اب کی بار مشرق سنڈے میگزین میں ہمیں جس عنوان پر خامہ فرسائی کا کہا گیا ہے،وہ ہے” قائد اعظم کے بعد کا پاکستان”
ظاہر ہے کہ اس موضوع پر ہم اسی وقت سیر حاصل اور منطقی انداز میں گفت گو کرسکتے ہیں جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ قائد کے دور کا پاکستان کیسا تھا یا وہ کیسا پاکستان دیکھنے کی آرزو رکھتے تھے؟
اس لیے پہلے بنیادی طور پر ہم اصولی چیز دیکھیں کہ وہ اسلامی یا سیکولر؟ یا اسلامی یا مغربی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے نفاذ کے خواہش مند تھے؟
وہ پاکستان کی تعمیر اخلاق و کردار،محنت و دیانت داری کی کن عظیم بنیادوں پر کرنا چاہتے تھے اور ان کے بعد کے پاکستان ان کی آرزوؤں کا کیسے خون کیا گیا؟
اس لیے عرض ہے کہ اس میں کیا شک ہے کہ پاکستان ہمارے بزرگوں بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح کی بھرپور مخلصانہ کوششوں کی بدولت معرض وجود میں آیا۔
یہ تلخ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ ملک اسی صورت میں استحکام اور ترقی کی ہمراہ پر گامزن رہ سکتا تھا،جب وہ انہی اصولوں کے تحت چلایا جاتا،جو انہوں نے وضع کیے تھے۔
اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ جن لوگوں نے اپنی جان و مال لگاکر اور اپنا خون پسینہ خشک کرکے ملک حاصل کیا تھا وہ اس ملک کے لیے کسی بھی بعد والے انسان سے زیادہ مخلص اور محب وطن بھی تھے اور ان سے زیادہ دانا اور سمجھدار بھی تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح اس ملک کو سیکولر نہیں،ایک اسلامی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔
قائد اعظم کی پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد تقاریر کو دیکھا جائے اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مطمح نظر لبرل یا سیکولر نہیں بل کہ اسلامی ریاست کا قیام تھا۔
آپ کی 1948ء کی وہ تقریر جو انہوں نے پشاور میں طلبہ کے سامنے کی تھی،اس میں انہوں نے واشگاف الفاظ کہا تھا:
ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بل کہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان کے فورا بعد عید کے موقع پر نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
“مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن مجید میں موجود ہے۔ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔قرآن پاک کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ،مسلمانوں کے لیے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔”
پاکستانی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی تحریروں میں ثابت کیا ہے:
قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم ایک سو ایک بار اور قیام پاکستان کے بعد کم از کم چودہ بار بڑے واضح اور غیر مبہم انداز میں فرمایا تھا کہ
“آئین پاکستان،نظام حکومت،قانون اور انتظامی ڈھانچے کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔”
اب ان تمام شواہد اور حوالہ جات کے ہوتے ہوئے
اگر کوئی کہتا ہے کہ قائد اعظم نے یہ تمام تر نعرے مذہب کارڈ کے طور پر استعمال کیے تھے،وہ خود ہی اپنی اداؤں پر غور کرے کہ وہ اس طرح کی باتوں سے قائد اعظم کو کس قسم کا لیڈر ثابت کرنا چاہتا ہے؟ اس قسم کے دعوے قائد پر تہمت کے زمرے میں نہیں آتے تو کیا ہیں؟
دوسری بات کہ قائد اعظم پاکستان میں کس طرح کے معاشی نظام کے خواہاں تھے۔
اس کا جواب ان کی اس تقریر میں ملتا ہے جو انہوں اپنی وفات سے صرف ایک مہینا پہلے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کی تھی۔
جس میں انہوں نے فرمایا:
میں پاکستان میں معاشی نظام کو مغرب کے اصولوں پر نہیں،اسلام کے اصولوں پر دیکھنا چاہتا ہوں۔مغرب کے معاشی نظام نے دنیا کو لڑائیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔
میں پاکستان میں اپنے ماہرینِ معیشت سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مغرب کے اصولوں پر نہیں،اسلام کے اصولوں پر پاکستان میں معیشت کے نظام کو استوار کریں اور میں آپ کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرتا رہوں گا۔”
افسوس کہ قائد اعظم کے بعد کے پاکستان میں معیشت کے مفید اور سنہری اصولوں کو اپنانے کا خیال تک نہیں بل کہ سرمایہ دارانہ سودی نظام معیشت مسلط کردیا گیا۔
تیسری بات ہے کہ قائد اعظم نے حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے کہا فرمایا تھا:
حکومت کی پہلی ذمہ داری قانون اور امن کو برقرار رکھنے کی ہے تاکہ ریاست شہریوں کے جان و مال اور مذہبی عقائد کی پوری حفاظت کرسکے۔
(11 اگست 1947ء)
پاکستان کے بعد کے پاکستان میں چوریاں ڈکیتیاں،قتل کی وارداتیں اور جنسی جرائم خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔
قائد اعظم نے نوزائیدہ مملکت سے رشوت ستانی اور کرپشن کے جراثیم ختم کرنے کے لیے فرمایا تھا:
رشوت اور کرپشن ان بڑی لعنتوں میں سے ایک ہے جن میں انڈیا گرفتار ہے۔یقینا یہ ایک زہر ہے۔
We must put that down with an iron hand I Hope that you will take adequate measure as soon as it is possible to do so,
ہمیں اسے آہنی ہاتھوں سے کچلنے کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔میں امید کرتا ہوں کہ جتنی جلدی ممکن ہوگا،آپ ایسا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔
المیہ ہے کہ قائد اعظم نے جس کرپشن کو ایک بڑی لعنت سے تعبیر کیا تھا اور اسے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے عزم بالجزم کا اظہار کیا تھا،آج اتنا طویل دورانیہ گذر جانے کے بعد کرپشن کا ختم ہونا تو دور کی بات،تقریبا ہر اثر و رسوخ رکھنے والا شخص دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کے کالے دھندے میں ملوث ہے۔
قائد اعظم نے تجارتی خیانت،اقربا پروری جیسی برائیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے راہ نما اصول و ضوابط بیان کیے تھے۔آج ان کے بعد کا پاکستان ان تمام برائیوں کو پروان چڑھانے میں سر فہرست ہے۔
قائدِ اعظم نے تو سب شہریوں کو برابر کا درجہ دیا اور بلا تفریق عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے قابلِ عمل نکات ارشاد فرمائے۔
مگر ان کے بعد کے پاکستان میں ان تمام خوب صورت اصولوں کا تہیہ پانجہ کردیا گیا۔
سوچنے کی بات تو ہے کہ ہم قائد اعظم کا نام بھی لیتے ہیں اور ان پر نظمیں،اشعار اور بیانات بھی سنتے ہیں اور ان کی شان میں لچھے دار تقریریں بھی کرتے ہیں مگر ان کی تعلیمات پر عمل کرنے سے کیوں گریزاں ہیں؟
کیا صرف اس لیے کہ اگر ہم ان کے ارشادات پر عمل بیرا ہوگئے تو ہمیں اپنی جھوٹی انا کی تسکین اور ناجائز خواہشات کی تکمیل کا موقع نہیں ملے گا؟؟؟