77

علامہ اقبالؒ اور عشقٍ رسولﷺ/تحریر/ رفیع صحراٸی منڈی احمد آباد۔ تحصیل دیپالپور۔

علامہ اقبالؒ کی تعلیم و تربیت ایسے اسلامی اور دینی ماحول میں ہوٸی تھی کہ نبٸیٍ مکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی محبت ان کی شریانوں میں خون بن کر گردش کرتی تھی۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میری محبت تمہارے دل میں تمہاری اولاد، والدین اور پورے انسانی کنبے کی محبت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس حدیث کے واضح مفہوم پر ایمان رکھتے ہوۓ علامہ اقبال حُبٍ نبوی اور عشقٍ رسولﷺ کو ایمان کی بنیاد اور اساس تصور کرتے تھے۔ کی محمّد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیںیہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیںآپﷺ کا نام مبارک زبان پر آتے ہی یا کانوں میں پڑتے ہی اقبال کے احساس و شعور میں سوزو گداز کی برقی لہر دوڑ جاتی اور پُرنم آنکھوں میں آنسوٶں کی جھڑی لگ جاتی۔ ذکرٍ حبیبﷺ لکھتے وقت قلم چلتا تو روح پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔وہ داناۓ سبُل، ختم الرّسُل، مولاۓ کُل جس نےغبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادٸِ سینانگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخروہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یاسیں، وہی طٰہٰیوں تو علامہ اقبالؒ کا سارا کلام عشق و مستی میں ڈوبا ہوا ہے مگر جو ذوق و شوق اور وجد آفرینی ان کی نعت ”ذوق و شوق“ میں موجود ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ حضورﷺ کی مدح سراٸی کا کیا خوب صورت انداز ہےلوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتابگنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حبابعالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغذرہِ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتابشوق اگر تیرا نہ ہو میری نماز کا اماممیرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجابعلامہ اقبالؒ کارزارِ حیات میں عشق اور محبت کی تاثیر کے قاٸل تھے۔ عشق ہی آدابِ خود آگاہی سکھاتا ہے، اسی سے خودی کو استحکام ملتا ہے اور ہر عمل کو عشق ہی دوام بخشتا ہے۔ عشق سے ہی زندگی کو آب و تاب ملتی ہے اور اسی سے ہی زندگی کی تاریک راہیں روشن ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال عشق کی تاثیر اور پاکیزگی کے حوالے سے کہتے ہیں۔عشق دمِ جبراٸیل عشق دلِ مصطفٰیعشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلامعلامہ اقبال کا دل عشقِ رسول سے معمور تھا۔ عشقِ نبویﷺ کی روشنی سے ان کے دل کی پوری کاٸنات منوّر تھی۔ ذاتِ رسالت مآبﷺ کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشمِ نمناک اور دیدہِ تر سے ہوتا تھا۔ کہ جہاں کسی نے ان کے سامنے حضورﷺکا نام لیا ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہو گٸی اور آنکھوں سے بے اختیار سیلِ رواں جاری ہو گیا۔ آپﷺ کا نام آتے ہی یا ذکر چھڑتے ہی اقبالؒ بے قابو ہو جاتے تھے۔ اقبال کی شاعری کا خلاصہ، جوہر یا لُبِ لباب عشقِ رسولﷺ اور اطاعتِ رسولﷺ ہے۔علامہ اقبالؒ نے عشقِ رسول کا اظہار اپنی شاعری میں بہت سے مقامات پر کیا ہے۔ اپنی اردو شاعری میں انہوں نے حضور اکرمﷺ کو بہت سے ناموں سے یاد کر کر کے اپنی والہانہ عقیدت اور چاہت کا اظہار کیا ہے۔ چند اسماۓ مبارک ملاحظہ ہوں۔ مُحَمَّد، احمد، رسولِ عربی، رسولِ ہاشمی، داناۓ سبُل، ختم الرّسل، مولاۓ کُل، مولاۓ یثرب، قرآں، فُرقاں، یاسیں، طٰہٰ، مدفونِ یثرب، میرِ عرب، بدرو حنین کے سردار، نبٸیِ مرسل، شہِ یثرب، رسولِ امیں، رسولِ مختار، نبٸیِ عفت، حضور رسالت مآب، رحمتہ اللعالمین، صاحبِ مازاغ، حضورسرورِ عالم، رفعت شان، ورفعنا لک ذکرک۔ ان کےعلاوہ بھی بہت سے اسما ٕ ہیں جنہیں اقبالؒ نے اپنی شاعری میں استعمال کر کے عقیدت کے پھول بحضور سرورِ کونین ، محمدِ مصطفٰی، احمدِ مجتبٰیﷺ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ان اسما ٕ اور القاب مبارکہ کے استعمال سے جہاں علامہ اقبالؒ کی شاعری کے حُسن میں اضافہ ہوا ہے وہاں علامہ اقبال کی حضور ﷺ سے عقیدت و محبت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ حضورﷺ کے اسم مبارک مُحَمَّد کا استعمال دیکھیں۔ قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دےدہر میں اسمِ مُحَمَّد سے اجالا کر دےوہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذراروحِ مُحَمَّد اس کے بدن سے نکال دوعلامہ اقبالؒ کا یہ شعر تو زبانِ زدِ عام ہےکی مُحَمَّد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیںیہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیںعلامہ اقبال نے یورپ میں ایک طویل عرصہ گزارا۔ وہاں قدم قدم پر بہکنے اور صراطِ مستقیم سے ہٹنے کے تمام تر لوازمات اپنی پوری چمک دمک کے ساتھ موجود تھے۔ مگر یہ عشقِ نبیﷺ کا فیض ہی تھا کہ اقبالؒ نہ تو دینِ محمدی سے منحرف ہوۓ اور نہ ہی افرنگی جلووں کی چکاچوند انہیں متاثر کر سکی۔ ان کی اقدار اور افکار میں ذرا بھر بھی تبدیلی نہ آٸی۔ اسی لٸے جب وہ یورپ سے لوٹے تو پہلے ہی کی طرح عشقِ رسول سے سرشار تھے۔ خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگسرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں