468

قادیانیوں کا بائیکاٹ کیوں ضروری ہے؟ /محمد انس معاویہ، رجانہ

Muhammad AAnas Muavia, Rajana

(یہ مضمون عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تحریری مقابلہ2022 میں تیسرا انعام حاصل کر چکا ہے)

اللہ تعالی پر ایمان لانے کے بعد حضرت محمدﷺ پر ایمان لانا یعنی آپ ﷺ کو آخری نبی و رسول ماننا ضروری ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں، آپ ﷺ ہی آخری نبی اور رسول ہیں ۔ اسلام میں عقید ختم نبوت اساسی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس عقیدہ کو نہیں مانتا وہ قطعا مسلمان کہلانے کے قابل نہیں ہے۔ عقیدہ ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے جس پر مسلمانان عالم متفق ہیں۔ یہ قرب قیامت کا دور ہے، روز بروز نت نئے فتنے رونما ہور ہے ہیں۔ جن میں ایک بہت بڑا خطرناک فتنہ، فتنہ قادیانیت ہے۔ پوری امت مسلمہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بدترین قسم قرار دیتی ہے۔ جب بھی قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو سادہ لوح مسلمان یہ اعتراض کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر اتفاق ہے کہ قادیانی کافر ہیں۔ لیکن کافر تو اور بھی ہیں جیسے کہ یہود، ہنود اور نصاری وغیرہ تو کیا وجہ ہے کہ قادیانیوں کے خلاف منظم جماعتیں کام کر رہی ہیں اور قادیانیوں سے مکمل طور پر بائیکاٹ کرنے کی بھر پور دعوت دی جارہی ہے؟ جب کہ دیگر کفار کے ساتھ معاملات کر نے سے اتنی شدت سے نہیں روکا جارہا۔
یاد رہے!
کافروں کی تین اقسام ہیں

(۱) طلق کافر (۲) مرتد وکافر (۳) زندیق کافر

ا) مطلق کافر
جو اپنی نسبت اپنے مذہب کی طرف کرے اور مسلمانوں کی نسبت اسلام کی طرف کرے۔ جیسے عیسائی، یہود، نصاری وغیرہ

۲) مرتد کافر
جو پہلے مسلمان ہو پھر دین اسلام چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کر لے۔

۳) زندیق کافر
جو ہو تو پکا کافر لیکن خود کو مسلمان کہلاۓ اور مسلمانوں کو کافر شمار کرے۔
شریعت اسلامیہ میں مطلق کافر سے معاملات کرنا مباح اور جائز ہے۔ اور مرتد وزندیق کافروں سے تعلقات اور معاملات کرنا ممنوع اور حرام ہے۔ یادرکھیں قادیانی مطلق کافر نہیں ، بلکہ زندیق کافر ہیں ۔ ۱۳۰۱ ہجری بمطابق 1884 عیسوی میں مرزا غلام احمد قادیانی لدھیانہ آیا تو مولانا محمد لدھیانوی رحمہ اللہ ،مولانا عبداللہ لدھیانوی رحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل لدھیانوی نے فتوی دیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی مجدد نہیں بلکہ زندیق ملحد ہے۔ (حوالہ ،فتاوی قادریہ، ص۳)

دنیا کے اندر جتنے بھی مذاہب پاۓ جاتے ہیں ہر مذہب اپنی پہچان الگ نام سے کرواتا ہے۔ لیکن قادیانیوں کا معاملہ ان کے برعکس ہے۔ اگر کسی عیسائی سے سوال کریں ” تیرے مذہب کا کیا نام ہے؟“ وہ فورا کہے گا ”عیسائیت“ اگر ہندو سے سوال کریں ” تیرے مذہب کا کیا نام ہے؟“ تو کہے گا ”ہندومت“ اگر کسی سکھ سے یہی سوال کریں تو وہ فورا کہے گا ”سکھ مت“ لیکن اگر قادیانیوں سے سوال کریں کہ تیرے مذہب کا کیا نام ہے؟ تو وہ جواب دے گا ”اسلام“ غرض دنیا کا کوئی کافر اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہتا جبکہ قادیانی اپنے مذہب کو اسلام کہتے ہیں۔ اگر یہی سوالات ان تمام مذاہب والوں سے ان کی عبادت گاہوں کے متعلق کیے جائیں تو عیسائی اپنی عبادت گاہ کو ” گرجا” کہے گے۔ اگر ہندو سے سوال کریں تو وہ اپنی عبادت گاہ کو ” مندر” کہے گا ۔اگر سکھوں سے سوال کریں تو وہ اپنی عبادت گاہ کو ”گردوارہ“ کہیں گے۔ یکن اگر قادیانیوں سے سوال کیا جاۓ کہ ” تمہاری عبادت گاہ کا کیا نام ہے؟ تو وہ فورا منہ کھول کر کہیں گے ”مسجد“ پہلے تینوں مذاہب والوں نے اپنی اپنی عبادت گاہ کا نام بتایا جبکہ قادیانی کافروں نے مسلمانوں کی مسجد پر قبضہ کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے۔ قادیانی ایسا بدترین فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کی مقدس چیزوں پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت ہی نہیں کی بلکہ شریعت مطہرہ کی مقدس ہستیوں، بابرکت مقامات، اور مقدس چیزوں کی اپنی غلیظ زبانوں کے ساتھ توہیں بھی کی ہے۔

نبی کریمﷺ کی توہین

مرزا قادیانی اپنی تحریرات میں آپ ﷺ کے جاۓ قیام کی توہین کرتے ہوۓ لکھتا ہے ”خدا تعالی نے آنحضرت ﷺ کو چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت تعفین، تنگ، تاریک ، حشرات الارض نجاست کی جگہ تھی“

(حوالہ تحفہ گولڑوی: روحانی خزائن جلد17ص205 )

قرآن مجید کی تو ہین

ہمارے پیارے نبی ﷺ کے اوپر اترنے والی مقدس کتاب قرآن مجید کتب سماویہ میں سے برتر ، اعلی واکمل کتاب ہے۔ جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے۔

اس کے متعلق قادیانی کہتا ہے ”قرآن مجید خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں“

(حوالہ: تذکر و مجموعه وحی والهامات ص 77 طبع چہارم)

حدیث مبارکہ کی تو ہین

حضور نبی کریم ﷺ کے فرامین کا نام حدیث مبارکہ ہے۔ اس کے متعلق قادیانی عقیدہ ملاحظہ فرمائیں۔ مرزا قادیانی حدیث رسول کے قبول ورد کرنے کے بارے میں اپنے قول کو حکم بناتا ہے ۔لکھتا ہے کہ ”میرا اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں جس انبا کو چا ہوں خدا سے علم پاکر قبول کروں اور جس ڈھیر کو چاہوں خدا سے علم پاکر رد کردوں“ (حوالہ: ملخصا از روحانی خزائن جلد 17 ص 401)

مکہ ومدینہ کی توہین

دنیا کے تمام شہروں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سب سے افضل ہیں۔ ان دونوں شہروں کی حرمت قرآن مجید اور حدیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہے۔ لیکن ان مقدس مقامات کی حرمت بھی مرزا قادیانی کی غلیظ زبان سے محفوظ نہ رہی ۔ چنانچہ اپنے شہر کوحرم قرار دیتے ہوۓ لکھتا ہے کہ
”زمین قادیان اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارض حرم ہے“
( حواله، در ثمین 56 )

قادیانی اخبار الفضل مرزا قادیانی کی قبر کوروضہ رسول ﷺ کے مماثل قرار دیتے ہوۓ لکھتا ہے کہ

”گنند خضری کے انوار کا پورا پراس گنبد بیضا (مرزا قادیانی کی مرقد ) پر پڑ رہا ہے اور آپ گویا ان برکات سے حصہ لے سکتے ہیں جو رسول اللہﷺ کے مرقد سے مخصوص ہیں ۔ ( نعوذ باللہ )

( حوالہ؛ الفضل جلد 10، ص 98 )

مرزائی کتب سے چند عبارات آپ کے سامنے رکھی ہیں جن کا ہر ہر حرف چیخ چیخ کر قادیانی اور اس کے ماننے والوں کے متعلق کفر کا اعلان کر رہا ہے۔ قادیانیوں کے انہی، گندے، غلیظ روح فرسا عقائد کی وجہ سے علماء دیوبند کے مکاتب فکر ، علماء نے دتوحات جاری کیے۔۱۸۹۰ میں مولانامحمد حسین بٹالوی نے مرزا کے خلاف فتوی بھی دیا۔
اس کے ماننے والوں سے اسلامی معاملہ کرنا شرعاً ہرگز درست نہیں مسلمانوں پر لازم ہے کہ مرزائیوں کو سلام نہ کریں ان سے رشتہ ناتہ نہ کریں، ان کا ذبیحہ نہ کھائیں۔ جس طرح یہود، ہنود ، نصاری سے اہل اسلام الگ رہتے ہیں، اسی طرح مرزائیوں سے بھی علیحدہ ر ہیں۔ جس طرح بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کرتے ہیں اس سے زیادہ، مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعا ضروری اور لازمی ہے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے مدرس مولانا سہول نے ۱۲ صفر ۱۳۳۱ ہجری بمطابق ۱۹۱۴ کوفتوی مرتب کیا کہ
مرزا قادیانی مرتد، زندیق ملحد اور کافر ہے ۔ اس فتوی پر دستخط کرنے والوں میں شیخ الہند مولانا محمودالحسن دیوبندی، مولانا انور شاہ کشمیری، مولانا سید مرتضی حسن چاند پوری، جیسے سینکڑوں اکابر علماء اکرام نے دستخط کیے تھے ۔ (حوالہ قادیانیت کا تعاقب، ص ۳۲) دنیا کے سارے کافر دین اسلام کے لیے سانپ ہیں ہر سانپ اپنی سرسراہٹ اور پھنکار رکھتا ہے جبکہ قادیانی سانپ کا رنگ ہمرنگ زمین ہے یہ ”کھپرا“ سانپ ہے۔ اس کا پتا تب چلتا ہے جب یہ ڈنگ مار کر ایمان کا چراغ گل کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ قادیانی شعائر اسلامی اور تعلقات کا جھانسہ دے کر سادہ لوح مسلمانوں کا ایمان لوٹ لیتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال کہ ” قادیانی ملک وملت دونوں کے غدار ہیں اس لیے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے 1974 میں قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دیا۔ قادیانی پاکستان کے آئین کوتسلیم نہیں کرتے اس میں انہیں غیر مسلم ڈکلیئر کیا گیا ہے۔ وہ بزعم خودمسلمان ہیں اور آئین پاکستان میں لکھے ہوۓ اس فیصلے کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر مورچہ زن ہیں۔ قادیانی خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو قادیانی بنانے کے لیے ہرلمحہ سرگرم ہیں ۔

مسلمانوں کی ایمانی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ قادیانیوں کی تمام ترمصنوعات کا بائیکاٹ بھی کریں، کیونکہ قادیانی اپنی کمائی کا ایک مختص حصہ جماعت کے کاموں کے لیے وقف کرتا ہے۔ جماعت پھر ان کا دیا ہوا پیسہ قادیانی اخبارات، قادیانی لٹریچر تبلیغی سر گرمیاں، قادیانی مبلغین کے وظائف اور دیگر امور پر خرچ کرتی ہے۔ آپ صرف شیزان کمپنی کو دیکھ لیں یہ قادیانیوں کا بھرپور تعاون کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کی آمدنی کا اکثر سرمایہ قادیانیت کی جھوٹی تشہیر کے لیے خرچ کیا جا تا ہے۔ شیزان قادیانیوں کو بڑے بڑے اشتہارات دے کر انہیں مالی طور پر مستحکم کرتا ہے ۔

کم از کم اپنا پیسہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے لیے خرچ نہ کریں، کیونکہ قادیانی اپنی مصنوعات کا منافع ہمارے ہی مسلمان بھائی بہنوں کا ایمان لوٹنے کے لیے خرچ کرتے ہیں ۔ تمام مکاتب فکر متفقہ طور پر کہتے ہیں کہ قادیانیوں مرزائیوں سے ( خواہ لاہوری ہوں یا چناب نگری ) خرید وفروخت، تجارت، لین دین، سلام و کلام، ملنا جلنا، کھانا پینا، ملازمت غرض تمام چیزوں کا بائیکاٹ کرنا لازمی اور ضروری ہے ۔یہ مقاطعہ یا بائیکاٹ ظلم نہیں بلکہ اسلامی عدل و انصاف اور خود قادیانیوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی محاربت، اور ایذا ورسانی سے محفوظ کیا جاۓ اور ان کی اجتماعیت کو ارتداد و نفاق کے دستبرد سے بچایا جاۓ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ خود ان محاربین کے لیے بھی اس میں یہ حکمت مضمر ہے کہ وہ اس سزا یا تادیب سے متاثر ہوکر اصلاح یافتہ ہوں۔ اور کفر ونفاق کو چھوڑ کر ایمان واسلام قبول کریں۔ اس طرح آخرت کے ابدی عذاب سے ان کو نجات مل جاۓ گی۔ ورنہ اگر مسلمانوں کی بیت اجتماعیہ ان کے خلاف کوئی تادیبی اقدام نہ کرے تو وہ اپنی موجودہ حالت کو متحسن سمجھ کر اس پر مصر رہیں گے۔ اس طرح قادیانی ابدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔ قادیانیوں کی تمام تر مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے اور ان کے ساتھ تعلق ختم کرنے کے لیے دل کو غیرت دلانے کے لیے یہ جملہ پڑھ لیا

”اے مسلمان جب تو کسی قادیانی سے ملتا ہے تو گنبد خضری میں دل مصطفی ﷺ دکھتا ہے“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں