75

عقیدہ ختم نبوت اورقادیانی فتنہ/تحریر/مولانا ڈاکٹر محمدجہان یعقوب/سلسلہ وار تحریر 2

مولانا ڈاکٹر محمد جہان یعقوب

خاتم المرسلین ﷺکے تاج وتخت ختم نبوت پرڈاکاڈالنے کی کوشش کرنے والے طالع آزماوں میں مرزاغلام احمد قادیانی ملعون بھی شامل تھا،جس نے سلطنت برطانیہ کے ایماپرجھوٹی نبوت کااعلان کیااوراسلام کے عقائدپرتیشے چلانے شروع کیے،وہ تو 1918 میں قضائے حاجت کے دوران طبی موت کاشکارہوکرنشان عبرت بن گیا،مگرحکومتی سرپرستی میں یہ فتنہ نہ صرف موجودرہا،بلکہ مسلمانوں کے ایمان پرڈاکے بھی ڈالتارہا۔
قیام پاکستان کے بعدوطن عزیزکوہائی جیک کرنے کی بھی کوشش کی گئی،بلکہ اعلی حکومتی عہدوں پر براجمان قادیانیوں نے اس ملک کواس کے اصل مقصدقیام معنی یہاں احیائے اسلام کی منزل سے دورکرنے کی بھی سعی نامشکوربرابرجاری رکھی۔اس کی ایک جھلک ان سطورمیں ملاحظہ فرمائیے:’’قادیانی منتخب ارکان نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان اور عوام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کردی ،وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی نے سات سال کے عرصہ وزارت میں پاکستان کے اندر اور باہر قادیانیوں کی جڑوں کو خوب مضبوط کیا، پاکستان کے بیرون ملک سفارت خانوں میں چن چن کر قادیانی بھیجے گئے ۔ پاکستان میں ایک نیا قادیان بسانے کے لئے ایک علیحدہ خطہ ربوہ کے نام سے الاٹ کیاگیا،یوں پاکستان کے قلب میں ایک وسیع خطہ قادیانی ریاست کے لیے مخصوص ہو گیا۔مشرقی و افریقی ممالک میں وسیع پیمانے پر مرزائی مبلغ بھیجے گئے، اورباوجوداس کے کہاگرچہ اسرائیل کی یہودی حکومت سے حکومت پاکستان کا کوئی تعلق اور رابطہ نہیں تھا ،مگر تل ابیب اور حیفہ میں مرزائیوں کے مراکزقائم کیے گئے ،یوںبرطانیہ کا خودکاشتہ پودا نہ صرف پاکستان بلکہ تمام ممالک میں ایک تن آور درخت بنتا جارہاتھا ۔ سکندر مرزا اور ایوب خاں کی غفلتوں یا چشم پوشی کی وجہ سے پاکستان کے کلیدی مناصب پرمرزائی چھا ئے ہوئے تھے۔ حکومت نے محکمہ اوقاف کے ذریعے مسلمانوں کی تمام املاک وقف ایکٹ کے تحت قبضے میں لے رکھی تھیں اور قادیانی معاشی طور پرپاکستا ن میں مضبوط ہی نہیں ہورہے تھے،مٹھی بھرمرزائی، پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگے تھے،ساتھ ہی مسلم اکثریت کے خلاف سازشوں اوربدمعاشیوں کاسلسلہ بھی جاری تھا۔‘‘(قادیانی عزائم)
غرضیکہ برصغیر ہندوپاک میں جب انگریزوں کا جبری تسلط تھا۔ اس وقت انہوں نے مرزا غلام احمد جو قادیان کا رہنے والا تھا کو اکسایا اسے مراعات و حفاظت کی شہہ دی اور اس سے نبوت کا دعوی کرا دیا۔ اس عاقبت نااندیش نے ختم نبوت کے قلعے میں نقب لگائی۔ دنیاپرست اس کے متعلقین نے اس کی لغو، نامعقول، بیہودہ ہرزہ سرائی، یادہ گوئی پر لبیک کہا اور اس کے پیروکار بننے لگے۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ مولاناسیدمحمد انورشاہ کشمیری ؒنے سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ کوامیر شریعت نامزد فرماکر ان کے ہاتھ پر بیعت فرمائی ،یوں قادیانیوں کے خلاف تحریک کا باقاعدہ اور منظم آغاز ہوا۔ مناظرہ، مباحثہ، جلسے، تحریر، تقریر تمام مروجہ طریقوں کو بروئے کار لایا جاتا رہا۔ مرزا قادیانی نے اپنے دعوے سے رجوع نہیں کیا اور اپنے رویے میں جارحانہ شدت پیدا کی اور اسے نبی نہ تسلیم کرنے والوں کو کنجریوں کی اولاد قرار دیا۔ بے شمار پیش گوئیاں بھی کیں جو متواتر غلط ثابت ہوتی رہیں۔ اپنے بے سروپا خواب بیان کرتا رہا ،جس کا عقل و خرد سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا تھا۔ بالآخر تقسیم ہند سے پہلے ہیضے میں مبتلا ہوکر مکے مدینے میں اپنے مرنے کی جھوٹی پیش گوئی کرنے والا بیت الخلا ء میںجہنم رسید ہوا۔ جھوٹا نبی تو چلا گیا لیکن اس کی ذریت نے اپنی روش اورطور طریقے نہ بدلے۔ یہاں تک کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا اور قادیانیوں کا ایک ٹولہ پاکستان آپہنچا۔ اپنے اثرورسوخ کے ذریعے سرگودھا اور چنیوٹ کے قریبی علاقے چناب نگر پر قبضہ کرکے اس جگہ کا نام ربوہ رکھ لیا اور اسے مسلمانوں کے لیے نوگوایریا بنادیا۔
پاکستان میں قادیانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں نے مجلس تحفظ ختم نبوت کے نام سے جماعت قائم کی، جس کے پہلے امیر،امیرشریعت علامہ سید عطا اللہ شاہ بخاریؒ بنے۔ پرامن طریقے سے جدوجہد چلتی رہی جس کا محور قانونی طور پر قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دلوانا رہا(مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی ماننے والوں کو قادیانی اور مجدد اور مصلح ماننے والوں کو لاہوری کہا جاتا ہے جن کا پہلا سربراہ محمد علی لاہوری تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں