یہ 17اگست 2015کا دن تھامعمول کے مطابق احمر صبح سویرے اُٹھ کر تیاری کرنے لگا،نہا دھو کر صاف ستھرا لباس پہن کر اپنے والد محترم کے ساتھ کالج میں داخلہ لینے کی غرض سے۔ سیالکوٹ کا رخ کیا۔ تاکہ کالج آفس سے پراسپکٹس حاصل کیا جائے
صبح کے تقریباً آٹھ بجے گھر سے نکل پڑے۔ گھر کے باہر ایک 14ماڈل سی ڈی 70 موٹر سائیکل پر سوار ہو کر راستہ ناپنا شروع کر دیا۔
راستے کے طول و عرض پر بہت سے نشیب و فراز سے ہوتے ہوئے جا رہے تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ جو کہ کنگرہ کے نام سے مشہور ہے وہاں پہنچ گئے
راستے کی اصل مشکلات تو یہیں سے شروع ہو جاتی ہیں
اس روڈ پر جگہ جگہ کھڈے ہیں اور وہ بھی اتنے گہرے کہ بالکل ایسا ہی نظر آتا ہے جیسے قبر کھودی گئی ہے اور وہ بھی ایک قبر نہیں تمام راستہ قبور سے بھرا پڑا ہے ۔
ایسے راستوں پر طنز کرتے ہوئے ایک اردو ادب کے مشہور شاعر مرزا محمود سرحدی یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ
اس میں ایسی کھائیاں ہیں ایسے ایسے غار ہیں۔
دفن ہوسکتا ہے جس میں آدمی بعد از وصال۔
اور ایک اور شعر میں یوں بیان کرتے ہیں کہ
مینہ برس جائے تو چل سکتی ہیں اس پر کشتیاں
ڈوب جانے کا بھی ہو جاتا ہے اکثر احتمال
خیر اللّٰہ اللّٰہ کرتے ہوئے تقریباً دس بجے احمر اور اس کے والد محترم سیالکوٹ کے سٹیڈیم والے پل کے پاس سڑک کے ایک کونے پر کھڑے ہو گئے جہاں دو رویہ بنا ہوا تھا۔
احمر اپنے والد کے ساتھ چپ چاپ کھڑا ارد گرد گزرتی ہوئی گاڑیوں کو بڑی دلچسپی اور دلجمعی سے دیکھ رہا تھا
مانو کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ احمر پہلی بار کسی بڑے شہر میں آیا ہو اور اتنی چہل پہل اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔
وہ ابھی اردگرد کی رونق اور گاڑیوں کی چہل قدمی سے محظوظ ہو رہا تھا کہ اس کے والد محترم نے اس سے کچھ کہا جو اسے سمجھ نہ آیا کیونکہ اس کا دھیان تو اردگرد گزرتی گاڑیوں پر تھا
اس نے اچانک سے اپنے والد کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ جی؟
کسی سے کالج کا راستہ پوچھ لیتے ہیں۔ والد محترم نے کہا،
جی بہتر،۔ احمر نے کہا
فورا احمر نے پاس سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان کو مخاطب کیا جو سفید شرٹ ،گرے پینٹ اور گرین ٹائی باندھے۔ بستہ کمر پر لٹکائے کالج کی طرف جا رہا تھا،
بھائی مرے کالج کدھر ہے،؟ احمر نے پوچھا
بھائی یہ مرے کالج ہی ہے،۔ نوجوان نے جواب دیا
اور مسکراتا ہوا آگے چل دیا
احمر اور اس کے والد محترم بھی کھڑے مسکرانے لگے کہ ہم کالج کے کونے پر ہی کھڑے ہو کر کالج کا پتہ پوچھ رہے ہیں
اس پر ایک پنجابی کی کہاوت یاد آگئی جو میں یہاں لکھنا چاہوں گا کہ
کچھڑ کڑی ،۔ تے شہر چے ٹنڈورہ
خیر احمر اور اس کے والد کالج کی طرف چل پڑے۔ اور تقریباً پانچ منٹ بعد کالج کے مین گیٹ یعنی بڑے دروازے پر پہنچ گئے جہاں رونق کا ایک عجیب سماں تھا
گہرے سبز رنگ کا بڑا سا دروازہ ہے اور اس کے سامنے ایک پائپ نما بیریل لگا ہو ہے جو کسی گاڑی کے اندر یا باہر جاتے ہوئے ہی اوپر اٹھایا جاتا ہے اور گاڑی کے گزرنے کے بعد اس کو ایک گارڈ رسی سے پھر نیچے کھینچ کے باند دیتا ہے
بڑے دروازے کے داہنی طرف ایک چھوٹا دروازہ لگا ہو ہے جو ہر وقت کھلا رہتا ہے اس پر تین سے چار گارڈ ہر وقت ڈیوٹی پر تعینات رہتے ہیں اور آنے والے لوگوں کو مشین سے چیک کرنے کے بعد ان کو ایک الیکٹرک سکیورٹی دروازے سے گزارہ جاتا ہے
کالج کے طلبہ وطالبات اس دروازے سے گذرنے کے بعد اپنی اپنی کلاس میں چلے جاتے ہیں جبکہ وزیٹرز کو دروازے پر بنے سکیورٹی آفس میں بیٹھے ہوئے سکیورٹی اہلکار روک کر اس کو اندر جانے کی وجہ اور کہاں جانا ہے؟کیوں جانا ہے؟وغیرہ جیسے سوالات پوچھے جاتے ہیں
تقریباً دس سے پندرہ منٹ کے بعد احمر اور اس کے والد محترم اکاؤنٹ آفس سے پراسپکٹس حاصل کرتے ہیں جہاں ان کو داخلے کی آخری تاریخ کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے کہ آج ہی داخلہ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے اور شام چار بجے تک اکاؤنٹ آفس کھلا رہتا ہے
احمر اور اس کے والد نے پراسپکٹس لیا اور فورا کالج سے باہر نکل کر گاؤں کی راہ لی
کہ بر وقت گھر پہنچ کر داخلہ فارم کے متعلقہ کاغذات لے کر کالج میں جمع کروا دیں
اب دوبارہ احمر گھر سے نکل کر گورنمنٹ سکول کی جانب چل دیا ،جہاں پر احمر کے والد اس کا انتظار کر رہے تھے کہ احمر کے ضروری کاغذات جو کالج میں داخلہ فارم کے ساتھ جمع کروانے تھے ان کو سکول کے ہیڈ ماسٹر سے تصدیق کروا لیں
تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو
سکول پہنچے ہی احمد نے اپنے والد کے ساتھی دوستوں کو سلام کیا اور اپنے والد کے ساتھ اندر ہیڈ ماسٹر دفتر کے اندر چلا گیا
اپنے کاغذات کی تصدیق کروائی اور کالج کی راہ لی
تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد کالج پہنچ گئے
داخلہ فارم جمع کروانے سے پہلے احمر کے والد نے احمر سے کہا کہ ایک اور فارم فل کر کے کسی دوسرے سبجیکٹ میں بھی اپلائی کر لینا چاہیئے ،
کیوں کہ یہ بڑا کالج ہے اور اڈمیشن ملنا مشکل ہے
احمر نے فوراً کالج کے باہر فائن فوٹو کاپی شاپ سے اپنے کاغذات کی مزید ضرورت کے مطابق کاپیاں تیار کروائیں اور پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ میں بھی داخلہ فارم جمع کروا دیا
اس طرح احمر نے اردو اور پولیٹیکل سائنس۔ میں داخلہ فارم جمع کروا دیا
کچھ دنوں بعد میرٹ لسٹ کالج گیٹ پر چسپاں کر دی گئیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ کالج پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ سے فون کال بھی آگئی کہ آپ کے بیٹے کا نام کالج میرٹ لسٹ میں آگیا ہے مگر کچھ دستاویزات کم ہے ان کی ایک ایک نقل کی ضرورت ہے
اگلے دن پھرکالج کی راہ لی
اور خدا خدا کر کے کالج پہنچے تو پتا چلا کہ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے سرپرست اعلیٰ نے مدعو کیا ہے
اور مدعو کرنے کی وجہ دستاویزات کی نقول کی کمی ہے۔
انھوں نے احمر سے سوال کیا؟
بیٹا آپ نے اشٹام پیپر کی نکل داخلہ فارم کے ساتھ لگائی ہے تو اصلی اشٹام پیپر کدھر ہے؟
جی جی وہ ،۔ وہ۔ تو اردو ڈیپارٹمنٹ میں ہے۔
احمر نے جھجھک کر کہا ،
اشٹام پیپر اُردو ڈیپارٹمنٹ میں کیا کر رہا ہے؟
ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پولیٹیکل سائنس نے رعب دار لہجے میں پوچھا
سر وہ اردو ڈیپارٹمنٹ میں بھی اپلائی کیا تھا نا تو اس لیے ادھر جمع کروا دیا
احمر نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا
اچھا تو جائیں ادھر سے لے آئیں،
استاد محترم نے کہا
جی استاد محترم بہت بہتر
احمر نے جواب دیا
احمر اپنی سیٹ سے اٹھا اور باہر نکل آیا اور ساتھ احمر کے والد محترم بھی باہر آگئے
باہر آتے ہی احمر نے اپنے والد سے پوچھا کہ اب کیا کیا جائے ،
احمر کے والد نے جواب دیا کہ پہلے اردو ڈیپارٹمنٹ سے پتا کر لیتے ہیں کہ ادھر کی کیا صورت حال ہے؟
ادھر میرٹ لسٹ میں نام آیا ہے کہ نہیں
اب دونوں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر چہل قدمی کرتے ہوئے اردو ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل دیے۔
پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ سے جب اردو ڈیپارٹمنٹ کی طرف رجوع کریں تو سب سے پہلے مغرب کی طرف جانے والے راستے کی بائیں جانب۔ بہت ہی خوبصورت عمارت۔ دکھائی دیتی ہے جسے علامہ اقبال لائبریری کے نام سے جانا جاتا ہے
لائبریری سے تھوڑا آگے بڑا ہی خوبصورت باغیچہ ہے جس کے دونوں اطراف گلاب کے پھولوں کی سجی ہوئی کیاریاں دل کو لبھاتی ہیں،
اور لائبریری کے سامنے ہاکی گراؤنڈ اپنی دلکشی میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے مگر چونکہ ہم ابھی اس کالج میں مہمان کے طور پر آئے تھے تو ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہم اگر ہاکی گراؤنڈ کے اندر سے اردو ڈیپارٹمنٹ کی راہ لیں تو جلد پہنچ جائیں گے با نسبت اس کے کہ ہم زیادہ گھوم کر لائبریری سے سیدھے سٹاف روم کے پاس سے ہوتے ہوئے باٹنی اور پھر زوالوجی سے داہنی جانب مڑ گئے،
جہاں سے ہم آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ سے ہوتے ہوئے کینٹین کے قریب سے ہوتے ہوئے پھر صدر دروازے کے قریب پہنچ گئے،
جہاں پہنچ کر احمر نے گارڈ سے پوچھا کہ اُردو ڈیپارٹمنٹ کس طرف ہے ؟
گارڈ،۔ جناب یہ سامنے اردو ڈیپارٹمنٹ ہی ہے ،
احمر ،۔ جی بہتر جناب
شکریہ
سکیورٹی گارڈ مسکراتا ہوا دوسری طرف چل پڑا اور احمر بھی اپنے والد محترم کے ساتھ اردو ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کے سامنے پہنچ گئے۔ جہاں کمرے کی دیوار کے ساتھ میرٹ لسٹ چسپاں کی گئی تھی ،
احمر نے جلدی سے اس میرٹ لسٹ میں اپنا نام ڈھونڈنا شروع کیا ،
یہ رہا سات نمبر پر ،۔ احمر نے کہا
پولیٹیکل سائنس میرٹ لسٹ میں کونسا نمبر تھا؟۔ احمر کے والد محترم نے پوچھا
جی 9نمبر پر،۔ احمر نے کہا ،
اچھا تو دونوں میرٹ لسٹ میں اور دونوں سبجیکٹ میں نام آگیا ہے اب کس میں داخلہ لیا جائے ؟
احمر کے والد نے احمر سے پوچھا ،
احمر،۔ بابا جان میرے خیال سے پولیٹیکل سائنس ٹھیک رہے گا ،
اچھا ، مگر میرے خیال سے اُردو بالکل ٹھیک ہے۔
احمر کے والد نے کہا ،
پر بابا جان مجھے پولیٹیکل سائنس اچھی لگتی ہے اور میری دلچسپی بھی اس میں زیادہ ہے،
احمر نے کہا
بیٹا مگر اردو میں آگے مستقبل ہے ،کیونکہ مستقبل میں لیکچرار کی جاب کے لیے اردو ڈیپارٹمنٹ میں مرد اپلائی کرنے والے کم ہوتے ہیں اور جاب آسانی سے مل جاتی ہے
احمر کے والد نے احمر کو سمجھاتے ہوئے کہا ،
مگر بابا جان مجھے پولیٹیکل سائنس میں زیادہ دلچسپی ہے اور میں اچھے سے اس کو پڑھ سکتا ہوں ،
احمر نے تھوڑا ذدی لہجے میں کہا ،
مرضی تمہاری ہے بیٹا مگر ایک بات یاد رکھو کہ ہم متوسط طبقے کے لوگ ہیں
ایل ایل بی کروانے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں یا یوں سمجھو کہ میں تمہیں آگے ایل ایل بی نہیں کروا سکتا ،
احمر کے والد نے سمجھاتے ہوئے کہا
احمر نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ ٹھیک ہے میں سمجھ گیا اردو میں داخلہ لے لیتے ہیں
یہ کہ کر احمر اپنے والد کے ساتھ اکاؤنٹ آفس گیا جہاں سے اس نے چلان فارم حاصل کیا اور اور پنجاب بینک سرکلر روڈ سیال کوٹ کی راہ لی
تھوڑی دیر بعد تقریباً دس منٹ بعد احمر اپنے والد کے ہمراہ پنجاب بنک سرکلر روڈ سیال کوٹ پہچ گئے جہاں ایک لمبی قطار فیس جمع کروانے والوں کی لگی ہوئی تھی
احمر بھی قطار میں کھڑا ہو گیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ،
احمر سے آگے تقریباً بیس لوگ قطار میں کھڑے اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے ،
تقریباً تیس منٹ بعد احمر کی باری آگئی اور اس نے 6500 روپے فیس پنجاب بنک میں جمع کروائی۔
پنجاب بنک کے ملازم نے فیس جمع کرنے کی بعد تین پرت والے چلان فارم سے ایک پرت ،جس پر بینک کاپی لکھا تھا سکیل سے کاٹ لی
اور دوسرے دو پرت احمر کو واپس کر دیے ،
اب دوبارہ احمر نے کالج کی راہ لی اور دس منٹ بعد اکاؤنٹ آفس پہنچ گیا ،
اکاؤنٹ آفس احمر نے چلان فارم کی دوپرت والی کاپی جمع کروا دی ،
اکاؤنٹ آفس میں بیٹھے آفیسر نے ایک پرت جس پر کالج کاپی لکھا ہوا تھا سکیل سے کاٹ کر تیرا پرت جس پر سٹوڈنٹ کاپی لکھا گیا تھا احمر کو واپس کر دی
احمر ابھی کچھ بولے اس سے ہے ہی آفیسر نے اس کو سٹوڈنٹ کارڈ دیا اور کہا کہ آج سے دس دن بعد مکمل یونیفارم کے ساتھ جس کا ذکر پراسپکٹس میں موجود ہے ، کالج حاضر ہونے کے مجاز ہیں
جی شکریہ سر
احمر نے کہا
اور اپنے والد محترم (جو اس سارے سفر میں پیش پیش تھے) کے ہمراہ آب گھر کی طرف چل دیے ،
اس وقت تقریباً دوپہر کے تین بج چکے تھے جب احمر اپنے والد کے ہمراہ کالج سے نکلا اور گھر کی طرف لپکا ،
اب احمر کو دس دن بعد کالج جانے کا انتظار تھا کالج کے ماحول اس کی رعنائی اور اس کی خوبصورتی دیکھنے کا اشتیاق تھا ،
خدا خدا کر کے دس دن بیت گئے اور اب ایک اور مسئلہ پیدا ہو گیا ۔
کہ شہر سے روز گاؤں واپس آنا مشکل ہے اور کالج میں کوئی سرکاری ہاسٹل بھی نہیں ہے تو احمر قیام کدھر کرتا؟
کالج کے صدر دروازے کے بالکل سامنے ایک جیکٹ بنانے کی فیکٹری ہے جہاں احمر کے گاؤں کے چند نوجوان لڑکے کام کیا کرتے تھے ،
ان میں سے ایک جس کا نام عابد ہے مگر گاؤں میں عامر نام سے مشہور ہے احمر کے پاس آتا ہے ،
عامر۔۔ کس کالج میں داخلہ لیا ہے؟۔ احمر سے سوال کیا
جی گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لیا ہے،۔ احمر نے جواب دیا
کب سے کلاس شروع ہونی ہے ،میرا مطلب کب جانا شروع کرو گے کالج؟۔ عامر نے پوچھا
بھائی جانا تو کل سے ہے مگر ایک پریشانی ہے،احمر نے کہا،
کیا پریشانی ہے؟ عامر نے سوال کیا ۔
بھائی پہلی دفعہ کسی بڑے شہر میں جا رہا ہوں اور وہاں پر سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے رہوں گا ؟
احمر نے کہا
کیا مطلب کیسے رہوں گے،۔ عامر نے سوالیہ انداز میں دریافت کیا
بھائی رہنے کے لیے کالج ہاسٹل نہیں ہے اور روز گھر آنا بھی مشکل ہے۔ احمر نے جواب دیا
تو کوئی مسئلہ نہیں اگر ہاسٹل نہیں ہے تو آپ ہمارے ساتھ چلو ،
عامر نے کہا
کہاں ، احمر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
کالج کے بالکل سامنے والی فیکٹری میں ہم کام کرتے ہیں تم بھی ہمارے ساتھ ہی رہ لینا ،صبح کالج چلے جانا اور چھٹی کے بعد تھوڑا ہمارا ہاتھ بٹا دینا جس کا فایدہ ییہ ہو گا کہ ادھر رہائش بھی مل جائے گی اور کھانے کا خرچہ بھی نکل جایا کرے گا ۔
عامر کی بات سن کر احمر کی آنکھوں میں چمک آگئی اور احمر نے فوراً ساتھ جانے کی ہامی بھرلی ،
اگلی صبح احمر جلدی سے تیار ہوا اور رخت سفر باندھا اور عامر بھائی کا انتظار کرنے لگا،
تقریباً صبح آٹھ بجے عامر بھائی اپنی بائیک پر وارد ہوئے۔ اور احمر نے ان کے ہمراہ شہر کی راہ لی،
تقریباً ایک ڈیڈھ گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد دونوں شہر پہنچ گئے اور فیکٹری کے صدر دروازے سے اندر داخل ہو گئے ،
اندر جاتے ہی تمام لوگ احمر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ،جیسے سوچ رہے ہوں کہ یہ چھوٹا بچہ کون ہے اور فیکٹری میں کیا کر رہا ہے ؟
عامر بھائی نے احمر کا تعارف کروایا اور سب کو بتایا کہ احمر شہر میں پڑھنے کے لیے آیا ہے اور ساتھ میں فیکٹری میں پارٹ ٹائم کام بھی کیا کرے گا اور ادھر ہی ہمارے ساتھ رہے گا،
اب دوبارہ یہ سب سننے کے بعد سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے اور احمر متجسس نگاہوں سے ان سب کو کھڑا دیکھنے لگا،
یہ شہر میں احمر کا پہلا دن تھا اور کسی کے ساتھ بھی احمر کی واقفیت نہیں تھی کہ اتنی جلدی سب میں گھل مل جاتا۔
اگلی صبح احمر فیکٹری کی چھت پر سے کالج کو متجسس نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور خیالی پلاؤ پکانے میں مصروف تھا کہ کسی نے پیچھے سے آواز دی!
احمر آپ نے کالج نہیں جانا کیا؟
یہ عامر بھائی تھے جن کے ساتھ احمر گاؤں سے آیا تھا
جی جانا ہے بھائی جان ۔ احمر نے فوراً جواب دیا
اچھا چلو پھر جلدی سے نہا دھو کر تیاری کر لو میں تمہارا یونیفارم نکال دیتا ہوں ،۔ عامر نے کہا
جی اچھا بھائی جان ،۔ احمر نے جواب دیا
اور جلدی سے غسل خانے میں چلا گیا
تھوڑی دیر بعد تیار ہو کر کالج چلا گیا ،
گہرے سبز رنگ کا بڑا سا دروازہ ،اور دروازے کے اندر اور باہر سکیورٹی اہلکار گہرے نیلے رنگ کی یونیفارم میں ملبوس اندر داخل ہونے والے طلبہ وطالبات کا کارڈ چیک کرنے کے بعد اندر بھیج رہے تھے
احمر کو بھی ان مراحل سے گزر کر کالج جانا تھا،
کالج میں داخل ہوتے ہی بالکل سامنے مولوی میر حسن ہال جو کے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے استاد محترم کے نام سے منسوب ہے نظر آتا ہے اور نہایت ہی دلفریب منظر پیدا کرتا ہے ،
مولوی میر حسن ہال سے بائیں جانب مڑنے پر احمر اردو ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہو گیا جہاں سب سے پہلے احمر کی ملاقات پروفیسر سجاد حیدر بھٹی صاحب سے ہوئی جنہوں نے احمر کو بتایا کہ روم نمبر دس میں جا کر بیٹھ جائیں ابھی پروفیسر آجاتے ہیں اور آپ کی کلاس شروع کرتے ہیں
یہ پہلا دن تھا جو کہ احمر کو مرے کالج سیالکوٹ میں گزارنا تھا ،۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی نئی جگہ پر وقت گزارنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ اور پھر یہ تو دوسرا شہر تھا اور وہ بھی اس بچے کے لیے جس نے کبھی اکیلے اپنے گاؤں کے باہر بھی قدم نہیں رکھا تھا ،
کلاس روم کا منظر
کلاس روم کا دروازہ کافی پرانا اور نیلے رنگ کا تھا اور اس کی حالت کافی خستہ حال تھی ،۔ کلاس روم کا دروازہ مشرق کی جانب کھلتا تھا اور دروازے کی بائیں جانب سبز رنگ سے روم نمبر 10۔ لکھا ہوا تھا،
کلاس کے مشرقی جانب راہداری کے دوسری طرف قبرستان بھی موجود تھا،
جو دیکھنے سے خاصا پرانا معلوم ہوتا ہے اور اس کے گرد چار دیواری بنی ہوئی ہے اور شمال کی جانب قبرستان میں داخل ہونے کے لیے پرانی طرز کا دروازہ لگا ہوا ہے ،
کلاس میں احمر جب داخل ہوا تو اس کے آنے سے پہلے دو لڑکیاں جو برقع پوش تھیں کلاس میں پہلے سے موجود تھی،۔
پہلے تو احمر یہ دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا
لیکن بعد میں دل میں خیال آیا کہ میاں یہ شہر ہے اور ویسے بھی اس کالج میں coeducation ہے۔
شاید یہ بھی میری طرح پہلے دن ہی کالج آئی ہوں اور شاید یہ میری کلاس فیلو ہوں
یہ سوچتے ہوئے احمر کلاس میں داخل ہوتے ہی دروازے کے ساتھ پڑی ہوئی سٹوڈنٹ چئر پر بیٹھ گیا ،۔
جہاں دوسری طرف برقع پوش لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں ،
دیکھتے دیکھتے دو تین لڑکیاں اور کلاس میں داخل ہوئیں ان میں بھی ایک برقع پوش تھی اور ایک نے گھریلو لباس پہنا ہوا تھا ،
یہاں گھریلو لباس سے مراد وہ لباس جو گھر میں پہنا جاتا ہے کیونکہ کالج میں سفید یونیفارم پہن کر جانا ہوتا ہے مگر چونکہ یہ پہلا دن تھا سب کا تو اس وجہ سے وہ گھریلو لباس میں آگئی ہو گی
یہ ابھی داخل ہوئیں ہی تھیں کہ ان کے پیچھے پیچھے پانچ سے چھ لڑکیاں اکٹھی داخل ہوئیں اور ساتھ ہی پروفیسر مہر محمد الیاس (اسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو) تشریف لے آئے اور پہلے دن کی پہلی کلاس کا آغاز کیا گیا ،
چونکہ یہ تمام طلباء اور طالبات کا پہلا دن تھا تو استاد محترم نے بھی صرف لیکچر تعارف تک محدود رکھا۔
باری باری تمام طلباء سے پوچھا گیا کہ ان کا نام کیا ہے ان کے والد کا نام اور پیشے کے بارے میں ،اور کہاں سے تعلق رکھتے ہیں یہ سب پوچھا گیا ،
یہ سب سوالات پوچھنے کے بعد استاد محترم نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں آپ کو اردو لٹریچر پڑھایا کروں گا
یہ سب بات چیت کو آدھ گھنٹے کے بعد ختم ہوگئی اور استاد محترم رخصت ہو گئے ،
اس کے بعد احمر تقریباً گیارہ بجے تک کلاس میں بیٹھا رہا مگر کوئی بھی لیکچرار لیکچر دینے کے لیے نہیں آئے ،
گیارہ بج کر پانچ منٹ پر کالج میں گیٹ کی جانب تھوڑا سا شور سنائی دیا جو کہ آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔
احمر جلدی سے باہر نکلا تاکہ دیکھ سکے کہ کیا معاملہ پیش آیا ہے ،
یہ کیا ہے؟۔ او۔
یہ تو بچوں کے باہر نکلتے وقت ایک دوسرے سے باتیں کرنے کا شور ہے ،
وہ تمام بچے جو صبح آٹھ بجے کالج آئے تھے ان کی شفٹ ختم ہو گئی ہے اور اب گیارہ بجے والوں کی شفٹ شروع ہونی تھی
یہ زور بچوں کا ہی تھا جو واپس اپنے گھروں کو جانے کے لیے ان کو لے جانے کے لیے وین اور کیری اور لاریوں کا شور بھی زیادہ ہوگیا تھا
اسی طرح خدا خدا کر کے احمر کا پہلا دن کالج میں گزرا اور وہ اب واپس فیکٹری میں آگیا ،یونیفارم چینج کیا اور کھانا کھانے کے بعد عامر بھائی کا ہاتھ بٹانے لگا
Next Day.
آج پھر احمر صبح سویرے اُٹھا اور نماز ادا کی
اب کالج جانے کے لیے تیاری کرنے لگا ،۔
تقریباً آٹھ بجے کالج پہنچ گیا ،۔
کلاس روم جاتے ہی وہ بوکھلا گیا کیونکہ کلاس روم میں اس کے علاؤہ ایک اور لڑکا تھا جو دروازے کے پاس والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ،
احمر نے اپنی سیٹ پر اپنا بیگ رکھا اور فوراً اس لڑکے سے مخاطب ہو کر پوچھاکہ
بھائی آپ اس کلاس کے طالب علم ہیں ؟
جی بھائی ،۔ اس لڑکے نے جواب دیا
احمر کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ دل ہی دل میں خوشی محسوس کرنے لگا،
احمر نے دوبارہ اس لڑکے سے پوچھا ،
بھائی آپ کا نام کیا ہے ؟
اریب ،۔ اور آپ کا ؟
جی احمر،۔ احمر نے جواب دیا ،
اس کے بعد لیکچر شروع ہو گیا۔
اور دونوں لیکچر میں مصروف ہو جاتے ہیں ،
آب آہستہ آہستہ دونوں میں یارانہ بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ،
دوستی کا پودا اب پروان چڑھتا جا رہا ہے ہے اور ایک شجر سایہ دار کی صورت اختیار کرگیا ،
اب احمر اور اریب دونوں اکھٹے کلاس روم میں آتے اور اکٹھے ہی کلاس کے بعد باہر چلے جاتے ،
حالانکہ دونوں کے شہر بہت دور ہیں دونوں میں فاصلے کافی زیادہ ہیں لیکن دونوں کالج کے اندر آنے سے پہلے ایک دوسرے کا انتظار کرتے اور پھر اکھٹے کلاس روم میں داخل ہوتے تھے،
پھر ایک دن احمر کو احساس ہوا کہ اسے فاطمہ جو اس کی کلاس میں پڑھتی ہے سے محبت ہو گئی ہے مگر احمر نے کسی کو بھی یہ بات نہ بتائی یہاں تک کہ اپنے اکلوتے اور چہیتے کلاس فیلو اور دوست اریب کو بھی نہیں ،
لیکن کہتے ہیں نہ کہ محبت چھپائے کہاں چھپتی ہے،۔
بالکل ایسا ہی ہوا کہ احمر کی محبت افشاں ہونے لگی حالانکہ وہ اس بات کا پورا پورا خیال رکھتا تھا کہ اس کی محبت کا فاطمہ کو پتا نہ چلے مگر فاطمہ کے علاؤہ باقی پوری جماعت کو کو ظاہر ہونا شروع ہو گیا ،کیوں کہ احمر کو اس کی باقی ہم جماعت دوستوں نے بتانا شروع کر دیا کہ فلاں ہم جماعت تمہارے اور فاطمہ کے بارے میں بات کر رہی تھی آج فلاں کر رہی تھی ،
جیسے اردو عشقیہ شاعری میں محب اور محبوب کے درمیان ایک کردار رقیب کا بھی ہوتا ہے بالکل اسی طرح اب احمر اور فاطمہ کی زندگی میں بھی بے شمار رقیب تھے
ایک طرف احمر کسی آوارہ مجنوں کی طرح اپنی لیلہ کو دیکھنے کے لیے ہر حربہ اختیار کرتا اور دوسری طرف اس کی لیلہ کو بالکل بھی خبر نہیں تھی کہ احمر اس سے محبت کرتا ہے
کچھ عرصہ کے بعد فاطمہ کی دوستوں جن میں سونینہ ،ایمان اور زوہا شامل تھی نے بھی اسے بتانا شروع کر دیا کہ احمر اسے محبت کرتا ہے مگر وہ بتاتا نہیں۔
مگر فاطمہ ان باتوں کو نظر انداز کر دیتی تھی کہ اس کی دوست اس کے ساتھ شاید مذاق کر رہی ہیں،
احمر اور اریب چونکہ کلاس میں صرف دو ہی میل طالب علم تھے تو دونوں ایک دوسرے سے اپنی باتیں شیئر کر لیتے تھے ،
احمر نے جب یہ بات اریب کو بتائی کہ وہ فاطہ سے محبت کرتا ہے تو اریب نے احمر کا پورا پورا ساتھ دیا۔
اریب چونکہ کلاس کا سی آر تھا تو اس کے پاس ساری کلاس کے فون نمبر موجود تھے کیونکہ جو بھی بات یا کلاس کوئی مسئلہ مسائل ہوتا تو وہ کلاس واٹس ایپ گروپ میں شئیر کر تا تھا۔
جب اس کو پتا چلا کہ احمر کلاس میں فاطمہ سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کر سکتا تو اس نے ایک دن واٹس ایپ گروپ میں میسج بھیج دیا کہ آج کالج میں تعلیمی سرگرمیاں بند رہیں گی اس لیے تمام طلباء گھر میں ہی قیام پذیر رہیں،
مگر ساتھ ہی ساتھ فاطمہ اور احمر کو میسج بھیج دیا کہ آپ کی کسی اسائنمنٹ کا مسئلہ ہے تو آپ کو کالج لازمی آنا ہو گا،
اگلی صبح احمر اپنے معمول کے مطابق کالج پہنچ گیا تو کلاس کو ویران پایا،
بستہ کرسی پر رکھ کر خود باہر چلا گیا،
تھوڑی دیر بعد۔ اریب نے احمر کو کال کی،
اسلام علیکم!
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! اریب،
احمر تم کہاں ہو؟
اریب نے پوچھا،
میں بی ایس بلاک میں آیا ہوں،۔ احمر نے جواب دیا،
ادھر کیا کر رہے ہو؟۔ اریب نے سوال کیا۔
میں ذرا کام سے ادھر آیا ہوں،پولیٹیکل سائنس کے نوٹس لینے ہیں ایک دوست سے،
اچھا ‘۔ چلو جلدی آؤ۔ مجھے کام ہے آپ سے
اریب نے کہا
کیوں کیا ہو گیا ہے،کیا کام ہے ہے؟
احمر نے حیرانی سے پوچھا
آؤ تو بتاتا ہوں، اریب نے جواب دیا
مگر آنا کہاں ہے یہ تو بتاؤ؟
احمر نے پوچھا
ہاکی گراؤنڈ میں قبرستان والی سائیڈ پر،۔
اریب نے جواب دیا
جی اچھا ،۔ احمر نے کہا
احمر نے جلدی سے کام ختم کیا اور ہاکی گراؤنڈ کی طرف چل پڑا،
بی ایس بلاک سے مغرب کی طرف سیدھا چلتے جائیں تو بائیں جانب علامہ اقبال لائبریری موجود ہے۔ جو اپنے آپ میں خوبصورتی کا مرقع ہے،
لائبریری کے بالکل سامنے ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جس میں ہری ہری گھاس اور ساتھ سفید اور سرخ گلاب کے پھول لگے ہوئے تھے۔ لائبریری سے دس قدم آگے دائیں جانب آئی ٹی بلاک کی شاندار بلڈنگ موجود ہے۔ جو کہ خوبصورتی اور فن تعمیر۔ کا ایک عظیم شاہکار ہے،
آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے بالکل سامنے ہاکی گراؤنڈ موجود ہے۔ جو کہ سیالکوٹ ڈسٹرکٹ کی سب سے حسین اور اچھی گراؤنڈ ہے،
گراؤنڈ کے شمال مغربی کنارے کے ساتھ چار قدم کے فاصلے پر پرانا قبرستان موجود ہے۔
جب احمر اریب کے پاس پہنچا تو اریب قبرستان کے گر بنی فصیل کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔
جلدی سے نیچے اترا اور احمر سے کہا کہ جاؤ اور آج فاطمہ سے اپنی محبت کا اظہار کرو،
احمر ڈرتے ہوئے ، نہیں یار کلاس میں سارے لوگ ہوں گے ان کے سامنے ؟ میرے سے نہیں ہو گا ،
یار کلاس میں کوئی نہیں ہے آپ جاؤ اور بات کرو۔
اتنے میں احمر کا کزن شہر یار بھی وہاں آن پہنچا ، جسے پیار سے سارے دوست شیری کہتے تھے۔
کیا بات ہے ؟۔ احمر پریشان لگ رہے ہو؟
ہاں یار پریشانی کی بات ہے ،۔ احمر نے جواب دیا
شیری ایسی کونسی بات ہے ؟ مجھے بھی تو بتائیں
اریب ،۔ ایک لڑکی کو پروپوز کرنا ہے ،
ہییییں۔
شیری نے حیرانگی ظاہر کی۔ اور پھر جواب دیا
یہ بھی کوئی مسئلہ ہے چلو میرے ساتھ ،اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے ،
نہیں ڈرنے کی بات نہیں مگر وہاں پر کوئی بھی ہوا تو میرے سے بات نہیں ہو پائے گی ،۔ احمر نے کہا
او چل ہار تو بات کر باقی میں سنبھال لوں گا۔ شیری نے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں مجھے ایک کام ہے ایم اے ڈیپارٹمنٹ میں۔ اریب نے کہا
جی اچھا۔ شیری نے کہا
دونوں آہستہ آہستہ کلاس روم کی طرف بڑھنا شروع کرتے ہیں
بیس قدم کی مسافت پر وہ کلاس روم میں داخل ہو جاتے ہیں۔
اچانک احمر کی نظر فاطمہ پر پڑتی ہے اور وہ ایک دم بت سا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اتنے میں شیری دونوں کو کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل جاتا ہے اور فون پر میسج کرتا ہے۔ کہ بات کرو
احمر جواب دیتا ہے ، ٹھیک ہے میں بات شروع کرتا ہوں مگر کمرے میں کوئی نا آئے ،، اگر کمرے میں کوئی آتا دیکھائی دے تو مجھے میسج کر دینا۔
جی ٹھیک ہے۔ شیری نے کہا
احمر بات شروع کرتا ہے
اسلام علیکم! فاطمہ
وعلیکم السلام! احمر۔ کیسے ہو؟
الحمداللہ میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں۔ احمر نے کہا
جی میں بھی ٹھیک ہوں۔ فاطمہ نے کہا۔
فاطمہ میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ، احمر نے کہا
جی جی کریں فاطمہ نے جواب دیا
احمر: میں آپ سے ، میں آپ سے۔ میں آپ سے
بات احمر کے حلق سے آگے نکل ہی نہیں رہی تھی کہ اتنے میں کوئی کمرے میں داخل ہوا ،
ایک موٹی سی لڑکی جو شاید فزکس ڈیپارٹمنٹ کی تھی اپنا لیپ ٹاپ جو اس نے احمر کی کلاس میں چارجر پر لگایا تھا لینے آگئی۔
اتنے میں شیری بھی کلاس میں داخل ہوگیا اور دروازے کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا ، وہ موٹی لڑکی فاطمہ سے کچھ باتیں کرنے لگ گئی
احمر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جیسے وہ مرتے مرتے بچا ہو،
احمر غصیلی نگاہوں سے شیری کو دیکھ رہا تھا ،۔ اور شیری طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر لیے بیٹھا رہا ،۔ اور ساتھ ہی میسج کر کے بتایا کہ مجھے خود علم نہیں ہوا اس موٹی لڑکی کے آنے کا۔
خیر جیسے ہر فلم میں ایک ولن ہوتا ہے۔ ہر محبت کی داستان میں ایک رقیب ہوتا ہے۔ اس کہانی میں بھی ایک رقیب موجود ہے۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ رقیب کا کردار خوب نبھایا ہے ،
جناب کا نام حاذق ہے جو کہ احمر کا سینئر طالب علم اور دوست ہے۔
ابھی احمر اور شیری کمرے میں بیٹھے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے کہ حاذق کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ اور احمر سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ چلو تھوڑی دیر بازار تک جانا ہے ،
احمر۔ کیا کرنے جانا بازار ؟
یار کل کا موبائل خراب ہو گیا ہو ہے تو کالج آتے ہوئے ریپئرنگ والے کو دے کر آیا ہوں کہہ رہا تھا کہ گیارہ بجے آ کر لے جانا،
حاذق نے کہا
میں نہیں جانا ،احمر نے کہا۔
کیوں نہیں جانا۔ حاذق نے پوچھا ؟
بس ویسے ہی نہیں جانا۔ آپ شیری کو ساتھ لے جاؤ۔ احمر نے کہا
نہیں نہیں میں نے آپ کو ہی لے کر جانا ہے ساتھ حاذق نے کہا
یار حاذق تنگ نا کرو۔ میں نہیں جانا۔ احمر نے جواب دیا
حاذق نے احمر کو زبردستی اٹھایا اور باہر لے آیا اور کہا
میں جانتا ہوں تم کیوں نہیں جا رہے ، چپ چاپ ساتھ چلو لڑکی کے لیے بھائی کے ساتھ نہیں جا رہے
نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ احمر نے نفی میں سر ہلایا
چلو پھر کیوں نہیں چل رہے۔ حاذق نے کہا
احمر رضا مند ہو جاتا ہے اور دونوں کج سے بازار کی طرف چلے جاتے ہیں اور دونوں راستے میں خوش گپیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد احمر جب واپس آتا ہے تو فاطمہ جا چکی ہوتی ہے کیونکہ کالج میں کلاس کا وقت صرف گیارہ بجے تک ہی ہوتا ہے۔
احمر کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اب تمام دوست احمر کو دلاسہ دیتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گیا ابھی دو سال اور ہیں۔ سب دوستوں کو حاذق نے بتا دیا کہ آج میں نے احمر کو بات نہیں کرنے دی اور سات ساتھ قہقہے لگا کر ہنسنے لگا اور دوسرے دوست بھی ہنستے رہے۔
احمر بھی دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گیا اور اور یہ ساری باتیں بھول کر اگلے وقت کے بارے میں سوچنے لگا کہ آنے والے وقت میں بات کر لے گا اور اپنی محبت کا اظہار کرے گا،