فرحت عباس شاہ کا نام سامنے آتے ہی ان کی مشہور زمانہ غزل شام کے بعد آنکھوں میں اتر آتی ہے یہ غزل اپنے دور میں مقبول ترین غزلوں میں سے ایک سمجھی جاتی رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب شاعری کو نکھارنے والے ابھی کمرشل ازم کا شکار نہیں ہوئے تھے اور ابھی ندیم و فراز کا بت برقرار تھا۔ منیر نیازی اور پروین شاکر جیسے قد آور شعراء موجود تھے ادبی رنجشیں تو ہمیشہ ہی رہتی ہیں لیکن بات گالی گلوچ تک ابھی نہیں پہنچی تھی یہ وہ دور تھا جس میں ادب کو نکھارنے کا جذبہ کبھی کبھار رنجشوں کو دوستی میں ڈھال دیتا تو کبھی کبھی کھلے دل سے اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں بھی تسلیم کی جاتی تھیں ۔ ظفر اقبال، عبید اللہ علیم، منیر نیازی، احمد فراز اور جون ایلیا جیسے بڑے شعراء میں فرحت عباس شاہ ایک نئی آواز تھے لیکن حیرت انگیز طور پر فرحت عباس شاہ نے شاعری کو کبھی بھی اولین ترجیح نہیں دی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ہی وقت میں کئی کاموں کی طرف متوجہ رہے ۔ وقت کے دھارے میں وہ مقبول ہوتے گئے لیکن اس مقبولیت کا تعلق ان کی شاعری کی بجائے ان کی فنکارانہ صلاحیتوں سے زیادہ تھا۔ ان کی غزل شام کے بعد نہ تو ان کا کوئی شعر زبانِ زد عام ہوا اور نہ ہی کوئی غزل وہ رنگ جما سکی جس کی داد اہلِ ہنر انہیں ہاتھ جوڑ جوڑ کر دیتے۔ اسی دوران فرحت عباس شاہ نے ریڈیو اور ٹی وی سے ناطہ جوڑا تو ان کی شخصیت میں سب سے بڑا بدلاؤ ان کے رویے نے پیدا کیا جہاں وہ ہر قسم کے کرداروں کے لیے میدان میں اترنے کے لیے تیار بیٹھے تھے ۔ یہ کردار اس سے پہلے کسی شاعر یا ادیب نے ادا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا۔ کیوں کہ شعراء کی حساسیت انہیں عمومی طور اس راستے سے دور رکھتی ہے جہاں پر ان کی شاعری کو جز وقتی خیال کیا جاتا ہو۔ لیکن یہ بات فرحت عباس شاہ پر صادق نہیں آتی۔اسی دوران وہ ایک مقبول مزاحیہ پروگرام کا حصہ بنے تو ادبی حلقوں میں ان کی قبولیت نہ صرف کم ہوتی گئی بلکہ ان کے اس فیصلے پر کئی سوالات بھی اٹھنے لگے بعض افراد نے ان کو جھوٹی شہرت کا خواہاں خیال کیا اور بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شاعر فرحت عباس شاہ اب دوبارہ شعری مقام حاصل نہ کر پائے گا ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شہرت اور حاصل کی جستجو نے انہیں ادبی کھیل سے باہر کردیا۔ ان کے ہم عصر شعراء آہستہ آہستہ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے فراز و ندیم کی جگہ پُر کرنے کے لیے پر تولنے لگے۔ اور بعض شعراء نے تو ان کی جانشینی کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا ۔شاہ صاحب کے دماغ میں جس خوش فہمی نے پہلی نفسیاتی گرہ ڈالی وہ یہ تھی کہ ان کا قد کاٹھ ایسا ہے کہ وہ ادب اور بیک وقت ٹی وی کے مقبول ترین فرد ہیں اور ان کا کہا ہوا لوگ پسند بھی کرتے ہیں اور داد بھی دیتے ہیں لیکن یہ محض ان کی غلط فہمی تھی ۔ یہی سے انہوں نے ایک پرینک سٹار کے طور پر خود کو ادبی سیڑھیوں سے گرانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس خود پسندی اور غلط فہمی نے جہاں انہیں ادیبوں اور شعراء سے دور کیا وہیں پر عام افراد ان کو ایک پرینک سٹار کے طور جاننے لگے۔ ان کے روپ بہروپ اس بات کی دلیل تھے کہ وہ شاعری کو جز وقتی حثیت دیتے ہیں اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں خود ہی دوسروں کے لیے میدان خالی چھوڑ دیا۔ اس پہلی نفسیاتی گرہ نے فرحت عباس شاہ کو خود پسند بنا دیا۔ پگڑیاں اچھالنا اور گرانا اب ان کے دائیں ہاتھ کا کمال بن گیا۔ رہی سہی کسر انہوں نے یوٹیوب کا ایک چینل بنا کر پوری کردی جہاں پر وہ اپنے ایک من پسند شاگرد کے ساتھ لوگوں کو بے عزت کیا کرتے تھے اور اس کو روسٹ کرنا کہتے تھے انہوں نے سب سے پہلے ان افراد کو تلاش کیا جنہوں نے ماضی میں کبھی ان سے کوئی ذیادتی کی تھی یا پھر شاہ صاحب کے خیال میں وہ کسی جرم کے مرتکب ہوئے تھے اس کے بعد رکیک جملے اور بازاری زبان میں اس فرد کو زچ کرنے کا وہ طریق اختیار کیا جس کی کسی بھی شریف النفس انسان سے توقع نہیں کی جاسکتی ۔ یہ ان کی نفسیاتی زوال پسندی کی دوسری گرہ تھی جس نے انہیں یہ احساس دلایا کہ کسی کو بھی الفاظ کے دھوبی پٹکے سے زمین بوس کیا جاسکتا ہے۔ کسی کی بھی عزت اتار کر بعد میں معافی مانگ لینا بہت آسان کام ہے۔اس دوران شعراء کے وہ گروہ جو کسی بھی طریق سے شاعری کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے ان کا نام گونجے لگا۔ کمرشل ازم کا عروج نمایاں ہونے لگا۔ سوشل میڈیا پر پڑھی جانے والی غزلیں دل و دماغ میں گونجنے لگیں ۔ وہ شعراء جن کو لونڈے لپاڑے کہا جاتا تھا وہ یکدم عوامی مقبولیت کا استعارہ بن گئے ۔ فراز و ندیم کا دور گزر چکا تھا۔ ادب و آداب کے قصے ماضی کی تہذیب میں دفن ہوچکے تھے اور جدید شاعری کے نام پر ہلڑ بازوں کا ہجوم میرج ہالوں میں مشاعروں کے زریعے چھتوں تک پہنچنے اور گونجے والے نعروں سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ایسے میں فرحت عباس شاہ کہاں تھے؟ فراز و ندیم کی گدی کا فرزند(بزعم خود) کیا کر رہا تھا؟ اس وقت فرحت عباس شاہ اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا چرچا اپنی ہی زبان سے کر رہا تھا۔ لوگ انگشت بدنداں تھے کہ ماضی کے شاندار شاعر کو آخر ہوا کیا ہے؟ جو وہ کسی ایک روپ پر قناعت ہی نہیں کر رہا۔ لیکن فرحت عباس شاہ کی یہی تیسری نفسیاتی گرہ تھی جو وہ کسی ایک مقام پر رکنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ زمانے کو نیچا دکھانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھا لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا جب ایک فرد لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کردے تو لوگوں کا اس فرد کے بارے میں اچھائی کا نظریہ برقرار رہتا ہے؟ فرحت عباس شاہ بھی اسی خود پسندی کا شکار رہے کہ وہ شاعر تو بہت بڑے ہیں اور اب بھیس بدل کر پرینک بھی کرتے ہیں تو لوگ ان کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ فرحت عباس شاہ کی چوتھی نفسیاتی گرہ عوامی رائے کو ہمیشہ اپنے حق میں خیال کرنا قرار دی جاسکتی ہے۔ نئے شعراء کے آنے کے بعد سوشل میڈیا اس تیز بارش کا منظر نامہ پیش کرنے لگا جس میں ٹر ٹر کی آواز ہر طرف سنائی دیتی ہے۔ ادب سے لگاؤ رکھنے والوں کا جمِ غفیر بھی سوشل میڈیا پر دکھائی دینے لگا تو شوقین کھلاڑی بھی یہی کھیلتے دکھائی دیے۔ اسی اثناء میں فرحت عباس شاہ کے ایک ہم عصر شاعر جن کو وہ چور شاعر کا خطاب دیتے ہیں مشاعروں اور محفلوں کی جان بننے لگے۔ اس ہم عصر شاعر کا قد کاٹھ نمایاں ہونے لگا اور وہ نوجوان نسل جنہیں ان کا صرف ایک شعر جو ماں کی نسبت سے یاد تھا اب ان کے تازہ اشعار سن کر ان کا نام جپنے لگی ۔ نوجوان نسل کو اس دوران کمرشل شعراء کا بھی چسکا لگ چکا تھا۔ کمرشل شعراء اور فرحت عباس شاہ کے ہم عصر شاعر عباس تابش اکٹھے ہوکر دھمال مچانا شروع ہوگئے ۔ اور یہی سے ادبی ملاکھڑا شروع ہوگیا جس میں ایک طرف فرحت عباس شاہ اور دوسری طرف عوامی اور حکومتی محبتوں سے نوازے شعراء کے گروہ اپنے اپنے ادبی مورچوں کا دفاع کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے ۔
