115

فاتح بیت المقدس /تحریر/عبدالروف ملک آف کمالیہ

‏حضرت عمر فاروق مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ اور نبی مکرمﷺ کےنہایت قریبی ساتھی تھے۔ اسلام میں آپکی شمولیت سے اسلام کی قوت اور طاقت میں اضافہ ہوا۔ آپکے اسلام لانے کے بعد مکہ میں چھپ کر عبادت کرنے والے مسلمان علی الاعلان بیت اللہ شریف میں نماز ادا کرنے لگے تھے۔ آپ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر آپ نے کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا کہ میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کا ساتھ دیا آپ کفر و شرک کے معاملے میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ آپکے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح ہوئے اور انبیائے کرام کی سرزمین قبلۂ اول بیت المقدس بھی آپکے دور خلافت میں ہی فتح ہوا۔ فتح بیت المقدس کے حوالے سے انکی سادگی اور زُہد و تقویٰ کا ایک واقعہ تاریخی اوراق کی زینت بنا ہے کہ جب مسلمان جرنیل حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں سے بیت المقدس کی چابیاں طلب کیں تو ان کے راہبوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہٰذا ہم چابیاں آپکے حوالے نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی حضرت عمرؓ نے خود آنے کا فیصلہ کیا اور لوگ آپ کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ جس دن آپ نے شہر میں داخل ہونا تھا اس دن صبح سویرے لوگ آپ کے استقبال کیلئے شہر کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ دور سے جب گردوغبار اڑتا ہوا محسوس ہوا تو خلیفہ وقت کی آمد کا اعلان ہوا لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹنی کی مہار تھامے پیدل چلا آرہا ہے جبکہ دوسرا شخص اس اونٹنی پر سوار ہے۔ پیدل چلنے والے کے جسم پر جو پوشاک تھی اس پر چودہ پیوند لگے تھے اس نے کیچڑ میں چلنے میں دشواری کی وجہ سے جوتے ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اونٹنی کو کھینچتا آرہا تھا۔ عیسائیوں نے پوچھا کہ ان میں سے عمر کون ہے؟ کیا وہ جو اونٹنی پر سوار ہے؟ جواب ملا نہیں۔ ” اونٹنی پر سوار تو کوئی خادم ہے عمر تو وہ ہے جو پیدل چلا آرہا ہے” جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ غلام اونٹنی پر سوار کیوں تھا؟ جواب ملا کہ سفر طویل تھا ہمارے پاس صرف ایک اونٹنی تھی اور ایک وقت میں سامان کے ساتھ صرف ایک آدمی ہی بیٹھ سکتا تھا۔ طے ہوا کہ ایک منزل ایک مسافر اونٹنی پر سوار ہوگا اور دوسری منزل دوسرا مسافر اتفاق سے جب سرزمین بیت المقدس میں داخل ہونے لگے تو اونٹنی پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی اس نے کہا بھی کہ وہ پیدل چل لے گا لیکن میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا۔ یہ تھے جناب عمر رضی اللہ عنہ جو بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلے رقبے کے حکمران تھے جن کا طرزِ زندگی اور انصاف پسندی پروٹوکول کلچر اور نام نہاد جدید ترقی اور تہذیب کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں