71

فتح قسطنطنیہ،نوجوان سلطان محمد ثانی کی قیادت اور بہترین حکمت عملی/تحریر/حافظ بلال بشیر

امت مسلمہ کی تاریخ میں کئی ایسے نوجوان رہ نما ، لیڈر گذرے ہیں۔ جنہوں نے نا ممکن کو ممکن بنایا اور تاریخ کے اوراق میں روشن کردار کی طرح ہمیشہ کے لیے چمکتے ہیں ۔ ان ہیروز میں سے ایک عثمانی سلطنت کے بے تاج بادشاہ سلطان محمد ثانی بھی ہیں۔ سلطان محمد ثانی کو سلطان محمد فاتح بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ انہوں نے اس تاریخی شہر کو فتح کیا تھا، جس کی خوش خبری صدیوں پہلے تاجدار کائنات آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے دی تھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی تاجدار کائنات آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی اس مبارک حدیث پاک کو پورا کرنے اور اس عظیم فتح کو حاصل کرنے کے لیے مختلف ادوار میں معرکے ہوتے رہے۔ لیکن یہ فتح ایک نو جوان سلطان کا مقدر تھی جو ارادہ پختگی، عزم و ہمت، جرات و بہادری اور استقلال کا پہاڑ تھا۔
مسلم امہ کے نوجوانوں کے لیے سلطان محمد فاتح کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ موجودہ دور میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ ایک گیارہ سال کا نوجوان بچہ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھا اور مسلمانوں کا سپاہی بھی اور ایک صوبے کا گورنر بھی، یہ مسلمانوں کا وہ عظیم الشان دور تھا کہ بچہ جب پیدا ہوتا تھا تو اس کی ثقافت، نظریہ اس کو منتقل کرنا شروع کر دیا جاتا تھا۔ جب بچہ بولتا تھا تو وہ اپنی ثقافت اور نظریات کا علمبردار بن کر بولتا تھا، اُس دور میں امت مسلمہ کے نوجوانوں کو اسلام سے خصوصی محبت تھی، یہ محبت عقیدت کی جھیل میں جنم لیتی تھی اور اسلامی تعلیمات و تصوف کے پالنے میں پلتی تھی اور یہ جب جوان ہوتے تھے تو یہ زندگی کے ہر لمحے کو اس محبت کی تصویر میں سمونے میں لگ جاتے تھے۔
سلطان محمد فاتح کی عمر اس وقت صرف گیارہ برس تھی جب ان کے والد سلطان مراد نے اُن کو اماسیا ریاست میں گورنر اور سپہ سالار بنا کر بھیجا، محمد جب 19 برس کے ہوئے تو خلافت عثمانیہ کا تخت سنبھالا اس وقت قسطنطنیہ کا بادشاہ قسطنطین تھا۔ قسطنطنیہ یعنی آج کا استنبول ایک نہایت اہم شہر تها۔ بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ شہر پر کم از کم 24 دفعہ حملہ ہوا۔ سب سے آخری حملہ مسلمانوں کے عظیم الشان سپہ سالار سلطان محمد فاتح نے کیا اور اس نے ہی یہ فتح حاصل کی۔ سلطان نے 21 سال کی عمر میں استنبول جیسا ناقابل تسخیر شہر فتح کر کے تاریخ کو بھی حیران کر دیا تھا، نوجوان سلطان نے دنیا کی عسکری تاریخ میں پہلی بار بحری جہاز پہاڑ پر چڑھا دیے اور پہاڑ سے سرکا کر دوبارہ سمندر میں اتار دیے، یہ 1453ء کے شروع میں استنبول پہنچا تو استنبول کے شہریوں نے حسب معمول گولڈن ہارن کے دھانے پر آہنی زنجیر چڑھا دی اور باسفورس میں مسالہ ڈال کر سمندر کو ” آگ، ، لگا دی، سلطان کے ساتھ 80 ہزار فوجی تھے، سلطان نے فوجیوں کو حکم دیا، یہ استنبول کے ایشیائی ساحلوں پر اتریں، پہاڑوں پر چڑھیں، جنگل کاٹیں، پہاڑ کی ڈھلوانوں پر تختے لگائیں، ان تختوں پر جانوروں کی چربی ملیں اور جب یہ کام مکمل ہو جائے تو واپس آ کر سلطان کو اطلاع دیں، استنبول سات پہاڑیوں پر پھیلا ہوا شہر ہے، یہ شہر 1453ء تک صرف یورپی سائیڈ کی پہاڑیوں تک محدود تھا جب کہ ایشیائی پہاڑیوں نے اس وقت گہرے جنگلوں کا لباس پہن رکھا تھا، سلطان کے حکم پر جنگل کاٹا گیا۔ درختوں کے تنے کاٹ کر تختے بنائے گئے، یہ تختے پہاڑ کی چوٹی تک نصب کر دیے گئے، سلطان محمد فاتح نے مشاہدہ کیا اور یہ تختے اب پہاڑ کی دوسری طرف گولڈن ہارن تک لگانے کا حکم دے دیا، اس حکم کی تعمیل بھی ہوئی، سلطان نے تختوں پر جانوروں کی چربی لگوائی اور اس کے بعد حکم دیا بحری جہازوں کو پہاڑ تک لایا جائے پھر انھیں رسوں سے باندھ کر کھینچا جائے، پہاڑ کی چوٹی تک لایا جائے اور بعد ازاں انھیں رسوں کے ساتھ باندھ کر پہاڑ کی دوسری سمت سمندر میں اتار دیا جائے اور یہ کام صرف ایک رات میں مکمل ہونا چاہیے، سلطان کے اس عجیب و غریب حکم کی تعمیل بھی ہوئی، قسطنطنیہ کے شہری مزے سے سوتے رہے اور ترک فوج اپنے جہاز پہاڑ پر چڑھا کر گولڈن ہارن میں اتارتی رہی، اگلی صبح قسطنطنیہ کے عوام کی آنکھ کھلی تو وہ گولڈن ہارن میں ترکوں کے جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے، یہ عزم کی جادوگری تھی اور یہ جادوگری نہ صرف استنبول کی فتح کا باعث بنی بلکہ اس نے اسلامی سلطنت آسٹریا کی دیواروں تک پھیلا دی۔ یوں20 جمادی الاولی 29 مئی 1453ء کو یہ شہر سلطان محمد نے فتح کر دکھایا تھا۔ اور نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث پاک کا مصداق ٹھرا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی اپنا سر اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں شکرانے کے طور پر جھکا دیا۔ سلطان محمد وہ نوجوان تھا جس کو اللّٰہ کے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے سینکڑوں سال پہلے ہی باکمال اور بہترین قرار دے دیا تھا۔
سلطان کی فتح قسطنطنیہ میں کئی راز اور حکمتیں ہیں مثال کے طور پر شہر قسطنطنیہ کی اونچی فصیلیں ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دیواروں نے کل 21 محاصروں میں شہر کی دشمنوں سے حفاظت کی تھی۔ سلطان نے ان دیواروں پر کامیاب حملے کے لیے خصوصی توپیں تیار کروائیں اور اس کے لیے ایک عیسائی انجینئر کی خدمات حاصل کیں۔ یوں انہوں نے ہمیں علم و صلاحیت کی قدر اور حکمت جہاں کہیں ہو اس سے استفادے کا عملی سبق دیا، اس کے علاوہ طویل منصوبہ بندی ، کئی محاذوں پر صلح اور رشتہ داریاں قائم کرکے انہیں محفوظ بنانا، کچھ فوجوں کو ایسے چنندہ علاقوں اور شاہراہوں پر مامور کیا جہاں سے وہ قسطنطنیہ کی مدد کو آنے والے عساکر، رسد اور دیگر امداد کا راستہ روک سکیں، آبنائے باسفورس کی نقل و حرکت پر عملاً اپنا تسلط قائم کرنا، ان تمام اقدامات کے ذریعہ سلطان محمد فاتح نے ہمیں توکل کے معنی سمجھائے اور بتایا کہ ایک طویل اور صبر آزما مہم درپیش ہو تو اس کی ہمہ پہلو منصوبہ بندی کیسے کی جاتی ہے۔
فتح قسطنطنیہ کے وقت سلطان محمد فاتحؒ کی عمر محض 23 سال تھی۔ جوانی کی اس عمر میں سلطنت کو سنبھالا دینا، دقیقہ رسی اور باریک بینی کے ساتھ منصوبہ بنانا اور اس پر عمل درآمد کرانا، نامساعد حالات سے نہ گھبرانا بلکہ نئی نئی راہیں نکالنا، بازنطینی سلطنت سے لوہا لینا اور اسے شکست فاش دے دینا سلطان کا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ ان کی پوری زندگی اس بات کی عملی شہادت ہے کہ بڑے کارناموں کا تعلق بڑی عمر سے نہیں بلکہ بڑے عزائم سے ہوتا ہے۔ مسلم امہ کے نوجوانوں کے لیے سلطان محمد فاتح جیسی کئی مثالیں موجود ہیں, کاش! ہمارے معاشرے کے نوجوان ایسے واقعات سے سبق حاصل کریں کہ ہم بھی انہی باہمت، مرد مجاہد اور اسلام کے علمبرداروں کے ہم عمر اور نام لیوا ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی حالت تو یہ ہے کہ اپنی تاریخ بھی نہیں جانتے۔ اور نہ ہی کبھی مطالعہ کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھئیے! زندہ قومیں اپنی تاریخ یاد رکھتی ہیں قوموں کی تاریخ ان کے مستقبل کی راز داں ہوتی ہے۔ سلطان محمد فاتح جیسے نوجوان دنیا میں کامیابی و کامرانی حاصل کرتے ہیں اور کل اللّٰہ پاک کی بارگاہ میں سرخرو اٹھائے جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں