110

قومی زبان اور ہمارا رویہ /تحریر/مولانا بلال توصیف/فاضل ادارہ علوم اسلامی اسلام آباد

کون نہیں جانتا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے ۔ جسے پورے پاکستان میں بولا اور سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے ۔

شعر:

اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغؔ 

سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے 

جی تو اب آتے ہیں اصل گفتگو کی طرف جو توجہ طلب بھی ہے اور قابل فکر بھی ۔ اردو زبان کے ساتھ ہمارا رویہ ایسا ہے جیسے کسی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہم سوتیلی ماں کو ماں تو کہتے ہیں مگر اسے ماں قبول نہیں کرتے ۔ بالکل ایسے ہی ہم اردو کو اپنی قومی زبان تو کہتے ہیں مگر عملاً ہم نے اسے قومی زبان کی حیثیت سے قبول نہیں کیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔ اصل شکوہ مجھے اردو پڑھانے والے اساتذہ سے ہے ۔ جب کبھی ان سے بات ہوئی وہ بھی کہتے ہیں ” سر ! اصل پرابلم یہ ہے کہ سٹوڈنٹس اس سبجیکٹ پر فوکس ہی نہیں کرتے ۔ ” مجھے بتائیں ! کیا یہ زبان اتنی لولی لنگڑی ہے کہ ہم اپنا مافی الضمیر بھی اپنی زبان میں بیان نہیں کر سکتے ؟؟؟؟

اگر اساتذہ کی صورت حال یہ ہے تو طلباء سے گلہ کس بات کا ۔ 

یاد رکھیں ! جو قومیں اپنی زبان سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی ہیں وہ اپنی تہذیب و ثقافت ، مقام و مرتبہ یہاں تک کہ اپنی پہچان تک کھو دیتی ہیں ۔ کیونکہ ہر زبان اپنی تہذیب و ثقافت لازمی ساتھ لاتی ہے ۔ اردو زبان پر رحم کریں اور اردو کو اردو میں بولیں ۔

گزارش ! میں کسی زبان کے سیکھنے کو برا نہیں کہ رہا مگر اردو کو بھی مقام و مرتبہ ملنا چاہیے اس کو اہمیت دینی چاہیے بس اتنی بات عرض کر رہا ہوں ۔

شعر:

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں