عبد الصبور شاکر فاروقی
عاشورہِ محرم یعنی محرم الحرام کی دس تاریخ دنیا کے تمام آسمانی مذاہب میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق اس دن قوم یہود ” یومِ کپور” مناتی ہے۔ یعنی یہ لوگ یکم محرم سے دس محرم تک عشرہ توبہ مناتے ہیں اور دس تاریخ کو ایک لمبا روزہ رکھتے ہیں۔ جس میں کھانے پینے، بیوی کے پاس جانے اور دیگر گناہوں سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ یہ عبادت اجتماعی طور پر سرانجام دی جاتی ہے۔ ایک بستی کے سارے یہودی اکٹھے ہو کر رب کے حضور سربسجود ہوتے اور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ شام کے وقت یہودی ربی تورات سے منقول ”کول نیدرے” نامی دعا مانگتا ہے اور اپنے مرے ہوئے لوگوں کی بخشش طلب کرتا ہے۔ یہ سارا دن یہودی عبادت گاہ جسے ” شول” کہا جاتا ہے، میں گزارا جاتا ہے۔ اس عشرہ کو منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اگلا پورا سال چین و سکون اور امن و آشتی سے گزرے۔ صرف یہودی ہی نہیں، سامری اور مسیحی برادری کے کچھ فرقے بھی اس دن عبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے دس محرم الحرام کو اکتوبر، نومبر کے شمسی مہینوں کے ساتھ خاص کر لیا ہے۔ چنانچہ وہ اس عبادت کو اکتوبر یا نومبر میں ہی ادا کر لیتے ہیں تاکہ روزے کا دورانیہ زیادہ لمبا نہ ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی اس دن کو خوب اچھی طرح مناتے ہیں۔ بلکہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے بعد شاید یہ سب سے بڑا تہوار ہے جسے ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں منانے کی کوشش کرتا ہے۔پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں کے تین بڑے فرقے تھے: اہل السنۃ والجماعۃ، شیعان علی اور خوارج۔ ذیل میں ہم ان تینوں فرقوں کے عاشوراء منانے کا طریقہ کار بتائیں گے۔ یاد رہے کہ ہم تاریخ کے حوالے سے صرف رسم و رواج کا تذکرہ کریں گے، نہ یہ کہ فتویٰ اور مسائل بتائے جائیں۔ اہل السنۃ والجماعۃ اس روز دو امور سرانجام دینا سنت سمجھتے ہیں۔ ایک روزہ رکھنا اور دوسرا اپنے اہل و عیال پر رزق میں فراخی کرنا یعنی اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا۔ روزہ رکھنے میں یہ احتیاط برتی جاتی ہے کہ نو اور دس محرم یا دس اور گیارہ محرم دو دن ملا کر روزہ رکھا جائے۔ یہ اس لیے تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت لازم نہ آئے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے۔ ”جو بندہ جس قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ اسی قوم سے شمار کیا جاتا ہے۔” چوں کہ یہودی اس دن روزہ رکھتے ہیں، لہٰذا ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے ایک کی بجائے دو دن روزہ رکھا جاتا ہے۔ اہل خانہ پر خرچ کرنے کے بارے میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث مبارکہ موجود ہے، لہٰذا اس پر عمل کرنے کے لیے اس دن یہ لوگ اپنے اہل و عیال پر خوب خرچ کرتے ہیں۔ باقی تفصیل ان کی مذہبی کتب میں موجود ہے۔ اہل تشیع جنہیں شیعان علی بھی کہا جاتا ہے، میں بھی اس دن کے حوالے سے بہت رسوم و رواج پائے جاتے ہیں۔ دراصل یہ گروہ اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کا دعوے دار ہے۔ اس لیے ان میں پائی جانے والی بہت سی باتوں کا تعلق بھی انہی اہل بیت کے ساتھ ہے۔ مثلاً دس محرم الحرام وہ دن ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے،جگر گوشہ بتول و حیدر کرار، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ہوئی ہے۔ یزیدی فوج کے سپہ سالار عمرو بن سعد اور کوفی سالار شمر ذی الجوشن وغیرھم نے اپنے اور حکمران وقت کے بعض ذاتی مفادات کے تحفظ کی آڑ لے کر کربلا میں واقع خاندان نبوت کے سارے مردوں اور بچوں کو تہ تیغ کر دیا۔ یہ حادثہ ایسا معمولی نہ تھا جسے ٹھنڈے پیٹوں ہضم کر لیا جاتا۔ یہ دین اسلام اور خاندان نبوت پر ایسی ضرب تھی جس کی ٹیسیں آج بھی محسوس کی جاتی ہیں۔ چنانچہ ان کی یاد میں یہ لوگ ماتم اور عزاداری کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس دن رونے سے ثواب ملتا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے روزہ مبارک کی شبیہ کا ہر ہر شہر میں انعقاد کیا جاتا ہے جسے تعزیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کے کچھ لوازمات بھی وقت کے ساتھ ساتھ شامل ہوتے گئے ہیں۔ جن میں سرفہرست سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر کے امیر سیدنا غازی عباس رحمہ اللہ کے جھنڈے یعنی ” علم” کی شبیہہ نکالی جاتی ہے۔ پھر حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے گھوڑا وغیرہ بھی ساتھ رکھا جاتا ہے (یہ گھوڑا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے گھوڑے دلدل سے مشابہت کے لیے نکالا جاتا ہے) جسے ذوالجناح کا نام دیا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام از اکبر خان نجیب آبادی کے مطابق اس رسم کا آغاز سن 351 یا 352 ہجری میں سلطان معز الدولہ احمد بن بویہ الدیلمی کے حکم پر ہوا۔ اس کے اس فرمان کی وجہ سے پورے بغداد کی تمام دکانیں بند کر دی گئیں اور کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا۔ بہرحال اس کی ابتداء جیسی بھی ہو، اب یہ جلوس وغیرہ اہل تشیع کا خاص شعار بن چکا ہے۔روایات میں ہے کہ عبیداللہ ابن زیاد اور شمر ذی الجوشن کی فوجوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان پر دریائے فرات کا پانی بند کر دیا تھا تاکہ یہ لوگ تنگ آ کر ہتھیار ڈال دیں۔ اس پر اتنا سختی سے عمل کیا گیا کہ معصوم بچوں کی دل دوز صداؤں پر بھی کسی کو رحم نہ آیا۔ یوں یہ معصوم و پاکیزہ روحیں سسکتی بلکتی دار فانی سے کوچ کر گئیں۔ اہل بیت کی پیاس کی یاد اور انہیں ایصال ثواب پہنچانے کی نیت سے جگہ جگہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں جن سے ہر خاص و عام کو استفادہ کی اجازت ہوتی ہے۔کچھ ممالک میں اس روز باقاعدہ جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔جس کا اختتام مجالس عزا اور شام غریباں نامی مجالس کے انعقاد پر ہوتا ہے جس میں شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا تذکرہ ہوتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں اس روز چھٹی ہوتی ہے تاکہ اہل تشیع اپنی مذہبی رسومات کو بہتر طریقے سے ادا کر سکیں۔ ان کے علاوہ کھچڑا بنانے کی رسم بھی پائی جاتی ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا کھانا ہوتا ہے جسے اہل تشیع کے علاوہ کچھ سنی حضرات بھی پکاتے اور کھاتے ہیں۔ البدایہ والنہایہ کے مطابق اس رسم کے بانی خوارج تھے (یہ لوگ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے کھلم کھلا دشمنی رکھتے تھے) جنہوں نے شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی (نعوذبااللہ) خوشی میں یہ کھانا پکانے اور ایک دوسرے کو کھلانے کی بنیاد ڈالی۔ واللہ اعلم یہ بات کہاں تک سچی ہے؟ انہی سے منسوب یہ روایات بھی ہیں کہ یہ لوگ اس دن زیب و زینت کرتے اور مٹھائیاں بھی تقسیم کرتے تھے۔ یہ فرقہ آج کل نابود ہو چکا ہے۔ اس طرح ان کی رسمیں بھی کتابوں کے اوراق میں بند ہو کر مر چکی ہیں۔ان کے علاوہ کچھ رسوم و رواج ایسے ہیں جو اہل السنۃ کے بعض لوگوں اور اہل تشیع میں مشترکہ طور پر پائے جاتے ہیں مثلاً نو محرم الحرام کو قبرستان جانا اور وہاں قبروں کی دیکھ بھال کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ پھر وہاں دال مسور یا چاول وغیرہ پھینکنا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ایصال ثواب کی غرض سے اہل السنۃ کے چند لوگ اس دن کھانا پکانے اور غرباء میں بانٹنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک اور رسم یہ ہے کہ اس مہینے میں لوگ شادی کرنا مکروہ سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اس میں ہونے والی شادی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ شاید اس عقیدہ کی بنیاد حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بنی ہو۔عاشوراء محرم الحرام میں ہونے والے یہ رسوم و رواج جو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر آسمانی مذاہب میں بھی موجود ہیں، وہاں اگرچہ اب اپنی اصل شکل میں قائم نہیں رہے، لیکن ان کے دھندلے نقوش اب بھی باقی ہیں۔ جس سے اس روز کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ رمضان المبارک کے آنے سے پہلے محرم الحرام کی بہت اہمیت تھی۔ اس مہینے کا شمار اشھر الحرم (یعنی جن مہینوں میں لڑائی حرام ہے) میں ہوتا تھا۔ اس مہینے میں کوئی شخص کسی سے نہ تو لڑائی کر سکتا تھا، نہ ہی کسی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچا سکتا تھا۔ اگرچہ جان بوجھ کر بلاوجہ کسی کو نقصان پہنچانا کسی بھی مہینے میں حرام ہے۔* *