وہ مجھ سے دور ہوتا جا رہا ہے
بہت مغرور ہوتا جا رہا ہے
وہ خود کشتی جلا کر واپسی کی
بہت مجبور ہوتا جا رہا ہے
سجا کے چہرے پر ایک اور چہرہ
لو اب مشہور ہوتا جا رہا ہے
حنا کے رنگ کی مانند پھیکا
میرا سندور ہوتا جا رہا ہے
شجر کی چھاؤں کو بھی دھوپ کہنا
غزل دستور ہوتا جا رہا ہے
94