قدرت نے انسان کو اسرار فطرت کا امین بنایا ہے۔ اسے ناممکنات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کی ہمت بخشی ہے، چاند سورج ستاروں کی بلندیوں اور زمین، کوہ وصحرا کی وسعتوں کو اس کے قدموں میں ڈال دیا ہے تا کہ یہ اس بزم ہستی کو فطرت کے انوار سے منور کر سکے سنگلاخ زمینوں اور پہاڑوں کو اڑا کر مہکتے ہوئے گلزار بنا سکے۔
اقبال وہ حکیم الامت تھے جن کے دل کی گہرائیوں میں انقلابات جنم لیتے تھے۔ ان کیلئے مایوسی گناہ اور نا امیدی کفر سے کم نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ قوم کے شاہینوں کیلیے بازوئے حیدر کی دعا کیا کرتے تھے اسی لئے وہ ملت اسلامیہ کی کشتِ ویراں سے کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے وہ تو اس مٹی میں جذبہ جہاد اور احیائے ملت کے بیج کو تناور درخت بنتا دیکھنے کے آرزومند تھے۔ اپنے اسی جذبہ شوق میں فرزندان اسلام کو پیغام دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی
جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
اقبال جب ملت اسلامیہ کے افراد کو دیکھتے کہ وہ کس طرح فرنگی آمریت کے سامنے سر بسجود ہیں اپنی ہستی اور خودی کو فراموش کرکے یہ مصلحتوں کے امیر بن چکے ہیں۔ مسلمان احیائے امت اسلامیہ کیلیے جدوجہد تو بہت دور کی بات ہندوؤں اور فرنگیوں کے ظلمت کدوں میں آواز اٹھانے سے بھی گریزاں تھے ایسے میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ہی تھے جو اس اندھیری رات میں روشن ستاروں کو دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ انہوں نے اپنی لازوال شاعری کے ذریعے اس قوم کے جوانوں میں جوش و ولولہ، آزادی اور احیائے ملت کی وہ روح پھونک دی جس کے سامنے ہندو اور سامراجی قوتیں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ اقبال نے ملت کے نوجوانان صف شکن کو احساس دلایا کہ تم ہی وہ سپاہی ہو جو مہر و ماہ کو تسخیر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہو جو خواہشات کے غلام نہیں بلکہ مایوسیوں سے امیدوں کے سورج فروزاں کرنے کی جرات رکھتے ہو۔ جن کے جذبات میں صدقِ خلیل اور بازوؤں میں قوت حیدر و خالد بن ولید ہے۔ تاریخ گواہ ہے اقبال کی اس تحریک کا چشم فلک نے مشاہدہ کیا کہ نا امیدی کے اندھیرے چھٹ گئے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور صرف ہندوستان کیلئے ہی نہیں بلکہ احیائے ملت اسلامیہ کیلئے سرگرم عمل ہو گئے یہی اقبال کے آنسوؤں کا ثمر تھا کہ افق کی تاریکیوں سے آزادی کے آفتاب کے آثار اس شان سے ابھرے کہ قیام پاکستان کا خواب حقیقت میں بدل گیا۔ وقت کی کشت ویران فطرت کے گل و لالہ سے مہک اٹھی۔
احبابِ کرام۔۔۔۔۔۔۔!
فکرِ اقبال فانی نہیں بلکہ ابدی ہے۔ آج ملت اسلامیہ ایک مرتبہ پھر کفر کی یلغار کی زد میں ہے۔ صلیبی جنگ کا نعرہ لگانے والے طبل جنگ بجا چکے ہیں۔ پوری باطل قوتیں ایک ہو چکی ہیں مگر ہم جان بوجھ کر اپنے انجام سے بے خبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تاریخ پھر ایک مرتبہ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ وقت ایک مرتبہ پھر ہماری غیرت ایمانی کا امتحان لینے کیلیے ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے ہر طرف الجھے ہوئے حالات بکھری ہوئی فضائیں ، بے چینی و بے قراری کا ماحول، بدامنی و بربادی کی کیفیتیں، بے حسی اور بے بسی ، احساس ذمہ داری کا فقدان ہے اقتدار کی جنگ نے سیاست، مذہب، اخلاقیات اور حب الوطنی کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ہمارے ادارے رشوت، سفارش اور اقربا پروری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اس قسم کے حالات دیکھ کر دل گھبرا جاتا ہے کہ شاید اب سکون و چین کے لمحات میسر نہیں آئینگے شاید اب کوئی پھول ایسا نہیں کھلے گا۔ جو چمن کی فضا کو معطر کر دے۔ اور کوئی ایسا ساز نہیں بجے گا جو ماحول کی اداسی میں رنگ بھر دے آج ہماری قوم کسی محمد بن قاسم، طارق بن زیادہ یا سلطان محمود غزنوی کے انتظار میں ہے جو انہیں مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں سے نکال سکے۔
یومِ آزادی کے موقع پر میں اس وطن کے فرزندوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ فکرِاقبال کو سمجھیے اور خود کو پہچانیے آپ میں ہی ابنِ قاسم، صلاح الدین ایوبی اور محمود غزنوی جیسے بہادر جوان موجود ہیں بس خود کو پہچاننے کی دیر ہے آپ ہی ہماری ملت کے شاہین ہیں جو ہر کٹھن گھڑی میں وطن کیلیے سربکف ہوجاتے ہیں اور ملتِ اسلامیہ اور وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کیلیے ہمیشہ تیار کھڑے ہوتے ہیں جنکی جانبازی و جاں نثاری سے مردہ زمیں بھی گل و گلزار کا سماں پیش کرنے لگتی ہے۔ بلاشبہ تاریک اندھیری رات کو آخر ختم ہونا ہی ہوتا ہے ان شاء اللہ ایسا وقت ضرور آنے والا ہے جب کوئی ستارہ نور ضرور طلوع ہوگا۔ کوئی ذرہ پھر سے ضرور چمکے گا اور خزاں رسیدہ چمن میں بہار لانے کیلیے پھر سے وہ پھول کھلے گا جس کو چشم تصور میں دیکھ کر ہی اقبال نے فرمایا تھا۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
