تا کہ نوعمری کا جوش ختم ہو کر تدبر اورشعوراپنی جگہ بنالیں ۔” وہ تو صرف خاندان میں رائج بڑھتی عمر کےلڑکے، لڑکیوں کی شادی کرنے کی غلط رسم کو توڑنا چاہتی تھیں۔ مگراچانک ہی منظر بدلا۔اب ان کےسامنے اک نئی فلم چلنے لگی، جس میں انہیں اپنا آپ شرمسار سب کو وضاحت دیتا دکھائی دیا۔ لوگوں کے طنزیہ جملے، تمسخر آمیزنگاہوں کا سامنا کرتی نادم سی منہ چھپاتی نظر آرہی تھیں۔ وہ جھر جھری لے کر گئیں۔ ان کا سکتہ ٹوٹا ۔ اسلام علیکم دادی جان !دروازہ کھول کراندر آتے حذیفہ کی آواز نےجہاں باقیوں کو متوجہ کیا وہاں ہی صبیحہ بیگم کےاندر شرارے سےبھردیئے۔ وہ اسکی طرف تیزی سے لپکیں۔ اس کو کاندھوں سے تھام کر زور دار آواز میں پوچھا :”کیا تم نے طلاق کا لفظ بولا ہے؟” ۔ جی ! اس نے ناسمجھی سے اثبات میں جواب دیا۔چٹاخ کی آواز کے ساتھ ان کا ہاتھ بلندہوااور اسکاگال سرخ کر گیا۔ “تم ایسا کیسےکرسکتے ہو؟ میں تو تمہیں اپنا فخر
مانتی تھی۔ اور ڈھٹائی دیکھو میرے سامنے تن کر کہتے ہو ہاں۔” صدمے اور بےیقینی کی ملی جلی کیفیت سے
انکی آواز پھٹ سی گئی۔ “کیوں کیا تم نے ایسا حذیفہ؟ وہ نڈھال سر تھامے صوفے پر گرنے کے سےانداز میں بیٹھ گئیں۔ عروہ کو یہ سب کھٹکا۔ اسکی چھٹی حس اسےکچھ غلط ہونے کا اشارہ دےرہی تھی۔ دہ تیزی سے ان کی جانب بڑھی۔” امی جان پلیز پہلے بھائی سے پوچھ تولیجیے ہوا کیا ہے؟” آپ پوچھنے کوبچا ہی کیا ہے میری بچی! یا مولا یہ رسوائی کا دن دیکھنابھی میرے نصیب میں تھا۔ ہائے ہائے ۔۔۔جواب دادی جان کی طرف سے آیا تھا اسکی نظروں میں ربیعہ کا چہرہ ابھر۔اسکے چہرے کے تاثرات تو کہیں سے بھی کسی قیامت کے گزرجانے کا پتہ نہیں دے رہے تھے۔ اس نے بے آواز قدموں سے داخل ہوتی لوازمات کی ٹرے تھامے اندرداخل ہو کر سب کو حیران نظروں سے دیکھتی رابعہ کو جالیا۔ “بھابھی کیا یہ سچ ہے کہ بھائی جان نے آپ کو طلاق دی ہے۔” اس بار صدمےمیں مبتلاحذیفہ کو ساراماجرا سمجھ میں آیا۔ تھوڑی ہی دیر بعدرابعہ کی زبانی سارا قصہ سننے کے بعد سب مسکرارہے تھے۔ جبکہ ام ہانی اپنی جگہ خفت زدہ سی بیھٹی تھی۔” مجھے تو پتہ تھا کہ میرا منا ایسا کرہی نہیں سکتا۔ ا تنا سمجھدار اور لائق ہے میرا بچہ۔” دادی اماں حذیفہ کی بلائیں لیتے ہوۓ بولیں تو عروہ ان کے یوٹرن لینے پراش اش کراٹھی ۔”اماں آپ نے ایسا زور دار طمانچہ مارا کہ میرا گال ابھی تک جل رہا ہے۔” حذیفہ منہ بسورتے لاڈ سے ان کی گود میں سر رکھتے ہوئے بولا۔”بیٹا یہ تمہارے اول فول بکنے کی سزا ملی ہےتمہیں ۔ مزاح گوئی، خوش مزاجی اپنی جگہ مگر مذاق میں بھی الفاظ کے چناؤ کا خیال رکھنا چاہئے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن فضول گو نہیں ہوتا۔ آئندہ اس بات کا خیال رکھنا میرےبیٹے۔” تاعمر یاد رکھوں گا ۔امی جان جھوٹ موٹ میں سزا کا یہ حال ہے توحقیقت میں کیا حال ہو گا میرا نہ بھئ نہ ہم تو باز آئے۔ حذیفہ نے شرارتی لہجے میں کہا تو محفل کشت زعفران ہو گئی اور صبیحہ بیگم کو اپنے اندر طمانیت اترتی محسوس ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

طلاق/تحریر/انیسہ عائش” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں