409

عالم اسلام کے چند بڑے مسائل اور ان کا حل/تحریر/شکیل احمد ظفر

آج جب ہم عالمِ اسلام پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں اور اپنا موازنہ مادی طور پر ترقی یافتہ اور خوشحال اقوام وممالک سے کرتے ہیں تو ایک حوصلہ شکن تصویر ہمارا منہ چڑانے لگتی ہے اور ہمیں دعوتِ فکر دیتی دکھائی دیتی ہے کہ ہم امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل پر غور کریں اور ان اسباب و علل کا کھوج لگائیں جو ان مشکلات و مصائب کا سبب ہیں اور ہم اُمتِ مسلمہ کے وقار، تشخص اور اجتماعی ملی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک متفقہ کامیاب لائحہ عمل بنائیں اور ہم اپنی دینی، اخلاقی، علمی، معاشی اور سیاسی ابتری کو بہتری میں بدل سکیں۔
ہمیں اپنے تابناک ماضی میں بھی جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سی قوتِ محرکہ تھی جس نے ہمیں عروج و کمال سے بہرہ مند کیا اور موجودہ معروضی حالات کا تجزیہ بھی کرنا ہوگا اور اس کی روشنی میں روش مستقبل کے حصول کے لیے کوئی صورتگری بھی کرنا ہوگی۔
آج دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کے پیروکاروں کا قتلِ عام ہو رہا ہے، انہیں بدترین سفاکیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطین میں ظلم وتشدد کی انتہا کی جا رہی ہے، شعائرِ اسلام کی برملا توہین کی جارہی ہے، معصوم بچوں، نہتے فلسطینیوں کو نہایت کربناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سب سے زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب وہ مسلمانوں کے قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ میں بوٹوں سمیت کود پڑتے ہیں اور نمازیوں پر فائرنگ شروع کر دیتے ہیں اور انہیں زدوکوب کرتے ہیں۔ ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ ہمیں آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہیے۔غاصب اسرائیلوں کو یہ مطالبہ سانپ کی طرح ڈستا ہے اور وہ طیش میں آکر نبیوں کی سرزمین کے کوچہ و بازار نوجوانوں کے لہو سے رنگین کر ڈالتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج کشمیری بھائیوں بہنوں پر ستم کا ہر ہنر آزماتی آرہی ہے۔ ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ حقِ خودارادیت کے جائز مطالبے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں ستر ہزار سے زائد کشمیری قتل کیے جاچکے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک نسل ختم کرنے کے لیے ہزاروں جتن کیے گئے ہیں، مالدار اور سرمایہ دار اقوام کے محافظ اقوامِ متحدہ کی درجنوں قراردادیں کاغذ کے ناکارہ پرزے سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ کشمیریوں پر ظلم کی سیاہ رات نہ جانے کب ڈھلنے کا نام لے گی۔
کوسوو کے مسلمانوں کی حالتِ زار اور بوسنیا کے لوگوں پر ہونے والے شدید مظالم کے زخم بھرنے میں نہیں آرہے۔
برما میں لرزہ خیز آتش وآہن کی بارش نے لاکھوں زندگیاں اجیرن بنا کر رکھ دیں۔ انہیں در در پھرنے پر مجبور کردیا گیا، عراق، شام اور مصر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے، سوڈان میں اندرونی خلفشاروں نے نفرت وعداوت کی آگ کے شعلے بھڑکا رکھے ہیں، بغاوت نے سر اٹھا رکھا ہے، ان کی آپسی لڑائی نے انہیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ ترکیہ میں یورپی طاقتیں، جسمانی و مالی ہمہ قسم کے وسائل بروئے کار لاتے اسلام پسندوں کا خاتمہ چاہتی ہیں اور افغانستان کے استحکام و ترقی کی راہ میں یہ سامراجی قوتیں روڑے اٹکا رہی ہیں۔
جب ہم دنیا کے موجودہ معاشی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تہذیبی منظر عامہ پر نظر ڈالتے ہیں اور پیچھے مڑ کر اپنے ماضی کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے ہم مسلمان بحیثیتِ مسلمان کتنے پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ مغرب کی اس منہ زور یلغار کے سامنے بند باندھنے کے لیے ہم نے کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں وضع کی۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج مغربی تہذیب کس قدر پھیل چکی ہے اور یہ قوت تسخیر کی بھی حامل ہے۔کیوں؟
اس کا بنیادی سبب دراصل جدید علوم اور سانئس پر ان کی گرفت کا ہونا ہے، جس نے انہیں سیاسی اور اقتصادی طور مضبوط ومستحکم بنا دیا ہے۔ اگر ہم اپنے اسلاف کے کارناموں کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جدید علوم اور سائنس اُمتِ مسلمہ ہی کا کوششوں اور کاوشوں کا ثمر ہے۔ قرآنی تعلیمات میں کائنات کے سربستہ رازوں کی تحقیق کو اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے سائنس، ٹیکالوجی اور علم وحکمت کے مختلف شعبوں میں دسترس کو ضروری قرار دے رکھا تھا۔
غرض ہم ہر شعبہ میں زوال پذیر ہیں۔ ہم نے اسلاف کی میراث کی قدر نہیں کی، جس کے نتیجہ میں اُمتِ مسلمہ کا پیکرِ نازنین جسم زخموں سے چور چور ہے۔ کفریہ طاقتیں ہم پر حکمرانی کر رہی ہیں۔
ہم ذیل میں مسلمانوں کے چند ایک مسائل اور اس کا اپنی دانست میں جو حل ہے، ذکر کیے دیتے ہیں، اس امید پر کہ کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات…!

1 : اسلامی تعلیمات سے روگردانی
اسلام ایک دینِ فطرت اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔
امت کی موجودہ تباہی، ذلت اور پستی کی سب سے بڑی وجہ اسلامی احکام پر عمل درآمد کرنے سے انحراف اور دشمنانِ دین سے دوستی ہے۔
قرآنی ہدایات زندگی میں عملی طور پر اپنانے ہی میں امت کا عروج پوشیدہ ہے۔ قرآن وحدیث کو معاملات، اخلاقیات، ریاست ومعیشت میں قانونی حیثیت دیے جانے میں ہماری ترقی و خوشحالی مضمر ہے۔
2 : اتحاد و یگانگت کا فقدان
ہمیں آپس کے ذاتی اختلافات اور مالی مفادات نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔
آج ہم مسلمان ہر جگہ مار کھا رہے ہیں، اس کا ایک بڑا سبب امتِ مسلمہ کی نااتفاقی ہے۔
ہم اغیار سے وفاداری کے بجائے اپنے ہی مسلمانوں کے سچے وفادار بن جائیں اور مسلم اُمہ کے مسائل کے حل کے لیے متحد ہو جائیں۔ نسلی ،لسانی اور جغرافیائی امتیازات سے نکل کر آفاقی تصور کو اپنالیں تو ہم کھویا ہوا عروج حاصل کرسکتے ہیں۔
3 : مسلم قوم پر مغربی تہذیب کے منفی اثرات:
مسلم امت کا تیسرا بڑا مسئلہ مغربی تہذیب کے زیرِ اثر وقت گزارنا ہے۔
ہم آج اسلامی تہذیب و ثقافت سے ہٹ کر مغربی کلچر کا پیروکار بن گئے ہیں۔ مغربی تہذیب کی چکاچوند نے مسلمانوں کو مادیت پرستی کا دلدادہ بنا دیا ہے۔ ہم اپنی صحیح اسلامی تہذیب و ثقافت کو دقیانوسی سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔
ہمیں عیاشی، فحاشی، پُرتکلف اور بناوٹی زندگی نہیں جینا ہے بلکہ اسلام کی سادگی کو اپنانا ہوگا۔
4 : محبِ دین و وطن راہبران کی کم یابی
عالمِ اسلام کا ایک اور بڑا مسئلہ مخلص، محبِ دین اور محبِ وطن راہنماؤں کی کم یابی ہے۔ دانا کہتے ہیں اور درست کہتے ہیں کہ جب رہبر، رہزن بن جائے تو قافلے کبھی منزل کا پتہ نہیں پا سکتے۔اسلامی ممالک کے اکثر حکمران بیرونی طاقتوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔
عالمِ اسلام اگر اپنے مسائل کا سنجیدہ حل چاہتا ہے تو اس کو اپنے لیے مخلص حکمرانوں کا انتخاب کرنا ہوگا اور حکمرانوں کے چناؤ میں دینداری اور اہلیت کا خیال رکھنا ہوگا اور کرپٹ، بزدل اور مکار حکمرانوں کے ناپاک وجود سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔
5 : معیاری تعلیم و تربیت کا عدم انصرام
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم ایک بنیادی ضروت ہے۔ بدقسمتی سے اکثرو بیشتر مسلم ممالک میں ایک بڑی تعداد معیاری تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہے۔
ہمیں فروغ علم کے لیے سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ مسلم معاشروں میں کردار سازی کے لیے تعمیر سیرت کے کام پر توجہ دینا ہوگی۔

6 : مسلمانوں کی ایک دوسرے کے بارے میں غفلت
نام ور مذہبی اسکالر شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم مرحوم کہتے تھے کہ
ہمارے زوال کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بے خبر ہوگئے اور اپنی ذات کے خول میں بند ہوکر رہ گئے ہیں جب کہ پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے روئے زمین پر بسنے والے تمام اہل اسلام کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے۔
ہمیں ایک دوسرے کے لیے فکر مند اور نفع رساں بننے کی ضرورت ہے اور
ہمیں اب مجموعی طور پر ہمت اور حکمت سے کام لینا ہوگا، “خود جیو اور دوسروں کو جینے میں مدد دو” کے مفید اصول کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اب ان کا ان قیمتی نصائح پر دل وجان سے عمل کرنا ہوگا کہ ہم جب بولیں، سچ بولیں، جب تولیں ٹھیک تولیں، ادھار لیں تو ادائی کی نیت سے لیں اور کمزور و نادار لوگوں کا ہر ممکنہ خیال رکھیں اور پانی کی قلت، صفائی ستھرائی کے ناقص نظام اور عدمِ تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں