93

عطا الحق قاسمی کی مشہور ذمانہ شگفتہ اور معلومات افزا خاکے/مزید گنجے فرشتے اقتباس/انتخاب/ام عمر

ابو الاثر حفیظ جالندھری کو میں نے پہلی مرتبہ آج سے قریباً بیس برس قبل ماڈل ٹاؤن میں واقع ان کی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں دیکھا تھا۔ میری عمر اس وقت سترہ برس تھی اور حفیظ صاحب کی عمر اس وقت بھی شاید اتنی ہی تھی کیونکہ اس وقت بھی ان کی صحت اور باتیں ہو بہو آج جیسی تھیں۔ وہ بالائی منزل پر ڈرائنگ روم کے قالین پر صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور انہوں نے جسم پر ایک سفید چادر اس طرح اوڑھی ہوئی تھی جس طرح احرام باندھا ہو۔ برابر والے صوفے پر ایک صاحب بیٹھے ان سے باتیں کر رہے تھے اور باتیں کرتے کرتے وہ بار بار زمین پر ان کے برابر بیٹھنے کے لیے اپنی جگہ سے سرکتے مگر حفیظ صاحب ان کی کلائی پکڑ لیتے۔میں اور میرا دوست حفیظ صاحب کو اس مشاعرے میں مدعو کرنا چاہتے تھے جو ماڈل ٹاؤن ہی میں ہماری قائم کردہ ادبی انجمن کے زیر اہتمام منعقد ہو رہا تھا اور جس میں شعراء کے لیے ڈنر کا انتظام ہماری انجمن کے سر پر ست پیر موتیاں والا نے اپنے ذمے لے لیا تھا اور اس کے علاوہ دیگر اخراجات کے لیے مبلغ چھتیس روپے آٹھ آنے کی خطیر رقم ہم دوستوں نے اپنے
جیب خرچ سے بچا کر جمع کر رکھی تھی جو ماڈل ٹاؤن کے ایک بینک میں جمع تھی اور جو انجمن کے صدر اور سیکرٹری کے مشتر کہ دستخطوں ہی سے” ڈرا کی جاسکتی تھی۔ میں اور میرا دوست ابوالاثر کے پاس مودب ہو کر قالین پر بیٹھ گئے۔ حفیظ صاحب نے ہمیں صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا، لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ شاہنامہ اسلام کا مصنف “ترانہ پاکستان کا خالق”، خوبصورت غزلوں اور گیتوں کا خالق زمین پر بیٹھا ہو اور ہم صوفے پر براجمان ہو جائیں چنانچہ ہم قالین پر بیٹھے بہت عقیدت اور انہماک سے حفیظ صاحب کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے اور ان کی گفتگو سنتے رہے۔
ہمارے لیے یہ ملاقات ایک خواب کی سی کیفیت رکھتی تھی کہ ہمارے سامنے اس وقت وہ شخصیت تھی جس نے بجا طور پر کہا تھا۔
“تشکیل و تکمیل فن میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں”
بہر حال جب وہ گفتگو سے فارغ ہوئے تو انہوں نے ہماری طرف توجہ کی اور شفقت سے پوچھا ” کیسے آئے ہو؟ ہم نے مدعا عرض کیا۔ انجمن کی مالی حالت بھی گوش گزار اور اپنے ذوق وشوق کا حوالہ بھی دیا تا کہ کسی طور ان کا دل پسیجے اور وہ ہمارے مشاعرے میں چلے آئیں۔حفیظ صاحب نے یہ سب کچھ سنا اور پھر کہا ” مجھے تم نو جوانوں سے بڑ ی محبت ہے۔ تم قوم کا سرمایہ ہو۔ مجھے تم سے بڑی توقعات ہیں، لیکن بیٹے میں اس روز راولپنڈی میں ہوں گا ہم نے ہمت کر کے تھوڑا سا اصرار کیا لیکن جب بالکل مایوس ہوگئے تو اں سے اجازت چاہی اس پر حفیظ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا “نہیں میں تمہیں خود سیڑھیوں تک چھوڑ کر آؤں گا۔ مجھے تم نو جوانوں سے بڑی محبت ہے۔ تم قوم کا سرمایہ ہو”اور پھر وہ ہمیں سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے اور سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی ان کے یہ کلمات ہمارے کانوں میں رس گھولتے رہے کہ “تم قوم کا سرمایہ ہو۔ مجھے تم سے بڑی تو قعات ہیں”-

بعد میں کرنا خدا کا یہ ہوا کہ میں بھی بڑا ہو گیا ، یعنی سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک جا پہنچا اور روزنامہ نوائے وقت سے وابستہ ہو گیا ۔ اس دوران میں نے حفیظ صاحب کو متعدد مشاعروں میں سنا بلکہ بہت سے مشاعروں میں ان کے ساتھ پڑھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔ نجی محفلوں میں بھی ان سے ملاقات ہوئی اور کئی بار حفیظ صاحب کوان کی ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی میں بھی ملا اور بقول ندیم ہر بار:
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں