اس سے بڑھ کر کسی شاعر کے لیے تکلیف دہ بات کی ہوگی کہ اس نے 60 سے زائد شعری مجموعے لکھے ہوں اور نوجوان نسل کو اس شاعر کا کوئی ایک بھی شعر نہ آتا ہو کسی واٹس ایپ سٹیٹس پر یا کسی بیعت بازی کے مقابلے میں اس شاعر کا ذکر تک نہ آتا ہو۔ سکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کرام جب طلباء و طالبات سے اشعار سنتے ہیں تو %90 اشعار نئے شعراء کے سنائے جاتے ہیں اور باقی دس فیصد اقبال، غالب ،فیض اور فراز کے حصے میں آتے ہیں اب اس سے بڑا المیہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شاعر خود کو میر اور غالب کا جانشین سمجھتا ہو اور نئی نسل کو اس کے نام سے آگاہی تک نہ ہو۔ حقیقت میں فرحت عباس شاہ کے ساتھ یہی سب کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے نئی نسل ان کی بجائے تہذیب حافی، علی زریون، عمار اقبال، افتخار راکب، عمیر نجمی،افکار علوی اور عباس تابش کے اشعار کو نہ صرف یاد کر رہی ہے بلکہ واٹس ایپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کے دوسرے زرائع پر ان شعراء کے اشعار کا شور و غوغا بھی ہے ۔ان نئے شعراء میں عباس تابش کا نام نہ صرف حیران کن طور پر موجود ہے بلکہ ان کی شعر فہمی کو نئی نسل نئے زاویے سے پرکھنے کی کوشش بھی کر رہی ہے عباس تابش نے خود کو زمانے کے ساتھ باندھے رکھا ہے جس کی وجہ سے وہ پرانے ہو کر بھی نئے لگتے ہیں۔ مشاعروں میں وہ منظر یقینًا فرحت عباس شاہ کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہوگا جب وہ جدید شعراء کو عباس تابش کی صدرات میں شعر پڑھتے دیکھتے ہوں گے۔ 90 کی دہائی کے مستند شعراء کے جب نام لیے جاتے ہیں تو احمد فراز، محسن نقوی، امجد اسلام امجد اور جون ایلیا کو قدیم و جدید میں یکساں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جون ایلیا جو اپنے دور میں دریافت نہ ہوسکے وہ جدید عہد میں غالب کے بعد سب سے زیادہ پڑھے اورسنے جانے والے شعراء میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری کو نئی نسل نہ صرف پسند کرتی ہے بلکہ ان کا نام بھی انتہائی ادب و احترام سے لیتی ہے۔ لیکن شعراء کا ایک بہت بڑا طبقہ جون ایلیا کی بڑھتی مقبولیت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے یہاں تک کہ وہ نسبتاً قدیم اور جدید شاعر جو اپنی ایک دو غزلوں کا خزانہ سینوں سے لگائے بیٹھے ہیں اور خود کو غالب سے رتی بھرکم نہیں سمجھتے وہ بھی جون ایلیا کی بڑھتی مقبولیت سے خائف نظر آتے ہیں۔ اور ان شعراء میں فرحت عباس شاہ بھی شامل ہیں کیونکہ انہیں یہ لگتا ہے کہ جون ایلیا اتنے بڑے شاعر نہیں ہیں جتنی ان کی شہرت ہوچکی ہے۔ اب فرحت عباس شاہ کو یہ بات کون بتائے کہ اگر زیادہ اور کثیر تعداد میں لکھنے سے مقبولیت ملتی تو وہ خود اب تک شیکسپئر اور جان کیٹس کو اپنے 60 شعری مجموعوں سے شکستِ فاش دے چکے ہوتے جبکہ جون ایلیا تو اس دوڑ میں دور دور تک دکھائی نہ دیتے لیکن عوامی سند زیادہ لکھنے کی بجائے دل کو لگنے پر انحصار کرتی ہے۔ جون ایلیا تو دنیا میں نہ رہے لیکن ان کا شعر خود کو منوا رہا ہے اور نئے شعراء نے جون ایلیا سے ہی یہ سبق سیکھا کہ ادبی طور پر زندہ رہنے کے لیے صرف شعری کاریگری ہی کافی نہیں ہے۔جدید شعراء نے شاعری میں جو بازی گری متعارف کروائی وہ اصل میں زمانے کے مزاج کو بدلنے اور نئی نسل کو ایک نیا شعری رنگ دکھانے کی کوشش ہے۔اس بحث سے قطع نظر کہ حافی و زریون کے گروہ نے ادب کو کیا دیا یہ تو ماننا پڑے گا انہوں نے شعر کو مقبول کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کیا جس سے شعری اثر روز بروز بڑھ رہا ہے اور کمرشل ازم کی وجہ سے ادب کی طرف لوگ زیادہ متوجہ ہورہے ہیں ۔ ان شعراء نے نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے جو طریق اختیار کیے وہ خاصے کامیاب رہے اسی لیے نئی نسل شعر کی اہمیت بے شک نہ سمجھتی ہو مگر فیشن اور ذہنی چگالی کے لیے شعر کا استعمال کرنا خوب جانتی ہے۔ ان ہی جدید شعراء کا ایک کارنامہ مشاعروں کو نئی زندگی عطا کرنا بھی ہے جس میں وقت کے ساتھ پیسے کی چمک دمک بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ حکومتی عہدے اور دلکش نوکریاں بھی شعراء کی لالچ کو بڑھاتی ہیں اور وہ شاعر جو کسی سرکاری عہدے پر براجمان ہوجائے تو اپنے لیے آسائشوں کے ساتھ لاکھوں دشمن بھی پیدا کر لیتا ہے۔ فرحت عباس شاہ نے ایک لمبے عرصے تک خود کو وہاں مصروف رکھا جہاں سے ان کے رزق کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور شہرت بھی حاصل ہوتی رہی۔ لیکن اس دوران حالات تبدیل ہوتے گئے اور ہر دوسرا نوجوان پرینک سٹار بننے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگا روڈ شو اور مزاحیہ پروگراموں کی بھرمار ہونے لگی ٹی وی چینلوں پر آفتاب اقبال کا لگایا ہوا مزاح کا پودا تنا آور درخت کا روپ دھارنے لگا ہر چینل پر اسٹیج کے فنکاروں کی مانگ بڑھنے لگی اور فرحت عباس شاہ جو شاعری کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار ہارمونیم پکڑ لیتے تھے یا مزاحیہ اداکاری کرنے کی کوشش کرتے تھے ان کو اپنی جگہ ٹی وی پر کم ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی یہاں تک کہ ان کی نگاہ میں وہ سرکاری ادبی عہدے جن پر بیٹھ کر انہیں احکامات صادر کرنے چاہیے تھے اب وہاں بھی امجد اسلام امجد اور افتخار عارف کا بھوت دن رات انہیں ڈرانے لگا۔ افتخار عارف سے فرحت عباس شاہ کو شعری مخالفت سے زیادہ اس نوکری کا گلہ ہے جس پر وہ اپنا حق زیادہ سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فرحت عباس شاہ حیران ہو کر اس نئے منظر نامے کو دیکھتے رہے جہاں پر ان کا نام دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ مشاعروں میں ان کا نام اس لیے شامل نہیں کیا جاتا کہ لوگوں کو ان سے دشمنی ہے جبکہ اب مشاعروں میں سینما کی طرح ٹکٹ کا انتظام ہوچکا ہے لوگ پیسے دے کر شعراء کو دیکھنے اورسننے آتے ہیں منتظمین ہمیشہ ان شعراء کو فہرست میں رکھتے ہیں جو بِکتے ہیں حالانکہ وہ کچھ بھی بَک جائیں عمومی طور پر بِک جاتے ہیں۔ اب فرحت عباس شاہ کو منتظمین سے یہی گلہ پیدا ہونا شروع ہوگیا کہ وہ ان کا نام مشاعروں میں شامل کیوں نہیں کرتے۔ جب کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شرط اور جوا ہمیشہ بھاگنے والے گھوڑے پر لگتا ہے۔ سست اور کاہل گھوڑوں پر کبھی بھی ٹکٹ نہیں لگتی اور یہاں سے ہی فرحت عباس شاہ کی پانچویں نفسیاتی گرہ نے انہیں مشہور شعراء کا دشمن بنا دیا ۔ان کی نظر میں جون ایلیا سے عباس تابش تک سب بےکار اور ان سے کمتر شاعر ہیں کیونکہ وہ ہی شعری ریس کے اصلی اور جینوئن شاعر ہیں ۔ یہ نفسیاتی گرہ اتنی مضبوطی سے ان کے ذہن کو جکڑ چکی ہے کہ اب وہ ادبی مخالفت کو اپنی ذاتی دشمنی سے تعبیر کرنا شروع ہوگئے ہیں ۔ فرحت عباس شاہ جو جوڈو کراٹے کے بہترین کھلاڑی تھے اب انہوں نے اپنی ذاتی تنقید سے شعراء پر لاتوں اور مکوں کی بارش کردی ۔ جس سے کسی شاعر کو تو ادبی چوٹ نہیں پہنچی لیکن شاہ صاحب کی ذہنی کیفیت کھل کر سامنے آگئی ۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل