98

عشق مصطفی ﷺ کی شمعیں اور غازی علم الدین شہید/تحریر/ عثمان عامر

عثمان عامر

تحفظ ناموس رسالت ایک ایسا خوش بو دار چمن زار ہے جس کو ہمیشہ غازیان اور شہداء نے اپنے خون سے سینچا ہے۔ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے سرفروشی ایک ایسا سودا ہے جس میں خسارہ نہیں، فائدہ ہی فائدہ ہے کہ اسی میں ایمان کی تکمیل کا راز مضمر ہے۔ بحیثیتِ مسلمان انسان کے عقائد، اعمال و افعال، ساری نیکیاں اور ان پر مرتب ہونے والا ثواب تحفظ ناموس رسالت کا ہی صدقہ ہے۔ راہِ عشقِ نبی کے یہ راہی جانتے ہیں کہ یہ جد و جہد ہی حاصلِ زندگی ہے اور یہی راہ گزر شفاعتِ محمدی ﷺ کی طرف جاتی ہے۔ دور نبوت سے لے کر آج تک ایسے سینکڑوں بلکہ ہزاروں عاشقان آئے جنہوں نے حرمت رسول ﷺ کا پاس رکھنے کے لیے گستاخوں کی جان لینے اور اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کیا کیوں کہ شہیدانِ وفا اپنے ہاتھوں میں حرمت رسول کا علم اٹھائے، اپنے سینوں میں عشقِ مصطفی کی شمعیں جلائے، اپنے دلوں میں شہادت کی آرزو جگائے موت کا انتخاب خود کرتے ہیں۔ اِن اَن گنت غازیان اور عاشقان کی کہکشاؤں میں ایک چمکتا ستارہ غازی علم الدین شہید بھی ہے جس نے اپنی جان ناموس رسالت پر قربان کر کے اپنا سر سرکار دو عالم ﷺ کی گود میں رکھ دیا۔
سر بلندی پھر وفا کی دیکھنے میں آگئی
پھر وفا کے نام پر کچھ لوگ ہارے زندگی

1857 کی جنگِ آزادی میں شکست کیا ہوئی فرنگی ہندوستان میں سفید و سیاہ کا اکیلا مالک بن بیٹھا، ہندو اپنی سرشت میں رچی ہوئی چاپلوسی سے انگریز کےقدموں میں جا بیٹھا اور فرنگی سامراج کا سارا قہر مسلمانانِ ہند پر ٹوٹ پڑا۔ انگریز جانتا تھا کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت ان کا عشق رسول ہے جو تمام اعمال پر بھاری ہے لہذا اس عشق پر چوٹ لگانا بہت ضروری ہے لہذا گوری چمڑی والوں نے اسے ہی نشانہ بنایا لیکن اس دشنام سازی کی باقاعدہ ابتداء ہندو جماعت آریہ سماج نے کی جس کا مقصد مسلمانوں کی دل آزاری تھا۔ حضور ﷺ کی شان میں چند دریدہ ذہن لوگوں نے تواتر کے ساتھ گندگی اچھالنا شروع کی۔ انہی خبیث الفطرت لوگوں میں ایک نام ہندو ناشر راجپال کا بھی تھا جس نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ایک رسالہ جاری کیا۔ جب یہ رسالہ چھپ کر منظر عام پر آیا تو مسلمانوں کے دل لرز اٹھے، ہر دیار مسلم جیسے ماتم کدہ بن گیا، ہر کونے سے آہ و فغاں کا ایک کان پھاڑ شور شروع ہوگیا اور ہندوستان میں صدی کے سب سے بڑے مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔

ابتداء میں راجپال کے خلاف مقدمات چلائے گئے اور اس کو معمولی سزائیں بھی دی گئیں لیکن اس طرح جیسے مسلمانوں پر کوئی احسان دھرا گیا ہو نتیجہ یہ نکلا کہ چند دن بعد وہ جیل سے باہر آگیا اور اس نے باقاعدہ ایک تحریک کا آغاز کردیا۔ جب اس کے خبث باطن کے چرچے عام ہوئے اور پڑھے لکھے لوگوں سے نکل کر عام مسلمانوں تک پہنچے تو ایک ہیجان برپا ہوگیا یہاں تک کہ اس معاملے کی خبر لاہور کے مضافاتی علاقے میں ایک بڑھئی طالع مند کے بیٹے علم الدین کو ہوئی کہ حضور ﷺ کی شان میں ایسی بے محابا گستاخیاں ہو رہی ہیں اور گستاخ آزاد پھررہے ہیں۔ اس وقت علم الدین کے تیور بدل گئے وہ سمجھ گئے کہ اب بات جہاد بالقلم اور جہاد باللسان سے آگے جا چکی ہے اب جہاد بالسیف کا وقت ہے اور راچپال نامی اس منہ پھٹ کا علاج قطعِ شہ رگ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ان کا انگ انگ کہنے لگا کہ ”راجپال واجب القتل ہے راجپال واجب القتل ہے۔“ علم الدین اگر چہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن مسلمان تھے کلمہ کی دولت تو ان کے پاس تھی یہی ان کا سہارا تھا یہی ان کی طاقت تھی۔ اسی طاقت کے سہارے علم الدین راچپال کی موت کا پیغام لے کر اپریل کی ایک سنسان دوپہر کو راجپال کے محلے جا پہنچے۔ راچپال نے جب علم الدین کی آنکھوں میں ابلتے ہوئے آتش فشاں کو دیکھا تو سہم گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنے دفاع میں ایک انگلی بھی ہلاتا علم الدین کا خنجر اس کے جگر کے پار ہو چکا تھا اور علم الدین نے غازی کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا تھا۔

راجپال کے قتل کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، ہندو محلے میں ہاہا کار مچ گیا۔علم الدین کے گھر والوں کو خبر ہوئہ تو حیران ضرور ہوئے مگر سمجھ گئے کہ ان کے چشم و چراغ نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس نے انہیں محمد رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا مستحق بنادیا ہے۔ علم الدین کا مقدمہ عدالت میں پہنچا تو سیشن جج نے فی الفور پھانسی کی سزا سنادی۔ ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی تو علم الدین کی وکالت کے لیے ہندوستان کے اس وقت کے سب سے بڑے بیریسٹر مسٹر محمد علی جناح بمبئی سے تشریف لائے۔ جناح جیسے فاضل بیرسٹر کی آمد نے عام لوگوں کی دل چسپی بھی کیس میں بڑھا دی۔ بحث کے دوران اگر چہ مسٹر جناح نے عدالت اور گواہوں کے بیانات کے پرخچے اڑادیے لیکن جج کی جانب سے فیصلہ وہی آیا جو متوقع تھا، سیشن جج کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے علم الدین کی سزائے موت بحال رکھی گئی۔ اسے میانوالی جیل منتقل کردیا گیا اور ایک صبح تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ پھانسی کے اگلے دن اخباروں میں جو روداد شائع ہوئی تو شہ سرخیوں سے ہی غازی علم الدین کی پامردی ثابت تھی۔ موت کو اس نے مردانہ وار خوش آمدید کہا اور انتہاٸی عقیدت سے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
علامہ اقبال ؒ کا شعر ہے:

وادی عشق بسی دور و درازست ولی                        

طی شود جادۂ صد سالہ بہ آہی گاہی

یعنی بعض اوقات ایک آہ کے فاصلے پر منزل ہوتی ہے یا لمحے بھر میں سو سال کا سفر طے ہوجاتا ہے۔ یہ شعر ذہن میں آتے ہی فورا ذہن غازی علم الدین شہید ؒ کو سوچنے لگ جاتا ہے کہ اس نے صدیوں کا سفر اس تیزی اور کام یابی سے طے کیا کہ اربابِ زہد و تقوی اور اصحاب منبر و محراب بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس نے ایک قدم انار کلی روڈ کی طرف اٹھایا اور دوسرا قدم جنت الفردوس میں رکھا۔ علامہ اقبال ؒ کو جب غازی علم الدین کے بارے میں بتایا گیا کہ اکیس سال کے ایک ان پڑھ نوجوان نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے تو اقبال نے گلو گیر لہجے میں فرمایا: ”ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔“

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

غازیؒ آج میانی صاحب قبرستان میں آسودہ خاک ہیں لیکن عاشقان کے لیے نبی اکرم ﷺ کے قدموں کا دھوون آبِ حیات ہے اور غازی ؒ اسی کے طفیل زندہ و تابندہ ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں